• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگست کےمہینے نے جہاں گرمی سے زیادہ حبس برپا کیاہواہے وہیں سیاسی ماحول میں پھر سے الزامات کی بھرمار،دھرنوں کی کوششوں اور سڑکوں پر احتجاج کی دھمکیاں عوام کی سماعتوں کو ‘‘نائز پلوشن ’’کی طرح متاثر کرر ہی ہیں،بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ نفرت سے بجھے تیر اور تلخ آوازیں سیاسی درجہ حرارت سے زیادہ سیاسی ماحول کو آلودہ کررہی ہیں جبکہ بعض سیاسی پنڈتوں کی نظر میں بس یہ ہی ‘‘جمہوریت کا حسن’’ ہے،بعض کہتے ہیں یہ جمہوریت کا‘‘خراج’’ ہے، 14 اگست 2014 کو ‘‘سونامی’’ لے کر اسلام آباد پر لشکرکشی اور 126 دن تک ایوانوں میں ‘‘گھسنے’’ کی ناکام کوششوں کے بعد اس سال 13 اور 14 اگست کی شام یوم آزادی مناتے عوام کےسمندر نے شاید سونامی کو خود سے الگ کرلیا، آنکھوں نے دیکھا کہ دوبارہ دھرنوں پرمصر‘‘کپتان خان ’’کو 126 دنوں کے انتظار کی زحمت نہیں کرنا پڑی اور ایک ہی شب میں خالی کرسیوں سےخطاب کرنا پڑا۔لیکن اس حقیقت کا ادراک خان صاحب کو خود کیسے ہو اورکون کرائے؟ پی ٹی آئی کی ابتدا کے ساتھی ایک سیاسی ورکر کا کہناہے کہ ‘‘ سمجھ نہیں آتا خان صاحب کے مشیرکون ہیں اور کوئی ہیں بھی سہی ؟ کم ازکم انہیں کوئی حقیقت احوال سے تو کوئی آگاہ کردے،لیکن شاید خان صاحب خود بھی ‘‘سچ’’ یا کسی کی سننا ہی نہیں چاہتے۔ اس ورکر کی بات سن کر میں چونک گیا،مشاہدے کی آنکھ سے خود تجزیہ کیا تو پریشانی سے لبریز حیرانی ہوئی، کیونکہ کہتے ہیں ‘‘ سیاست ذہانت سے کہیں زیادہ عقل مانگتی ہے جس کو ‘‘Political Wisdom ’’ کہتے ہیں جبکہ مغرب میں اس طرز کو ‘‘Street Smart’’بھی کہاجاتاہے۔ 2013کے عام انتخابات میں دھاندلی کے شور میں خان صاحب کو ایک اہم صوبے خیبرپختون خواکی حکمرانی کا تاج نصیب ہوا، حکمرانی کے تین برسوں میں جناب کا دعویٰ ہےکہ پولیس کو غیرسیاسی کرکے عوام دوست بنادیا، کئی گھوسٹ اسکولوں کو معیاری بنایا،اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو ذمہ دار بنایااور شاید کامیابی کی فہرست زیادہ طویل نہیں کیونکہ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ تبدیلی اور نئے پاکستان کا ‘‘شور’’ مچانے سے زیادہ اگر کچھ ‘‘کر گزرنے’’ کاتہیہ کیا ہوتا تو مثال بن کر عوام کے دلوں پر راج کررہے ہوتے، اگرتعلیم کو ہی ترجیح بناتے تو آج نہیں تو پانچ سال مکمل ہونے پر پورا صوبہ تعلیم یافتہ بن جاتا (واضح رہے کہ ایک پیراگراف لکھنے اور پڑھنے کی قابلیت رکھنے والے کو خواندہ شمار کیاجاتاہے)اور تاریخ سنہری ترین حروف میں رقم ہوجاتی،تبدیلی یا انقلاب آجاتا؟ خیبرپختون خوا کی سوات سے لے کر کالام اور ٹھنڈیانی سے ناران کاغان سمیت ہروادی میں بہتے دریاؤں،چشموں اور گلیشئرز کے پانیوں پر کتنے پن بجلی کے منصوبے لگائےگئے؟ واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کی قدرتی آماج گاہ خیبر پختون خوا ہے۔کرپشن کےخاتمے ،احتساب سمیت اور بھی کئی انقلابی اقدامات ممکنات میں تھے؟ تاہم 3 سال گزر چکے،خان صاحب کےلئے بڑا چیلنج ہوگاکہ پانچ برسوں میں پختون خوا میں کیا ایسا کیا کہ 2018 میں عوام آپ کو پورے ملک کا ‘‘بادشاہ’’ بنائیں؟ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کی کے پی صوبے میں ترقی وبہتری کے اقدامات کی رفتار کو دیکھا جائے تو انہیں پورے ملک میں اپنے ایجنڈے پر عمل میں کم ازکم 25 سے 30 سال لگیں گے تو پھر۔۔ ؟ جی ہاں احتجاج، دھرنے اور الزامات شاید واحد راستہ ہیں جو آپ کو خیبرپختون پر حکمرانی کی جوابدہی سے بچا سکتاہے سو وہ آپ چن چکے ہیں لیکن یاد رکھیں ،کسی بھی سطح پرعوامی پذیرائی کے لئے آپ نےحقیقی عوامی روپ نہ اپنایا،سچ سننے کی سکت اور سنانے والوں کو کانوں تک رسائی نہ دی تو نتیجہ آزادکشمیر کے انتخابات سے مختلف نہ ہوگا؟ تنقید کرنے والے پیپلزپارٹی کی دوہری چالوں کو بھی بغور دیکھ کر ان کی سیاسی چالوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، جو بیک وقت اور ایک ہی سانس میں حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کی دھمکیاں اور پھر ٹھنڈے کمروں میں ‘‘جمہوریت’’ بچانے کے عزم کا بار بار اظہار کررہی ہے۔ پیپلزپارٹی کےبانی بھٹو صاحب ،جنہوں نے اپنی ذات اور پارٹی سےکہیں زیادہ ملک اور بالخصوص کشمیر کاز کےلئے اپنا آپ وقف کئے رکھا ان کی عالمی سطح پرتسلیم شدہ جدوجہد کو موجودہ ‘‘قابل لیڈرشپ ’’نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں عبرتناک شکست سے ان مٹ داغ لگادیا۔ایک دل جلے پارٹی ورکر کاکہناہےکہ پیپلزپارٹی ملکی تو درکنار سندھ بھی نہیں محض ‘‘رورل سندھ ’’کی جماعت بن کررہ گئی ہے،خدا کےلئے بھٹو کے وارث نہ سہی ان کے مزار کے ‘‘مجاور’’ بن کر ہی بےکس عوام کی خدمت کا عزم کرلو۔ لگتاہے کہ جماعت کی کارکردگی کی بجائے محض نام میں اضافہ ہورہاہے پہلے ہی پی پی پی تھی، پھر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹینر اور اب پی پی پی پی اور ایک اور پی کا اضافہ ہوگیاہے یعنی پھپھو’’،بے چارے ورکر کی خواہش ہے کہ کاش ایک اور پی یعنی“People”
عوام کا اضافہ ہوجائے کیونکہ بھٹو صاحب نے ہی تو کہاتھاکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ میرے جیسے سیدھا حساب جاننے والے پیپلزپارٹی کے رہ نماؤں کے چینلز پر حکومت پر الزامات کےشور کو محض دکھاوے کی احتجاجی سیاست ہی سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی عوام میں جڑیں رکھتی ہے اگر وہ حکومت کے خلاف ‘‘حقیقی’’ احتجاجی تحریک چلائے تو حکومت کو نہ صرف مشکلات بلکہ بے اقتدار بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن ‘‘ لیڈرشپ’’ کو معلوم ہے کہ کریڈٹ ‘‘کنٹینر ’’سیاست کےخالق لےجائیں گے اور شاید ان کےہاتھ کچھ نہیں آئےگالہذا محض دھمکیوں کا شورغوغا ان کےمفاد میں ہے۔ اب تک بے اثر و بے لذت اپوزیشن کے بعد اب ذرا مطمئن اور عوام کی‘‘ خادم’’ ‘‘نواز حکومت ’’کو دیکھیں تو پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے برعکس لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی روز نئی تاریخیں دینے کی بجائےہرسطح پر2018 کی ڈیڈ لائن کا راگ الاپنے میں مصروف ہے، بعض اقتصادی ماہرین حکومت کی معاشی پالیسیوں کو جہاں تنقید کانشانہ بناتے ہیں وہیں وہ بجلی کی اضافی پیداوار کےدعوؤں کی قلعی ان الفاظ سے کھولتے ہیں کہ اضافی بجلی موجودہ ناقص اور ناکارہ ٹرانسمیشن لائنز کا نظام اٹھائے گا کیسے؟ معاشی اصلاحات کا دعویٰ عوام کی جیب تو درکنار پیٹ کیسےبھرےگا؟خودانحصاری اور سادگی سمیت ہرمحکمے میں من پسندوں کی بھرتی اور عوام پر پابندی ،بڑھتی بے روزگاری کا روگ کیسے ختم کرے گی؟ سی پیک کے جلد مکمل کرنے کے جوش اور جنون کی حقیقت یہ ہےکہ 2018 میں تو کسی حد تک بھی مکمل نہیں ہوگا اور پھر جن کی ‘‘گارنٹی’’ پر یہ شروع ہوا ،توکیاکریڈٹ آپ کو ملے گا؟ حکومت کےامن وامان کے قیام کے دعوے ،رنگ برنگی میٹروز اورلمبی چوڑی موٹرویز بنانے کے اقدامات عوام کی آنکھوں کو خیرہ تو کررہے ہیں مگر تعلیم،صحت، بے روزگاری، تحفظ اور بہتر معیار زندگی کا سوال خون کےآنسو بن کر بہہ رہاہے،آپ کے سیاسی اعلانات کی داد تحسین وصول کرنے کی کوششیں بجا، ‘‘ پنڈی’’ سے اسلام آباد تک کسی بھی خطرے کے دور تک نہ ہونے کی تسکین کے باوجود ،ایک عام شہری کی دہائی ہے کہ جناب وزیراعظم ابھی وقت کچھ باقی ہے،70 برس سے کسی امتحانی کمرے میں مقید ذہنی اذیت کے شکار عوام کو باہر نکال کرانہیں اب کامیابی کی نوید سنائیں،محض کاسمیٹک سرجری سے کام نہیں چلے گا ، اپنے پہلے منتخب دور حکومت کی طرح موٹروے کے عجوبے اور دوسرے دور حکومت میں ایٹمی دھماکوں جیسا عوامی فلاح وتحفظ کا ایسا کام کرجائیں کہ قوم آپ کو یاد ہی نہیں بلکہ اچھے لفظوں میں یاد رکھے ورنہ شور تو ہرطرف مچا ہے ہی کہیں ترقی کے دعوؤں کا اور کہیں عوام کو ظالم نظام سے نجات دلانے کے دلاسوں کا،، لیکن یہ سیاسی درجہ حرارت نہیں بلکہ سیاسی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہاہے؟


.
تازہ ترین