اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) منگل کو ایوان کی نجی کارروائی کا دِن تھا جس میں ان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ماحول اور حاضری کا پورا پورا خیال رکھیں گے، اجلاس شروع ہونے کے نصف گھنٹے بعد ہی کورم کے آسیب نے ایوان کو آن دبوچ لیا جب تحریک انصاف کی منحرف رکن محترمہ مسرت زیب نے مسند نشین ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ عباسی کی توجہ اُجڑے منظر کی جانب مبذول کرائی۔ وزیر داخلہ ملک کے محافظوں کی خاطر ہمیشہ شمشیر برہنہ بنے رہتے ہیں ۔اجلاس کے آخری دن چوہدری نثار کا محمود اچکزئی سے گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔ اچکزئی کی موافقت میں فضل الرحمٰن ، مولانا شیرانی اورکسی حدتک خورشید شاہ بولے۔ خورشید شاہ وزیرداخلہ کو دیئے گئے اپنے چیلنج پر پورا نہ اتر سکے۔ عمران خان کو اندازہ ہے کہ انہیں سیاسی مارپڑنے والی ہے۔رواں اجلاس میں سوات کے سابق حکمران خانوادے کی رکن نے کورم کی نشاندہی کرنے کی ہیٹ ٹرک کرلی ہے، وہ کسی سیاسی جماعت کے نظم سے منسلک نہیں ہیں اس بناء پر بے دھڑک اپنی بات کہہ ڈالتی ہیں ۔انہوں نے کارروائی میں اس وقت رَخنہ ڈالا جب محترمہ شائستہ پرویز ملک اور محترمہ آسیہ ناز تنولی کے توجہ دلائو نوٹس پر گفتگو ہو رہی تھی جس میں تمباکو نوشی کے روزاَفزوں رُجحان پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس کی زَد میں نوجوان نسل آ رہی ہے جو ملک کے مستقبل کے لئے بہت مضر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی اثناء میں کورم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس معطل کر دیا گیا۔ حکومتی ہرکاروں نے دوڑ بھاگ کر کے ارکان کو نصف گھنٹہ میں یکجا کیا اور مشکل کورم کے لئے مطلوبہ تعداد میں ایوان کے اندر لا بٹھانے میں کامیاب ہوگئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو تین روز سے قومی اسمبلی میں چھائے رہے پھر اپنی نشست پر موجود تھے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ جنہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں چوہدری نثار علی خان سے ٹاکرا کریں گے پیر کو یہ موقع ضائع کر چکے تھے وہ اس تاک میں تھے کہ چوہدری نثار علی پارلیمان سے اِدھر اُدھر ہوں تو وہ اپنا شوق پورا کرسکیں۔ وفاقی وزیر داخلہ انہیں یہ موقع فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان کا ہدف پارلیمان کے ایوانوں میں حزب اختلاف کی قیادت کے علاوہ وہ تمام لوگ ہیں جن کے نام اب ایان علی کے ساتھ آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے گرفتار شدہ امریکی جاسوس کو ملک بدر کئے جانے کے خلاف آواز بلندکرتے ہوئے کہا کہ اس کا جرم ثابت ہو چکا ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔ چوہدری نثار علی خاں نے انہیں وضاحت پیش کی کہ وہ 2011ء میں آیا تھا اور ممنوعہ علاقے سے گرفتار کیا گیا اس کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت رہا کسی نے اس پر جاسوسی کا الزام عائد نہیں کیا۔ انہوں نے زیر تذکرہ امریکی کے لئے جاسوس کا لفظ ہی استعمال کیا اور بتایا کہ اس نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کر رکھی ہے جو اپنے بچوں سمیت امریکہ میں اَقامت پذیر ہے۔ یہ امریکی میاں اپنے سسر کے ہاں اقامت پذیر تھا اس نے تفتیش کے دوران بتایا کہ وہ پانچ سال کے بعد پاکستان اس خیال سے آیا تھا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ حذف اور تلف ہو چکا ہوگا لیکن پھر بھی پکڑا گیا۔ انہوں نے اس کے لئے ویزا کے اجراء میں بے قاعدگی کا بھی حوالہ دیا اور بتایا کہ اس سلسلے میں وضاحت مشیر داخلہ پیش کریں گے وہی ذمہ دار شخص کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کے جس انسپکٹر سے امریکی نے سازباز کر رکھی تھی اسے نوکری سے برخاست کرنے کے لئے کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بھی پیش رفت کے بارے میں ایوان کو آگاہ کیا۔ قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی نے اسپیکر سے استدعا کی کہ انہیں بدھ کو دس سے بیس منٹ تک اظہار خیال کا وقت دیا جائے تا کہ کوئٹہ کے واقعہ کے بعد ان کے حوالے سے ایوان میں جو باتیں ہوئی ہیں وہ ان کا جواب دے سکیں۔ اس پر چوہدری نثار علی خاں پھر گویا ہوئے کہ وہ جو باتیں کر چکے ہیں اس کے لئے جوابدہ ہیں اور جو باتیں محمود خان نے کی ہیں اس حوالے سے وہ خود جوابدہ ہیں، بہتر ہوگا کہ جب معزز رکن بات کریں تو وہ بھی ان کا جواب دینے کے لئے ایوان میں موجود ہوں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو غیرمعینہ عرصے کے لئے ملتوی ہو جائے گا۔ راولپنڈی کے رکن اسمبلی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں کہ قومی اسمبلی کا آئندہ اجلاس منعقد ہی نہیں ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ اور حکومتی ڈبل شوٹر سینیٹر محمد اسحٰق ڈار نے قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ سے ملاقات کر کے کرپشن کے خلاف نیا قانون بنانے کے لئے مفاہمت طے کرلی ہے اور اس کے لئے طریق کار وضع کرنے کی غرض سے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کو کردار سونپا جائے گا۔ اس سلسلے میں حزب اختلاف کے پارلیمانی گروپ لیڈرز بہت جلد سر جوڑ کر بیٹھیں گے۔ دُوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جنہیں حکومت کے خلاف اپنی نمبر دو تحریک کے پہلے مرحلے میں ہزیمت کا سامنا رہا اب بادل نخواستہ دوسرے مرحلے کا اَذن کر رہے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ مرحلہ بہت جاں گسل ہے اور اس میں انہیں بڑی سیاسی مار پڑنے والی ہے لیکن وہ مجبور محض ہیں انہیں کسی وجہ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کے لئے آخری موقع ہے اگر ان میں سیاسی تدبر ہوتا تو انہیں احساس ہو تا کہ وہ نئی مہم جوئی کے ذریعے آئندہ سال کے اختتام پر پیدا ہونے والا موقع کو کھو رہے ہیں ۔