گذشتہ سہ ماہی سے ملک ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ مطالبات،ان کے اوقات اور طریقہِ ٔواردات میں اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہوتو میں ذہنی امراض کے معالج سے اپنی ذہنی حالت کے معائنہ کیلئے تیار ہوں۔ خدا نہ کرے کہ وہ بھی کوئی مطالبہ کر بیٹھیںاور مجھے ہسپتال ہی میںرہنا پڑ جائے۔ موجودہ آزادی اور انقلاب کی انوکھی مارچ کے مطالبات سن کر مجھے 1991ء کا ایک قصّہ یاد آیا۔ایک روز میری بیگم لاہور کے مشہوراچھرہ بازارمیںخریداری میں مصروف تھیںاور میں گاڑی میں بیٹھا ان کے انتظار میں تھاکہ وہاں ایک سیاسی مذہبی جماعت کے لگائے امدادی کیمپ سے ترانوں، اعلانات اور مطالبات سننے کا موقع ملا۔ یہ کارروائی آپ بھی سن لیجیے۔ پہلے اہل محلہ کے سننے کیلئے اونچی آواز میں ملی نغمے لگائے جاتے جس میں سب سے زیادہ بجنے والا ترانہ ’’جاگ اٹھا ہے پاکستان‘‘ کی راگ الاپی جاتی۔ اس کے بعد ضروری اعلان سنیے کی صدا گونجتی اور عراقی جنگ زدہ دوستوں اور چلاس کے زلزلہ زدگان بھائیوں کیلئے فراخدلی سے چندے کی اپیل کی جاتی اور تفریح طبع کیلئے تین چاراور ملی نغمے سننے کو ملتے۔پھر مطالبات کی باری یوںآتی ۔ بلندوبانگ آواز میں کہا جاتا ’’حضرات! ہمارا مطالبہ ہے کہ امریکی عراق سے چلے جائیں، یہودی فلسطین کو خالی کردیں، روسی افغانستان سے پسپا ہوجائیں‘‘ اور پھر تین چار ملی نغمے۔ یہی سلسلہ اسی ترتیب سے جاری رہتا۔ بیگم کے جلد واپس نہ آنے کے غصے اورمطالبات سے تنگ آ کر میں’’پومی بٹ‘‘ کیطرح امدادی کیمپ میں خود پیش ہوگیا۔ اپنی آخری پونجی جیب سے نکال کر چندہ دینے کی خواہش ظاہر کی تو وہاں موجود شخص نے پوچھا کہ چندہ عراق کے دوستوں کیلئے ہے یا چلاس کے بھائیوں کیلئے ؟میں نے کہا ’’پہلے پاکستان‘‘۔ نام پوچھنے پر کہا ’’فقط پاکستانی‘‘۔ چندے کی رسید وصول کرتے ہی میں نے ان سے دریافت کیا کہ بھائی صاحب آپ دنیا کے امن اور آشتی کیلئے اتنے بلندوبانگ مطالبات آخر کس سے کر رہے ہیں اوربظاہر حیرانی سے پوچھا کہ جناب اچھرہ کی تاریخی متوسط گنجان آبادی میں امریکی، یہودی اور روسی اپنے اہل وعیال کے ساتھ کب سے آ بسے ہیں؟ اس پر انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جناب پھر آپ ہی بتا دیجیے اور ہم کیا کہیں‘‘میں نے ان سے اتفاق کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔خوش قسمتی سے بیگم بھی اسی لمحے واپس آگئیں اور ہم نے اپنی راہ لی۔میںموجودہ مطالبات کو دہرانے کی قطعاً ضرورت نہیںسمجھتا کیونکہ آپ کے کان پک چکے ہوں گے۔ اس گھسے پٹے محاورے کا اصل مفہوم بھی آپ کو اس بار سمجھ میں آیا ہوگاکہ کان کا پکنا کسے کہتے ہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گاکہ اچھرے کے مطالبات اللہ کے بعد امریکہ سے کئے جارہے تھے اور آبپارہ کے مطالبات اللہ کے بعد فوج سے کئے جارہے ہیں۔قارئین کرام! خوش قسمتی یا بد قسمتی سے میں ماسوائے شریف برادران کے، باقی سب سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اپنے اچھے اور ان کے برے یا اس کے بر عکس اوقات میں مل چکا ہوں اور سبھی کو بخوبی جانتا بھی ہوں۔ ماضی کے تمام مشاہدات کی بنا پر میںشروع سے آج تک عمران خان کے خلوص نیت اور حق گوئی سے متاثر رہا۔ یہ اُس وقت بھی جوشیلے تھے اور آج بھی ہیں۔ اُس وقت بھی ان کی خوبی یہی تھی کہ یہ سیاست دان نہ تھے محض اچھے انسان تھے اور یہی کیفیت آج بھی برقرار ہے۔ میری انہیں پسند کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ ہمیں پاکستان میں سیاست دانوں کی بجائے اچھے انسانوں کی ضرورت تھی اورآج بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ادھیڑ عمر میں پہلی بارمیں نے ان ہی کو ووٹ ڈالابلکہ اپنے عزیزو اقارب سے لے کر کئی ’’پِٹھو گرم‘‘ دوستوں اور جاننے والوں کوبھی عمران خان کے قافلے میں شمولیت کی ترغیب دی کیونکہ میں نے انہیں ہمیشہ ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن سمجھا۔یقینا ’’عادی‘‘ ووٹروں سے ہٹ کر نوجوانوں کی ولولہ انگیز شرکت اور میرے جیسے ہزاروںبزرگان کی شمولیت ایک خوش آئند عمل تھا۔ یقین کیجیے کہ تحریک انصاف کو انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرنے پر میں اپنے تئیںمطمئن تھا کہ مزید وقت ملنے سے اس جماعت کی قیادت کی سوچ اور عمل کی پختگی میں اضافہ ہوگا۔ اطمینان کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک صوبے میں حکومت بنا کر اس کو مثالی بنانے کا موقع میسر آیا۔ عمران خان کیونکہ کرکٹ کی اصطلاحات شوق سے استعمال کرتے ہیںلہذامیں بھی اسی زبان میں بات کرنا چاہوں گا۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ ٹیسٹ میچ یک لخت 20/20 کیسے ہوگیا؟ میرے نزدیک بے صبرا فاسٹ بائولر کبھی کامیاب بائولر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے بائونسرسے اگلے کا سر توپھاڑ سکتا ہے مگر وکٹ نہیں گرا سکتا۔ان کا یہ کہنا کہ ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے پر بلے باز کو واپسPavilionلوٹ جاناپڑتاہے،یقینا ان کے دور میں ایسا ہی ہوتا تھا مگر آجکل ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کے بعد Third Empireپہلے یہ یقین کرتا ہے کہ کہیں No Ballتو نہیںہوئی؟یوں لگتا ہے جیسے عمران خان پرانے قواعد پر ہی چلتے ہوئے No Ballپر NO Ballکروائے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک عمران خان ایک عمدہ آل رائونڈر تھے جنہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ سلپ میں کیچ دینے کی بجائے فرنٹ فٹ پہ اسٹریٹ بیٹ سے کھیلیںکیونکہ اسی میں ملک کی بھلائی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کسی کو ان کی مثبت سوچ اورسیاسی اصلاحات سے بالکل انکار نہیںہو سکتا البتہ ان کے طریقۂِ حصول سے اختلاف ہوسکتاہے۔یقینا ہمیں جمہوریت چاہیے، بادشاہت نہیں، کرپشن اور غربت کا خاتمہ، لوگوں کیلئے روزگار، مہنگائی میں کمی ، بیرونی قرضوں سے نجات اور قانون کی بالا دستی ان حالات میں اشد ضروری اور اہم مطالبات ہیں مگر ان کا حصول جمہوری سوچ اور عمل پر ہی ہونا چاہیے اورلفظ تحریک انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔بلا شبہ اس عمل کو مکمل کرنے کیلئے حکومت کو بھی ان مطالبات اور اصلاحات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ ’تالی‘ بجے اور دونوں ہاتھوں سے بجے کیونکہ ایک ہاتھ سے تو تھپڑ ہی رسید ہو سکتا ہے۔ صبرے بلے باز اور بے صبرے بائولر سے میری التجا ہے کہ اس ملک کو خدا را قذافی سٹیڈیم نہ بنائیں، فقط ملک ہی رہنے دیں۔ آخر میں بادشاہ اور شہزادے کیلئے ٹرافی یا ٹافی کے طور پرسید ضمیر جعفری کاایک شعر پیش خدمت ہے:
مسلماں کے سرپر خواہ ٹوپی ہو نہ ہو لیکن
مسلماں کے سر سے بوئے سلطانی نہیں جاتی