چالیس سے جس کی راتیں بارگارہ ِ ایزدی میں رکوع و سجود کرتے گزری ہیں اور دن قدوس ِ ذوالجلال اور پیغمبرِ انسایت چارہ ساز بیکساں کی تعریف و تصوف میںدفتر کے دفتر تحریر کرتے ہوئے گزرے ہیں وہ ڈاکٹر طاہر القادری اس وقت گولیوں کی بوچھاڑوں میںاور آنسو گیس کے سلگتے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوکر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ ء حق کہے جارہے ہیں۔میرے نزدیک وہ صاحب ِ عرفان ہیں ۔ صاحب ِ عرفان کون ہوتا ہے ۔ چیخوف نے کہا تھا انسان دراصل کسی شے کی تلاش میں ہوتا ہے اسی تلاش میں تمام کائنات کو چھان ڈالتا ہے ۔ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے دھڑکتے دلوں کو ٹٹولتا ہے اور ان سے مایوس ہو کر آدم و حوا کی نبضوں پر انگلیاں رکھ دیتا ہے مگر کہیں بھی اسے اس کی تلاش کا ثمر نہیں ملتا لیکن جب وہ اپنی تلاش اپنی ذات کے اندر شروع کرتا ہے تو اس کی تلاش فیروز مندیوں اور کا مرانیوں سے ہمکنار ہوتی ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی ذات کو پہچان لیا ہے ۔اسی لئے تو ریڈ زون کے کربلا میںرسمِ شبیری ادا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس صورتحال میں بھی بہت سے دھڑکتے دلوں میں ان کا وجودکانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔دوستو! دل کے دھڑکنے کا کیا ہے وہ تو بھیڑیے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے ۔آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ وہ اہل ِ دل کون ہیں۔ان دھڑکتے دلوںمیںسے کچھ صاحبانِ توحید ہیںجو ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ماننے والوں کوبدعتی اور مشرک سمجھتے ہیں۔کچھ فرقہ پرستوں کو اس بات کی تکلیف بھی ہے کہ ایک مخالف مکتبہ ء فکر کے شیخ الاسلام کو عوامی مقبولیت حاصل ہوتی چلی ہورہی ہے ۔کچھ فتویٰ بازوں کو اس لئے بھی اچھے نہیں لگتے کہ وہ کسی مسلمان کو کافر کہنے پر تیار نہیں۔ ان کے کچھ مخالف مرتے ہوئے طالبان کے ہمدردہیں۔انہیں دہشت گردی کے خلاف ڈاکٹر طاہر القادری کی کتابوں کے کونے سنگینوں کی نوکوں کی طرح چبھتے ہیں۔کچھ ناقدین ایسے بھی ہیں جو مذہب کو افیون سمجھتے ہیں۔ جاگیرداروں کو اس لئے ان سے وحشت ہے کہ ان کے نظام میں پانچ ایکٹر سے زیادہ زمیںکوئی نہیں سکتا ۔ سرمایہ داروں کیلئے بھی ناقابل برداشت ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں غربت سے رہائی کا شوخ علم اٹھا رکھا ہے۔کچھ انا کے زخم خوردہ ہیں،کچھ اہلِ جفا ہیں،کچھ اہل ستم اور کچھ وہ غلام جنہوں نے آقائوں کا نمک حلال کرنا ہے۔نمک حلالوں سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ مگر مختلف رنگوں کی عینکیں پہننے والے دوستو!ذرا سی دیر کیلئے عینک میز پر رکھ لیجئے۔مجھے قسم ہے کھجور کے تناور درخت کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری لمحہ موجود کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہونِ منت نہیں۔جن کے لباس پر نسبت کا کوئی پیوند نہیں۔مجھے قسم ہے لوح و قلم پر لکھی ہوئی قسمتوں کی کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنے بل بوتے پر کیا ۔انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے ۔سو!ان کا شمار زندوں میں ہوتا ہے۔میرے خوبصورت خوبصورت مقبروں میں رہنے والو!دیکھو! اپنے چاروں طرف دیکھوبڑی بڑی زندہ شخصیات پر نگاہ ڈالو۔تمہیں ہر شخص کے لباس میں نسبت کے پیوند دکھائی دینگے۔آصف زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے داماد اور بے نظیر بھٹو کے شو ہر ہیں۔ نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی معنوی اولاد ہیں۔ جماعت اسلامی کے دوچار نام مولانا مودودی کی فعالیت اور علمیت کے مجاور ہیں۔ مولانا فصل الرحمن مفتی محمود کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ اسفندولی خان ، ولی خان کے بیٹے اورغفار خان کے پوتے ہیں۔ میں ان میں سے کسی کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کا موازنہ کر ہی نہیں سکتا بحیثیت ایک عالم دین بھی اس وقت دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے قدو قامت کی کوئی ایک شخصیت موجود نہیں۔ برصغیر میں ایک مولانا ابوالکلام آزاد بے مثال انشاپرداز ہونے کے ساتھ جادو بیاں خطیب بھی تھے اور دوسرے ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔اور کون ہے ایسا جس نے ایک ہزار سے زائد زندہ جاوید کتابیں تصنیف کی ہوں ۔ جس کی گفتگو روح کے تاروں پر مضراب کا کام کرتی ہو۔
کل کوئی کہہ رہا تھا میڈیا ڈاکٹر طاہر القادری کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے ان کا توکسی اسمبلی میں ایک بھی نمائندہ موجود نہیں اور ماضی میں بھی انکے علاوہ ان کی جماعت کاکوئی امیدوار کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ان کے ساتھ صرف ان کے مریدین ہیں ۔اس شخص سے میری اتنی سی عرض ہے کہ کچھ دیر کیلئے تعصب کی عینک اتار لیجئے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اردگر دیکھئے۔ وہاں آپ کوسابق وزیراعظم چوہدری شجاعت ،سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سابق وفاقی وزیر شیخ رشید ،سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی حتیٰ کہ عمران خان بھی دکھائی دیں گے۔کتنے اور ایم این اے چاہئیں آپ کو۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ انتخابات میں ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بہت بڑی عوامی قوت بن کر ابھریں گے۔ اللہ نے چاہا تو موجودہ احتجاجی مہم سے وہ لوگ انتخابات سے باہر ہوجائیں گے جو دھن ،دھونس اور دھاندلی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔اور انشاءاللہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگوں کو انتخابات میںآگے آنے کا موقع ملے گا۔ان لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا جن کی جنگ اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری لڑ رہے ہیںاوروہ تمام غریب لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہونگے جن کے حق میں 1970کے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی اورنے آواز نہیں اٹھائی ۔پھر جو انتخابی اتحاد کا منظر نامہ اس وقت نظر آرہا ہے اس میں تحریک انصاف ، ق لیگ ، پاکستان عوامی تحریک ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہیں ۔ان کے ساتھ آٹھ دس اور چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی شامل ہونگی۔مجھے یقین ہے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی مل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بے تحاشا لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیںاور پاکستان عوامی تحریک میں بھی شامل ہورہے ہیں۔نون لیگ کے و ہ ایم این اے جو ق لیگ سے آئے تھے وہ واپس اپنی پارٹی میں جانے کیلئے پر تول رہے ہیں۔بس نواز شریف کے استعفیٰ کا انتظار ہے۔