• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادبی محققین نے اردو کی پہلی غزل حضرت امیر خسرو سے منسوب کی ہے جس میں فارسی کی آمیزش بھی تھی۔ اُنکے بعد غزل گو شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جو عہد حاضر میں حسرت موہانی سے شروع ہو کر باقی صدیقی سے لیکر ناصر کاظمی‘ شکیب جلالی‘ فیض احمد فیض اور احمد فراز تک چلی آرہی ہے... غزل کے اساتذہ سے لیکر نئی نسل کے شعراء تک نےاپنے محبوب کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملائے ہیں اورایسی ایسی مبالغہ آرائی کی گئی ہے اور اتنی دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ... لیکن ہمارے عہد کے سیاستدان مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی میں غزل گو شعراء کو بھی مات دے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ماضی کے سیاستدانوں کا ریکارڈ بھی کوئی خاص اچھا نہیں‘ لیکن اپنے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری تو اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں... 2012ء میں علامہ صاحب جب اسلام آباد آئے تھے تو اپنے ہمراہ آنیوالے مریدین کی تعداد جو 30سے 50ہزار تھی اُسے اُنہوں نے لاکھوں کا مجمع قرار دیا تھا۔ ماڈل ٹائون میں ہونے والی ہلاکتوں اور زخمی افراد کی تعداد میں بھی اُنہوں نے انتہائی غلط اعدادو شمار پیش کئے اور کہیں بھی ثابت نہ کر سکے۔ اسلام آباد میں اپنے انقلاب مارچ کے بارے میں اس مرتبہ بھی اُنہوں نے حددرجہ مبالغے سے کام لیتے ہوئے چند ہزار افراد کو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور ’’ملین مارچ‘‘ قرار دے دیا اور لگتا ہے کہ بیانات اور اعدادو شمار میں مبالغے اور تضادات کے حوالے سے عمران خان بھی اُنکے زیراثر آ گئے ہیں۔ اس مرتبہ اُنہوں نے آزادی مارچ کے حوالے سے ایک لاکھ موٹر سائیکل سواروں کی مارچ میں شرکت کا اعلان کیا تھا... لیکن یہ تعداد ہزاروں میں بھی نہ پہنچ سکی۔ اسی طرح 10لاکھ کارکنوں کی شمولیت کے اعلان وہ بار بار کرتے رہے جبکہ ’’ڈرون کیمروں‘‘ کے ذریعے ان اجتماعات کی کوریج کرنے والے ٹی وی چینلوں نے ایسے تمام دعوئوں کی نفی کر دی اور ’’عینی شاہد‘‘ کے طور پر عوام کو تمام مناظر اور تعداد براہ راست دکھادی۔
اتوار کی صبح کا آغاز بھی اُسی طرح ہوا جس طرح گزشتہ کئی دنوں سے اعصاب شکن شب تمام ہوتی ہے... آزادی کے جشن کے بعد انقلاب اور آزادی مارچ کے ’’بینر تلے‘‘ اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح ٹی وی چینلوں پر لمحہ بہ لمحہ اسکی منظر کشی ہو رہی ہے‘ بلند بانگ دعوے‘ خدشات‘ امکانات‘ توقعات‘ وسوسے نجانے اور کیا کیا کچھ... کامیابیوں کی خوش فہمیوں اور ناکامی کی مایوسیوں نے ملک میں ایک اضطرابی صورتحال پیدا کر رکھی ہے‘ لوگ ہاتھ میں ریموٹ تھامے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اپنی اپنی پسند کے نعرے سننے، اپنے اپنے پسندیدہ چہرے دیکھنے اور اپنے دل کی باتیں سننے کیلئے... لیکن ٹی وی کے ان ناظرین میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں‘ نہ ہی اُنہیں حکمرانوں کی باتیں اچھی لگتی ہیں اور نہ ہی سیاستدانوں کے چہرے، وہ تو صرف اس لئے ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ وطن عزیز کے سیاست دان کس قیمت پر کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟ پانی‘ بجلی‘ گیس اور روزمرہ کی اشیائے ضرورت کے حوالے سے، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے یہ لوگ ان سیاست دانوں کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے وطن سے وابستگی کے باعث یہ منظر دیکھتے ہیں‘ پھر اس لئے بھی کہ جوان بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ ’’آزادی‘‘ لینے کیلئے گھر سے نکلا ہوا ہے لیکن آزادی کے جنون میں اتنا مگن اور گم ہو چکا ہے کہ اُس کا کچھ پتہ ہی نہیں کہاں ہے؟ بوڑھی آنکھوں سے کئی کئی گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھے ’’انقلابیوں‘‘ کے چہرے دیکھتے دیکھتے پانی بہنا شروع ہو گیا ہےکہ شاید ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے اُنہیں اپنی بہو بیٹیاں بھی نظر آجائیں جو گھر بار چھوڑ کر انقلاب لانے اور نظام بدلنے کی تسلی دے کر گھر سے نکلی ہوئی ہیں اور نجانے کس حال میں ہوںگی؟
وفاقی دارالحکومت میں بیک وقت ’’انقلابیوں اور آزادی کے جنون‘‘ والوں کا مشترکہ اکٹھ‘ شہر اقتدار کا پہلا واقعہ ہے۔قائدین کے عزائم‘ ارادے اور مقاصد اپنی جگہ... لیکن کارکنوں کے جذبے اور ایثار کو کبھی فراموش اور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خواہ وہ کسی بھی جماعت کے ہوںکسی بھی سیاسی سوچ کے حامی ہوں... اسلام آباد کی برستی بارش میں ان ہزاروں کارکنوں نے جس استقامت سے اپنے قائدین کے دیدار اور گفتار کیلئے انتظار کیا اور بعض مواقعوں پر اُن سے جس وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا... لیکن کیا اُن کارکنوں کی یہ قربانیاں رائیگاں جائیں گی‘ یہ سب کچھ سعی لاحاصل ثابت ہوگا؟؟ نہیں ہرگز نہیں۔ قربانیاں‘ جدوجہد اور ایثار کبھی رائیگاں نہیں جاتے‘ جس انداز سے اور جتنی جدوجہد کی جاتی ہے اس کے ثمرات بھی اتنے ہی ملتے ہیں... ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آزادی کے ’’جنونیوں اور انقلابیوں‘‘ کی خواہشوں کے مطابق تبدیلی نہ آئے... لیکن تبدیلی آئے گی ضرور آئے گی۔ تبدیلی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تبدیلی وزیراعظم کے استعفیٰ کی نہ ہو‘ لیکن اُن کے اس مجموعی طرز عمل اور رویوں میں آ جائے جن پر اپوزیشن ہی نہیں بلکہ اُن کے بیشتر رفقاء‘ کابینہ اور اسمبلی میں خود اُنکے اپنے ارکان بھی معترض ہیں۔ اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے علاوہ اُن شہروں میں جہاں سے مسلم لیگ (ن) نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی کارکن قیادت کی لاتعلقی اور بے اعتنائی پر شاکی ہونے کے بعد اب مشتعل ہونے کی حد تک ناراض ہیں۔ یہ تبدیلی بھی آ سکتی ہے کہ وزیراعظم ’’مشیروں اور نیاز مندوں‘‘ کے جس حصار میں ہیں اُسے یا تو سرے سے ختم کر دیں یا پھر اس کے دائرہ کار کو ہی وسیع کر دیں۔ ناراض رفقاء اور کارکنوں کو گلے لگائیں اور جن اتحادیوں سے وعدے کئے تھے اُنہیں پورا کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی تسلسل کے ساتھ یقینی بنائیں اور اُن رفقاء کے مشورے اب نظرانداز کر دیں جو اُنہیں کہتے ہیں ’’آپ غیرملکی دورے کریں معیشت کو ٹھیک کرنے اور ترقیاتی کاموں کیلئے مصروفیات جاری رکھیں‘ پارلیمنٹ اور سیاسی مخالفین کو ہم خود سنبھال لیں گے‘‘ لیکن آج کی صورتحال یہ بتاتی ہے یہ مشورے بھی غلط تھے اور ان پر عملدرآمد کا فیصلہ بھی...
چہرے پڑھنے والوں نے ہی نہیں بلکہ دور سے دیکھنے والوں نے بھی 14اگست کو پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہونے والی جشن آزادی کی تقریبات میں یہ دیکھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے چہرے پر ’’جشن کے دن بھی‘‘ خوشی اور اطمینان کی جگہ اضطراب تھا‘ وہ متفکر دکھائی دیتے تھے‘ اُن کے چہرے پر شاید اس حد تک سنجیدگی تھی جو بے یقینی کی کیفیات کی عکاسی کر رہی تھی۔ ’’چہرے کی تبدیلی بھی تو تبدیلی ہوتی ہے‘‘۔ اطلاعات تو یہی ہیں کہ انقلابی اور جنونی اگر اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوئے اور وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو پھر واقعی وزیراعظم نواز شریف عملاً بھی ایک تبدیل وزیراعظم ہوں گے... اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیراعظم اپنی کابینہ میں قابل ذکر تبدیلیاں کریں گے۔ اہم وزارتیں جو اُنہوں نے اپنے پاس رکھی ہیں‘ وہ وزارتیں جو خالی ہیں یا پھر بعض وزراء کو اُن کے اضافی چارج دیئے گئے ہیں‘ اُن پر مستقل وزیر فائز کئے جائیں گے‘ جن میں بعض غیرمتوقع ارکان بھی شامل ہونگے۔ حکومتی اقدامات اور سیاسی رابطوں کے حوالے سے ترجیحات کا تعین ازسرنو کیا جائےگا۔ دور رہنے والوں کو قریب کیا جائے گا جن میں سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں۔ ان شکایات اور تاثر کو بھی زائل کیا جائے گا کہ وزیراعظم محض محدود اور مخصوص رفقاء کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور اس تبدیلی کا نہ صرف اُن کی جماعت‘ حکومت بلکہ عوامی سطح پر بھی خیرمقدم کیا جائیگا... اور یہ تبدیلی سب کیلئے نیک فال ہو گی... لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تبدیلی سب کیلئے قابل قبول ہوگی...؟؟؟؟
تازہ ترین