فارسی میں کہتے ہیں’’خوئے بد رابہانہ بسیار‘‘ ایک کے بعد دوسرا بہانہ کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ برقرار رہے اور عوام کا کوئی مطالبہ، کسی عدالت کا فیصلہ اور جمہوری نظام کے کسی خیر خواہ کا کوئی مشورہ ماننا نہ پڑے، مگر کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
چلو مان لیا ڈاکٹر طاہر القادری کا الزام اور دعویٰ غلط ہے، بلا ثبوت اور بغیر دلیل مگر لاہور کے سیشن کورٹ کا فیصلہ؟ جسے عدالت عالیہ نے برقرار رکھا، جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جسےپنجاب حکومت نے دس بارہ روز تک دبائے رکھا اور کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی اور جے آئی ٹی رپورٹ۔کیا سب جھوٹ کا پلندہ ہے، حکومت کے خلاف سازش اور مخالفین کا پروپیگنڈا ؟
ماضی میں سانحہ ماڈل ٹائون سے کم سنگین واقعات پر وزیروں اور سرکاری عہدیداروں کے استعفوں کی روایت موجود ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکمرانی میں بی بی عابدہ حسین کا بینہ کی رکن تھیں۔ سردار فاروق لغاری سے میاں نواز شریف کی صلح اور پھر بینظیر حکومت کا خاتمہ بی بی کی شٹل ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا مگر بجلی چوری کا ایک سیکنڈل منظر عام پر آیا الزام لگا کہ خاتون وزیر کے زرعی فارم پر بجلی چوری ہوتی ہے۔ تحقیقات سے قبل ہی عابدہ حسین نے وزیر اعظم کو استعفیٰ پیش کردیا اور وزیر اعظم نے منظور کرلیا۔
سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے صاحبزادے سردار دوست محمد کھوسہ شریف خاندان کے قابل اعتماد ساتھی تھے اتنے زیادہ قابل اعتماد کہ 2008ء میں میاں شہباز شریف سے قبل انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا پھر اہم ترین وزیر مگر ان پر اداکارہ سپنا کے قتل کا الزام لگا تو وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ان سے استعفیٰ طلب کیا اور وہ ایک عام ایم پی اے کے طور پر تھانے میں پیش ہوگئے۔ تحقیق، تفتیش، ثبوت ا ور کسی عدالتی فیصلے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ ضرورت تھی بھی نہیں اعلیٰ ریاستی مناصب پر فائز شخصیات کا دامن ہر طرح کے داغ دھبوں سے پاک ہونا چاہئے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد میاں شہباز شریف نے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو کابینہ سے سبکدوش اور اپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو اپنے منصب سے الگ اسی اصول اور روایت کے تحت کیا، مگر اب اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن نے(جس کا تقرر وزیر اعلیٰ پنجاب نے خود کیا، جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ خود اس واقعہ میں ملوث پائے گئے تو استعفیٰ دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گے)اس سانحہ میں میاں شہباز شریف سے لے کر رانا ثناء اللہ تک کو ملوث قرار دیا تو حیلہ جوئی اور بہانہ سازی سے کام لیا جارہا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پر کمیٹی بٹھا دی گئی ہے اور سیشن کورٹ کا فیصلہ ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تو انٹرا کورٹ اپیل کا اعلان کردیا گیا حالانکہ یہ اپیل ایف آئی آر کے اندراج کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ مقصد تاخیر کے سوا کچھ نہیں، ایف آئی آر کا اندراج تو یقینی ہے۔
حکمران صرف قانون پر عملدرآمد کے ذمہ دار نہیں ہوتے وہ دوسروں سے بھی قانون کی پابندی کراتے اور شہریوں کے لئے رول ماڈل سمجھتے جاتے ہیں، اگر وہ خود قانون کے اطلاق اور اخلاقی و سیاسی روایات کے بجائے حیل و حجت اور موشگافیوں کا سہارا لینے لگیں تو عدالتیں ، قانون اور ضابطے مذاق بن کر رہ جاتے ہیں، اس کا فائدہ جرائم پیشہ ،قانون شکن اور بدعنوان افراد اور گروہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے سرکاری منصب کی آڑ میں قانون پر عملدرآمد اور عدالتی فیصلوں کی تعمیل سے گریز معاشرے میں طوائف الملوکی کو فروغ دیتا ہے، قاتلوں کو کھلی چھٹی دینے اور مقتولوں کو قانون شکنی، احتجاج اور دھرنوں کی راہ دکھانے کی ترغیب۔ اپنے بہی خواہوں اور ہمدردوں کے لئے یہ پیغام کہ غلطی اگر کسی وزیر ،مشیر، رکن اسمبلی سے ہوئی تو ناقابل معافی، الزام کسی دوسرے پر لگا تو استعفے کی سزا کا مستحق مگر اپنی باری آئی تو سات نہیں چودہ خون معاف۔ بنیئے کے باٹ لینے کے اور دینے کے اور۔
میں میاں شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کارگزاری اور میرٹ پر فیصلے کرنے کی عادت کا مداح ہوں، بعض پالیسوں کا ناقد ہونے کے باوجود میں موجودہ سیاسی ایلیٹ میں ان کا دم غنیمت سمجھتا ہوں مگر 17 جون سے اب تک انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اپنی ہی قائم کردہ روایات سے انحراف کیا اور بردار بزرگ کی ہدایات یا نادان مشیروں کے مشوروں پر قتل عام کے ایک شرمناک واقعہ کا ملبہ غریب پولیس اہلکاروں پر ڈالنے کی کوششوں پر صاد کیا وہ میرے لئے مایوس کن اور حیرت انگیز ہے۔ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان۔ وہ منصب اور اقتدار بھلا کس کام کا جو زندگی بھر کی نیکنامی بہتر کارگزاری اور عوام دوستی کے کئے پر پانی پھیر دے۔ ا قتدار جیسی ناپائیدار چیز کے لئے کوئی بھلا اپنی اخلاقی برتری اور اصول پسندی کو قربان کرتا ہے؟
سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد حالات نے جو کروٹ لی، پنجاب کے حکمرانوں کو قدم قدم پر ہزیمت کا جو سامنا کرنا پڑا اور اصولوں پر سمجھوتے کی نوبت آئی اس نے ارتکاز اختیار اور شخصیت پرستی کے رجحان کی مضرت رسانی کو آشکار کردیا اگر پنجاب میں اوپر سے نیچے تک ہر حکم اور فیصلہ کلب روڈ، ماڈل ٹائون یا جاتی امراء سے صادر کرنے کی روایت پختہ نہ ہوتی ۔یہ تاثر شدت اور پختگی سے قائم نہ کیا جاتا کہ وزیر اعلیٰ کے اشارہ آبرو کے بغیر صوبے میں کوئی پتا ہلتا ہے، نہ چڑیا پر مارتی ہےتو کسی کو وزیر اعلیٰ کی طرف انگلی اٹھانے کی ضرورت تھی نہ ملوث کرنے کی جرأت۔ ماڈل ٹائون میں قائم قانونی بیرئیرز ہٹانے کا فیصلہ ایل ڈی اے کے کسی اہلکار، ڈی سی او لاہور اور تھانہ فیصل ٹائون کے ایس ایچ ا و یا ماڈل ٹائون کے ایس پی او کو کرنا ہوتا تو یہ سانحہ رونما ہونے کا ذرہ بھر امکان نہ تھا۔ سرکاری افسر اور اہلکار اپنے آپ قتل عام کی جرأت نہ کرتے اور مزاحمت پر واپس لوٹ آتے۔
میرا دل اب بھی نہیں مانتا کہ اس سنگدلانہ اقدام کی اجازت غریبوں، کمزوروں اور محروم و مظلوم عوام کی حالت زار پر تڑپتے اور حبیب جالب کے اشعار سے اپنی تقریروں کو مزین کرنے والا میاں شہباز شریف دے سکتا ہے۔ انہیں یقیناً اندھیرے میں رکھا گیا اور ان سے مسلسل جھوٹ بولا گیا مگر جب اختیارات کا منبع وہی تھے اور ہر چھوٹے بڑے فیصلے کا مرکز ان کی ذات تو پھر الزام بھی ان پر آئے گا اور اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور سیاسی روایات کے مطابق ذمہ داری بھی انہیں قبول کرنا پڑے گی ۔
جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ انہاں دے پیڑ
حضور اکرمؐ سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ایسے موقع پر جب میرا دل و دماغ آپس میں گھتم گھتا ہوں، فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہو کہ میں کیا کروں، کیا نہ کروں تو مجھے کیا کرنا چاہئے۔فرمایا ’’استفت القلب دل سے پوچھو‘‘
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے