• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کے احتجاجی طرز عمل نے جس میں سوجھ بوجھ اور دانشمندی کا فقدان اور ضد کا عنصر صاف نظر آ رہا ہے۔ حالات کو واقعتا ایک ایسی انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ کسی بھی صورت انکے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ ان کو اس بات کا اندازہ بڑی شدت سے ہوچکا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودگی میں وہ کسی طرح بھی اپنے عزائم اور ارادوں کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ لیکن اس مایوسی اور فرسٹریشن کے عالم میں وہ یہاں تک پہنچ جائیں... اسے سیاسی پاگل پن تو کہا جاسکتا ہے ۔ سیاسی فہم وفراست ہرگز نہیں۔
ہفتے کی شب پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہونیوالی ہنگامہ آرائی اور پولیس ایکشن ہم نے پارلیمنٹ ہائوس سے دس منٹ کی مسافت پر میجر (ر)عامر کی میزبانی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر سردار مہتاب خان کے’’ معیت‘‘ میں دیکھا ۔ ٹی وی اسکرینوں پر انکے صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک احتجاج کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگ رہے تھے اور سردار مہتاب خان تفکرات اور اضطراب میں ڈوبے ہوئے مسلسل سگریٹ نوش کر رہے تھے۔ انہوں نے دکھ سے کہا کہ ۔ میں صوبے میں عمران خان کی جماعت کو بڑی سہولتیں دینے اور سیاسی عمل میں بھرپور انداز سےانہیں شامل کرنے کا حامی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایک نئی نسل جوان ہوچکی ہے، میری خواہش تھی کہ عمران خان جو نیا پاکستان بنانے کی باتیں کر رہے ہیں وہ اس حوالے سے صوبے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور میں نے یہ بات وزیراعظم نواز شریف کے سامنے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کہی۔ لیکن آج خان نے اپنی سیاست کو بدامنی اور بھگدڑ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ آج یقیناً ان کی سیاست اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ (اس وقت ٹی وی اسکرین پرجنونی اور انقلابی ہاتھوں میں ڈنڈے لہراتے ہوئے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر گھس رہے تھے) اپنے منصب کے تقاضوں کے پیش نظر سردار مہتاب خان کوئی سیاسی بیان تو نہیں دے سکتے۔ لیکن انہوں نے اپنے دکھ کا اظہار ضرور کیا۔ سلیم صافی،حفیظ اللہ نیازی ،احسن سلیم ٗ میجر (ر) عامر اور حامد میر سب کے تبصروں اور تجزیوں میں حکومت کے بعض اقدامات پر کڑی تنقید تو تھی ہی۔ بعض وزرا کی کارکردگی پر شدید نکتہ چینی بھی۔ لیکن عمران خان اور طاہر القادری کیلئے کسی تبصرے اور تجزیئے میں کوئی نرم پہلو نہیں تھا۔ تاہم اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کہ اب آگے کیا ہوگا...خدشات اور امکانات تو تھے لیکن توقعات نہیں ۔
لیکن بدامنی اور بھگدڑ صرف اسلام آباد کے ریڈ زون اور پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ہی نہیں۔ بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ میں بھی مچی ہوئی ہے تاہم ابھی صرف دھواں اٹھنا شروع ہوا شعلہ بھڑکنے کیلئے کچھ وقت اور ’’موزوں حالات ‘‘کی ہوا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو نظر انداز کئے جانے کا شکوہ تو پہلے سے ہی تھا۔ لیکن حالیہ بحران میں جہاں بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی ارکان کی یہ سوچ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سے ’’پنگا‘‘ لیکر اس مرتبہ بھی اقتدار کی رخصتی کی تاریخ دہرائی گئی تو پھر آئندہ کیلئے اقتدار محض خواب ہی بنکر رہ جائیگا۔ اسلئے صدر آصف علی زرداری کی طرح وزیر اعظم بن کر پانچ سال پورے کئے جائیں (ڈیڑھ سال میں الیکشن کے خرچے بھی نہیں نکلتے)۔ دوسری طرف ایسے ارکان بھی تھے جنہوں نے فوج سے ثالثی کے کردار کی خبروں پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک منتخب وزیراعظم کی جانب سے جمہوری تقاضوں سے انحراف کے مترادف قرار دیا۔ لیکن حیرت ہے کہ سپہ سالار سے ثالث یا سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی خبریں منظر عام آنے پر حکومت کے بعض اتحادیوں کا اشتعال دیدنی تھا۔
سید خورشید شاہ نے جمہوریت کی بقا اور آئین کی بالادستی کیلئے اتنا جذباتی خطاب اس وقت بھی نہیں کیا تھا جب خود ان کے دور حکومت میں جمہوریت کو خطرہ تھا۔ قومی اسمبلی میں ایک نشست کے پارلیمانی لیڈر محمود خان اچکزئی نے وزیر اعظم سے باقاعدہ ناراضی کا طرز عمل اختیار کیا۔ وزیر اعظم کو یہ تاثر بھی بطور خاص پہنچایا گیا کہ ۔اگر صورتحال کی وضاحت نہ کی گئی تو اپوزیشن اور اتحادیوں کا کردار تبدیل ہوسکتا ہے۔ خورشید شاہ حالات سے باخبر تھے لیکن انہوں نے ایوان میں کھڑے ہو کر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے مطالبہ کیا کہ ’’فوج اس بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے بیان جاری کرے‘‘۔ یہ تمام صورتحال وزیر اعظم نواز شریف کیلئے ایک امتحان بن گئی۔ ہم بات کر رہے ہیں ہفتے کو ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس کی ۔ طے یہ ہوا تھا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان حکومت اور فوج کے مابین ثالثی ٗسہولت کار کی خبروں پر حکومت کی جانب سے حقائق بیان کرینگے۔ انہوں نے طویل تقریر بھی کی لیکن خورشید شاہ کی تقریر سے پیدا ہونے والے تاثر کو زائل کرنے کیلئے اور اس میں اٹھائے گئے نکات کا جواب دینے کیلئے وزیر اعظم نواز شریف کو ایوان میں تقریر کرنی پڑی۔ چونکہ تقریر کا پہلے سے کوئی پروگرام نہیں تھا اس سے وزیر ا عظم جو نوٹس لیکران کی مدد سے تقریر کرتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بغیر نوٹس اور مشاورت کے تقریر کی۔ جس پر ایوان میں تو ڈیسک بجائے گئے۔ لیکن ...
ڈاکٹر طاہر القادری نے سچ کہاتھا کہ۔ان کے ساتھ اسلام آباد آنیوالے کارواں میںسب کاتعلق منہاج القران یاعوامی تحریک سے نہیں تھابلکہ نصف ماہ سے موسم کی صعوبتیں اورشیرخوار بچوں کوگودوں میں لئے حالات کی اذیتیں برداشت کرنے عورتیں،بچے، جوان، بوڑھے جوپنجاب کے مختلف شہروں ،دیہات اضلاع اورپسماندہ علاقوںسے یہاں آئے تھے۔ پولیس کارروائی کے بعد اتوار کی صبح انہوں نےکوریج کرنیوالے رپورٹروں کوزخموں سے کراہتے ہوئے بتایا...گھر کے واحد کفیل بشیر کونمبردار نے صرف اس کی نوکری چھوڑنے کی پاداش میں جیل بھجوا دیا۔دوسال ہو گئےہیں،گھر کاسامان ڈھور ڈنگر بھی بک گئے۔ملاقات کیلئے جاتے ہیں توکم از کم 500روپے لگتے ہیں ’’انقلاب آگیا تو بشیربھی گھر آجائے گا‘‘۔مائی نصیبو کاکہناتھاکہ۔لوگوں کے گھروں میںکام کرتی ہوں تین جواں بیٹیاں ہیں دس سال پیسے جمع کرکے ایک کی شادی کی ہے میری اپنی عمر بھی پچا س سال ہوگئی ہے،بیس سال زندہ بھی رہی تو دونوں بیٹیوں کی شادی نہیںکرسکوں گی۔مائی نصیبوں کا ٹی وی رپورٹر سے کہنا تھا،کہ ہمیںتومعلوم ہی نہیں تھا کہ انقلاب آجائے گا توپھر حکومت بچوں کی شادی کے خرچے دیتی ہے۔اب انقلاب لانے کیلئے اپنی دونوں بچیوں کو ساتھ لائی ہوں۔ اور خالی ہاتھ واپس نہیںجاؤنگی۔ 70سالہ بزرگ حکم داد خان نے واسکٹ کی جیب سےبجلی اورسوئی گیس کےبلوں کاپلندہ نکال کردکھاتےہوئے کہا ۔ بیٹاسعودی عرب سے 30ہزار روپے مہینہ بھیجتا ہے گھر کے6افراد ہیں پوتا اورپوتی پنکھے کے بغیر نہیں سوتے ہرمہینے دس سے پندرہ ہزار روپے بل بھی آجاتا ہے۔ انقلاب آگیا تو بجلی کابل بھی غریبوں کیلئے معاف کردیا جائیگا۔
دھرنے میں موجود یہ محض چند افراد کی کہانی تھی اوران سب کاتعلق پنجاب کے دوردراز پسماندہ اورناخواندہ علاقوں سے تھا۔جہاں آج بھی سادہ لوح عورتیں سونااور نقدی دگنا کرنے کے لالچ میںآکر جمع پونجی نوسربازوں کےحوالے کردیتی ہیں۔ جعلی ریکروٹنگ ایجنٹ لوگوں کوبیرون ممالک بھجوانے کاجھانسہ دیکر کئی کئی ماہ باقاعدگی سے رقم بٹورتے ہیں۔ جہاں اس دور میںبھی جعلی عامل کینسر اوربرین ٹیومر کاعلاج تعویز دھاگوںسے کرتے ہیں۔ اورجوان بچوں کاجن نکالنےاوربانجھ عورتوں کوماں بنانے کا جھانسادیکر انہیںبے آبرو کرتےہیں۔دھرنے میں سب لوگ تو ایسے نہیں تھے۔لیکن بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ضرورتھی۔ایسے بھی تھےجو عقیدے کی زنجیروں اور مسلک کی بیڑیوں میںجکڑے ہوئے تھے....بلیک میل ہمیشہ سرمایہ اوربدعنوان لوگ ہوتے ہیں۔غریب لوگوں کوان کی مجبوریوں اورضرورتوں کی وجہ سے تابعیدار بنایا جاسکتا ہے۔غلام رکھاجاسکتاہے...دھرنے میںشامل انقلاب کے لفظی مفہوم سے بھی ناآشنا یہ غریب ،مجبور اورضعیف الاعتقاد لوگ اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہاں آئے تھے۔حکومت نے طاقت کے ذریعے انہیں واپس بھیج دیا یا پابند سلاسل بھی کردیا۔تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔کل کوئی اوران کونیا جھانسہ دیکر کہیں اورجمع کرلے گا۔ان بے وسیلہ اورسادہ لوگوں کے مسائل بڑے چھوٹے چھوٹےہیں۔ انہیں باعزت روزگار کے مواقع مل جائیں۔چوہدری اورنمبرداروں کےظلم اورنا انصافیوں سے نجات دلادی جائے۔ جھوٹے مقدمات میں کئی کئی سال سے جیلوں میں بند لوگوں کو فوری اور جلد انصاف مل جائے تو انکی ضرورتوں اور مجبوریوں کا انقلاب مکمل ہوجائے۔ پھر انہیں کوئی لیڈر انقلاب اور تبدیلی لانےکا جھانسا دیکر اسلام آباد نہیں لاسکے گا۔ انہیں ’’ راہ راست‘‘ پر لانے کیلئے نہ تو ربڑ کی گولیاں چلانے کی ضرورت ہے نہ ہی آنسو گیس کے شیل درآمد کرنے کی اور نہ ہی انہیں قابو کرنے کیلئے سکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنےکے۔ بس انہیں عزت وآبرو کے ساتھ زندہ رہنے کے اسباب مہیا کردیئے جائیں۔ ان کی زندگی میں خود انقلاب آجائے گا۔
تازہ ترین