دسمبر 1930ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس الہ آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں علامہ محمد اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچ دیا تھا ’’میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام، اسلامی فقہ، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔ میں اس امر سے مایوس نہیں کہ اسلام ایک زندہ قوت ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ملا دیا جائے۔ اسلامی ریاست کے قیام سے ہندوستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن وامان قائم ہو جائے گا۔ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ ‘‘
علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آباد کے 10سال بعد 23مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں تین روزہ سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ اور تاریخ ساز اجلاس تھا جس میںریاست جموں کشمیر سمیت برصغیر کے تمام خطوں سے مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں قرارداد لاہور پیش کی گئی جو بعد ازاں پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ بنی۔ ہندو پریس اور کانگریس کے رہنمائوں نے اس پر ’’قرارداد پاکستان ‘‘ کی پھبتی کسی اوراس کا تمسخرو مذاق اڑایا۔ اس کے خلاف پروپیگنڈے کی توپوں کے دہانے کھول دئیے۔اسے ناقابل عمل اور دھرتی ماتا کے ساتھ دشمنی و غداری قرار دیا۔ ہندو نہیں جانتے تھے کہ جس قرارداد کو وہ مذاق و تمسخر کا نشانہ بنا رہے اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں۔ وہ صرف سات سال بعد حقیقت بننے والی ہے۔قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف ہندو پریس اور کانگریس کے رہنمائوں کے بیانات کو اگر یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ گاندھی جیسے رہنما بھی چپ نہ رہ سکے ۔ انہوںنے اپنے دل میں چھپے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ ’’اگر ساراہندوستان جل کر راکھ ہو جائے تو ہم پھر بھی مطالبہ پاکستان منظور نہیں کریں گے خواہ مسلمان اسے بزور شمشیر ہی کیوں نہ طلب کریں ‘‘ ۔ بہر کیف انگریز اور ہندو کی تمام تر مخالفت و عداوت کےباوجود پاکستان بن کر رہا۔
تحریک پاکستان کے یوں تو تمام پہلو ہی قابل ذکر اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں تاہم ایک پہلو ایسا ہے کہ جس پر آج بھی مورخین، جغرافیہ دان اور ماہر عمرانیات حیران ہیں وہ یہ کہ 1930ء کے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد اور 1940ء کے اجلاس لاہور کے درمیان صرف 10سال کا وقفہ ہے۔ اگر اس میں 1947ء تک کا دورانیہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ کل مدت صرف 17سال ہے۔وہ خود کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور پاتے ہیں کہ 17سال کے مختصر عرصہ میں اپنے وقت کا سب سے بڑااسلامی ملک پاکستان کیسے قائم ہو گیا؟ انگریز اور ہندو بے پناہ وسائل اور لامحدود قوت وطاقت رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں کیوں ناکام رہے؟ بلاشبہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کا محیرالعقول واقعہ وکارنامہ ہے۔ اس محیرالعقول کارنامے کا سبب علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آبادکے اس ایک فقرے میں مضمر ہے کہ ’’اسلام ایک زندہ قوت ہے۔‘‘ بات یہ ہے کہ جہاں اسلام ہے وہاں بزدلی و غلامی کا کوئی گزر ومقام نہیں۔ جیسے تاریکی کا کوئی مثبت وجود نہیں ۔ اسی طرح جب مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو ان کیلئے منزل مقصود پر پہنچنا آسان ہو جاتا ہے اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔تحریک آزادی کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جس ملک کا خواب دیکھا اور جس راستے کا انتخاب کیا اس کی منزل صرف اور صرف اسلام تھی۔ یہ اسلام کی ابدی حقانیت ہی تھی کہ جس نے برصغیر کےبکھرے مسلمانوں کو ایک ایسی زندہ قوت بنا دیا کہ جس سے ٹکرانا اور جھٹلانا انگریز اور ہندو کے بس میں نہ رہا۔اسلام نے مسلمانوں کو کچھ اس طرح سے ایک لڑی میں پرویا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جن کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا مثلاً بہار، یوپی، پٹنہ، آگرہ، لکھنو، کانپور، فرخ آباد، قنوج، سہارنپور اور ڈیرہ دون وغیرہ کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے قیام کیلئے جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور سردھڑ کی بازی لگا دی۔ حالانکہ ان خطوں کے مسلمان اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ جغرافیائی طور پروہ پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی احتمال تھا کہ وہ شاید بحفاظت پاکستان پہنچ بھی نہ پائیں۔ اس کے باوجود ایک ہزار کی ہندو آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان کیلئے بھی یہ نعرے بہت پُرکشش تھے۔
’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ‘‘
’’جیسےلیاتھا ہندوستان…ویسے ہی لیں گے پاکستان‘‘۔
’’بولو بھیا ایک زبان… بن کے رہے گا پاکستان‘‘
مسلمانوں کے اس عزم و استقلال اور ایمانی جذبہ وولولہ کی وجہ و بنیاد یہ تھی کہ وہ کلمہ طیبہ اور پاکستان کو ہم معنی سمجھتے تھے ۔ علی گڑھ کے رہنے والے ایک باہمت مسلم نوجوان سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے جب یہی سوال پوچھا تو اس نوجوان نے جواب میں کہا تھا ’’یہ درست ہے کہ ہمارا خطہ پاکستان میں شامل نہیں ہو گا، جغرافیائی اعتبار سے ہم پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ پاکستان ہمارے لئے اسلام کا قلعہ ، حفاظتی حصار، روشنی کا مینار اور امیدوں کا چراغ ثابت ہو گا۔ پاکستان کے مسلمان ہمیںتنہا نہیں چھوڑیں گے، وہ ہمارے لئے مضطرب و بے قرار اور مدد کیلئے ہمہ وقت بے تاب رہیںگے۔‘‘
پاکستان کیلئے قربانیاں دینے والوں نے اپنا فرض پورا کر دیا، ان کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں یہ ملک قائم ہوا، یہ ملک ہمارے لئے اللہ کا انعام، ابرِبہار، شجر سایہ دار اور نعمت پروردگار ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مملکت خداداد کی قدر کریں۔ موجودہ حالات میں ہمیں مایوس و ناامید اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ شکار صرف شاہین اور شہباز کا کیا جاتا ہے ۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا کا شاہین اور شہباز ہے عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اس لئے یہ غیرمسلموں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کیا ہوا اگر دشمن زیادہ ہیں، طاقت ور ہیں، ہمارے بارے میں ناپاک عزائم وارادے رکھتے ہیں،دشمن تو 1947ء میں بھی تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو۔ ان کے نہ چاہنے کے باوجود یہ ملک قائم ہوا اور اس کو تاقیامت سلامت رہنا ہے ۔ بات یہ ہے کہ دشمنوں کا کام ہی دشمنی کرنا ہے۔ سودشمنوں سے دشمنی کا کیاشکوہ ! دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہم خود اپنے ملک کیلئے کیا کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے ساتھ مخلص ہو جائیں،بزدلی کو چھوڑیں، جہاد کو زندہ کریں، اسلام پر عمل کریں، اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں، سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ہمارے رہنمائوںاور حکمرانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رنجشوں، کدورتوں، تنازعات اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے افہام وتفہیم اور اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کریں۔صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کے بارے میں بھی سوچیں۔اس وقت پورا عالم اسلام مصائب کا شکار ہے۔ غزہ لہو لہو ہے۔ افغانستان، عراق، مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان بھی ابتری کا شکار ہیں۔ رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس فرمان کی روشنی میں ہمارا مستقبل عالم اسلام کے ساتھ اور عالم اسلام کا مستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ مظلوم خطوں کے مسلمان پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور اسے مضبوط و مستحکم کریں۔