نیو یارک کے علاقے مین ہیٹن میں ایک رہائشی قصبہ گرین وچ انیسویں صدی کے آخر میں’’ آرٹسٹوں کی جنتـ‘‘ کے نام سے جاناجاتا تھا۔دو نوجوان آرٹسٹ جانسی اور سُو ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ گرین وچ میں نمونیا کی وبا پھیل گئی اور جانسی کو نمونیا ہوگیا ۔ اسکے جینے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔ ڈاکٹر نے اسکی دوست سُو کو بتایا کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ وہ زندہ رہنا ہی نہیں چاہتی۔ ادھر سُو اس کی نفسیاتی کیفیت سے واقف تھی، وہ مرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو چکی تھی۔ دن رات اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر لگی بیل کی طرف دیکھتی رہتی جس کے پتے تیزی سے جھڑ رہے تھے، وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ جس دن اس بیل کا آخری پتہ گر جائے گا اُسے مر جانا ہے۔ ان کے اپارٹمنٹ کے نیچے بہرمین نامی ایک بوڑھا اور اپنی زندگی سے مایوس آرٹسٹ اکیلا رہتا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ مرنے سے پہلے وہ ایک شاہکار ضرور تخلیق کرے گا، وہ علیحدہ بات تھی کہ اسے ابھی تک کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ شاہکار کیسا ہو گا اور نہ ہی اس نے ابھی تک اس شاہکار پر کام شروع کیا تھا۔ لیکن پھر بھی اُسے یقین تھا کہ وہ ایک شاہکارتخلیق کئے بغیر نہیں مرے گا۔ سُو بہر مین کے پاس آتی اور اُسے جانسی کی تشویشناک حالت، ڈاکٹر کی رائے اور جانسی کے بیل کے آخری پتے کے گرنے والے توہم کے بارے میں بتایا کرتی۔ بیل کے پتے تیزی سے گررہے تھے اور ایک رات جبکہ بیل پر صرف چند ایک پتے باقی بچے تھے ، بڑے زور کا طوفان آیا۔ سُو کو فکر لاحق ہوئی کہ آج اس کی پیاری دوست کی زندگی کا آخری دن ہوگا کیونکہ بیل پر اب صرف ایک پتہ باقی بچا تھا۔اُسے معلوم تھا کہ آخری پتہ اس طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اس نے جانسی کے احتجاج کے باوجود کھڑکی بند کرکے پردہ آگے کر دیا، وہ نہیں چاہتی تھا کہ جانسی آخری پتہ گرنے کا منظر دیکھے ساری رات باد وباراں اور گرج برس کا دور چلتا رہا۔صبح ہوتے ہی جانسی بے چینی سے بیل کو دیکھنا چاہتی تھی تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ آخری پتہ بھی گرچکا ہے۔ لیکن اسے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اتنے سخت طوفان کے باوجود آخری پتہ بیل پر موجود تھا۔اس کی حالت بہتر ہونے لگی اور شام تک اسکے جسم نے طاقت پکڑ لی۔ لیکن شام کو ایک ڈاکٹر نے سُو کو بتایا کہ بوڑھے بہرمین کو سخت نمونیا ہو گیا ہے اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ رات کو چوکیدار اسے تشویشناک حالت میں لیکر آیا تھا۔ معلوم نہیں طوفانی رات کے دوران کیا کرتا رہاتھا۔ چوکیدار سمجھ نہیں پایا تھاکہ اسے کیا ہوا تھا، اس کے سارے کپڑے بھیگے ہوئے تھے، قریب ایک لالٹین جل رہی تھی، ایک سیڑھی زمین پر پڑی ہوئی ملی تھی ، چند استعمال شدہ برش اور ایک آرٹسٹوں کے استعمال کی پلیٹ جس پر سبز اور پیلا رنگ مکس کئے گئے تھے۔ چند ہی دنوں میں جانسی روبہ صحت ہو گئی، بوڑھا بہرمین نمونیا کے باعث فوت ہو گیالیکن بیل کا آخری پتہ وہیں کا وہیں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کسی نے طوفانی رات وہ پتہ دیوار کے اوپر پینٹ کر دیا تھا۔
او ہنری کا 1907میں لکھا گیایہ افسانہ بہت پہلے پڑھا تھا۔ 2ستمبر 2014کو جب ایک بوڑھا ، بیمار ،مایوس اور تنہا شخص اسلام آباد کی ایک مقدس عمارت میں تاریخی خطاب کر رہا تھا تو او ہنری کا کرداربہر مین ذہن میں عود آیا۔ایک جمہوریت پرست اور مثالیت پسند نوجوان سیاسی کارکن کے طور پر میری ساری امیدیں تقریباً دم توڑ چکی تھیں۔سخت طوفان نے جمہوریت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھااور آخری پتہ گرنے میں اب کوئی ظاہری رکاوٹ باقی نظر نہیں آ رہی تھی۔سچی بات ہے تنگ نظری، خود غرضی اورآمرانہ ذہنیت کے منصوبہ سازوں کے سامنے میرے جیسے کمزور ، نحیف اور غیراہم جمہوریت پسند نے ذہنی طور پر ہار مان لی تھی۔ خود پسندی، احساسِ تفاخر ، اناپرستی اورخبطِ عظمت کی شکار دو شخصیات برسوں پہلے آمرانہ ذہنیت کے حامل ضدی کرداروں کی برتری تسلیم کر کے چوری چھپے انکی غلامی قبول کر چکی تھیں۔ ایک گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا تھا جس نے کامیابی سے جمہوریت کو کٹہر ے میں لا کھڑا کیا تھا اور آمریت کو پاکستان کیلئے آب حیات کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔
جاوید ہاشمی کی سیاست کو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔اصلی زندگی کا جاوید ہاشمی ٹی وی، اخباروں اور افسانوں والے جاوید ہاشمی سے بہت مختلف تھا۔ اسلام آباد میں ان کے حالیہ الیکشن کے دوران مجھے ان کی سیاست نے سخت مایوس کیا تھا۔ سرکاری ملازم کا ذاتی استعمال، نووارد سرمایہ دار قسم کے سیاستدانوں کو فٹیکیں ڈالنا اورانہیں سیاسی طور پر نوازنا، سیاسی کارکنوں کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دینا، سیاسی تکبر، چڑچڑا پن، بہت سی خامیاں جو روایتی سیاست کا حصہ ہیں بعض ان میں بھی دیکھیں۔جو انہوں نے کہا عمران خان نے اس کی تردید کی، جو عمران خان نے کہا ، ہاشمی صاحب کا بیان مختلف۔ دونوں کے بارے میں تصور تھا کہ پاکستان کے نجات دہندہ ، اب بندہ معذور کہ کس کا یقین کرے اور کس کا نہ کرے۔مجھے ہاشمی صاحب پر بہت غصہ آیا۔میں اکثر سوچتا کہ اس سے کہیں بہتر تھا کہ اپنی صحت اور عمر کا لحاظ کرتے ہوئے انتخابی سیاست کو خیر باد کہہ دیتے اور باقی زندگی انتشارکا شکار اور نظم وضبط سے محروم اپنی جماعت، تحریک انصاف کے نوجوانوں کی سیاسی تربیت اور تنظیم کا بیڑا اٹھا لیتے۔ جماعت میں نوجوانوں کا ایک کیڈر تیار کرتے ، جماعت کو ایک ریوڑ سے ایک منظم جماعت بناتے جو نیا پاکستان تشکیل دیتی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قوم کے ایک معمار کے طور پر جانے جاتے۔
جاوید ہاشمی نے مجھے عمران خان سے بہت پہلے مایوس کیا تھا ۔ ذرائع ابلاغ اور مخالفین سے تو ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ والی خبریں آرہی تھیں۔ پھر اشاروں پر چلنے اور بدلتی ہوائوں کا رخ بھانپنے والے اورسیاسی وفاداریاں بدلنے والے نئے پاکستان کے معماروں اور پرویز مشرف کے ساتھیوں کی جوق در جوق آمد اور پذیرائی بھی سامنے کی بات تھی۔ لیکن جب اندونِ خانہ چہ مگوئیوں اور تاثرات نے کافی حد تک یقین دلا دیا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک اغوا شدہ جماعت ہے تو اوائل تعلق داری میں ہی عمران خان سے معذرت کرتے ہوئے راستے جدا کر لئے۔ یار لوگوں نے اسے سیاسی موت سے تشبیہ دی، پروا نہ کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ البتہ جاوید ہاشمی پر غصہ بڑھتا گیا۔ اگر میرے جیسے سیاسی لحاظ سے دودھ پیتے بچے کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے، جاوید ہاشمی اتنے ہی بے خبرہیں؟ کیا جاوید ہاشمی اس بڑھاپے میں جمہوریت کا ساتھ چھوڑ کر مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے ہیں؟ یہ سوال مجھے کئی ماہ تک پریشان کرتے رہے ۔
ٹیکنو کریٹ حکومت، جو ہمیشہ آمروں کا پسندیدہ نعرہ رہا ہے، کے بیان کے بعدجاوید ہاشمی کے ناراض ہونے کی خبرآئی، عمران خان کی طرف سے ان کے لئے بے اعتنائی کا بیان سامنے آیا، وہ مان کر واپس آگئے،سخت بددلی کا شکار ہوا۔ پھر ناراض ہونے کی خبریں آتیں وہ تردید کردیتے۔ امید بندھتی،ٹوٹ جاتی۔نواز شریف سے کسی کو ہمدردی نہیں، وہ کل جاتے آج جائیں لیکن یہاں تو جمہوریت کا بیڑہ ڈبویا جا رہا تھا، آئین کی مقدس کتاب خطرے میں تھی، آمریت کا عفریت سر پر منڈلا رہا تھا لیکن جاوید ہاشمی تھے کہ خاموش تماشائی۔ پھر اچانک خوشخبری ملی کہ معمراور مایوس جاوید ہاشمی جمہوریت کی دیوار پر امید کا آخری پتہ پینٹ کررہا ہے۔ اسلام آباد پریس کلب میں وہ تنہا بیٹھا تھا، پوری تحریک انصاف سے کوئی قائد، کوئی کارکن اس کے پیچھے کھڑا ہونے کیلئے تیارنہ تھا۔ اگلے روز قومی اسمبلی اور اس سے بھی اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جاوید ہاشمی تاریخ رقم کر گئے۔ ایک باخبر صاحب کہنے لگے کہ سب کچھ مسلم لیگ ن کی سازش کے تحت کر رہے ہیں، اللہ کرے ان صاحب کی رائے غلط ہو۔ انہوں نے اقتدار کے ان چودہ مہینوں میں مسلم لیگ ن کی طرف سے ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا اشارہ بھی دیا۔ جاوید ہاشمی نے باوجود بیماری اور ضعف کے تن تنہا جمہوریت کی زمین بوس ہوتی عمارت کو اپنے ناتواں کندھوں سے سہارا دیا۔ اب انجام جو بھی ہو مجھے پروا نہیں کیوں کہ جاوید ہاشمی نے ان دوتین دنوں میں ہزاروں جاوید ہاشمیوں کو جنم دے دیا ہے۔ان سے گزارش ہے کہ دوبارہ انتخاب لڑ کر باقی زندگی ضائع نہ کریں بلکہ ان ہزاروں نومولود جاوید ہاشمیوں کی تربیت اور رہنمائی پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔