جمہوریت اس قوم کی طاقت تو نہ بن سکی، کسی نے بننے ہی نہیں دی، البتہ کمزوری ضرور بن گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چار روز تک جو تقریریں سننے کو ملیں وہ قوم کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ بے وقوف بنانے کی مشق تھی۔
سوائے وفاقی وزیروں کے کسی ایک رکن سینٹ و قومی اسمبلی نے یہ نہیں کہا کہ 2013ء کے انتخابات شفاف تھے، دھاندلی نہیں ہوئی۔ اعتزاز احسن اور رضا ربانی سے لے کر مولانا فضل الرحمٰن اور حاجی عدیل تک، مشاہد حسین سیّد سے لے کر خالد مقبول صدیقی تک سب نے دھاندلی کا اعتراف کیا۔ حکومت کی نااہلی، کرپشن اور رعونت کا رونا رویا اور پارلیمنٹ کی غیرفعالیت کا گلہ کیا۔ انتخابات میں دھاندلی پر عمومی اتفاق رائے سامنے آیا مگر اصلاح احوال کے لئے کوئی معقول، مؤثر اور پائیدار تجویز پیش کرنے کے بجائے وزیر اعظم کو اپنی وفاداری کی یقین دہانی، استعفیٰ نہ دینے پر زور دیا گویا دھاندلی، کرپشن، نااہلی، تکبر اور پارلیمنٹ سے بے نیازی معاف ؎
تو مشق ناز کر خونِ دوعالم میری گردن پر
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب لاکھوں نہ سہی ہزاروں لوگ شاہراہ دستور پر بیٹھے اسمبلیوں کی تحلیل، وزیر اعظم کے استعفے اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شدید گرمی، حبس، بارش، بھوک، پیاس، حوائج ضروریہ میں درپیش دقت کا مقابلہ دلیری اور ثابت قدمی سے کرنے والے یہ مرد و زن حکومت سے نہ ترقیاتی فنڈ مانگتے ہیں نہ کوئی مراعات اور نہ وزیر اعظم سے مل کر اپنا کوئی ذاتی یا خاندانی کام نکلوانے کے خواہش مند ہیں جو ہمارے ارکان پارلیمنٹ کا وطیرہ اور پیشہ ہے۔
یہ مظاہرین کروڑوں عوام کے حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کرتے ہیں، عدل و انصاف، مساوات اور گڈ گورننس کے خواہاں ہیں اور مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ، ناانصافی، ظلم، زیادتی، پولیس و انتظامیہ کی سینہ زوری کا خاتمہ چاہتے ہیں اور حکمرانوں کو بادشاہ سلامت کے بجائے قوم کا خادم بنانے پر تلے ہیں مگر مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر علامہ ساجد میر اور محمود خان اچکزئی سے لے کر حاجی عدیل تک ان پُرامن، ایثار پیشہ اور حقیقی جمہوریت کے متلاشی باشعور پاکستانیوں کو دہشت گرد، باغی او ربلوائی قرار دینے پر مصر ہیں۔ اس قدر سنگدل، سفاک اور خود پرست لوگ اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے ہیں تو شرم آتی ہے۔
گزشتہ روز عوامی جمہوریہ چین کے صدر کا دورئہ پاکستان منسوخ ہوا تو بلیم گیم ایک بار پھر شروع ہو گئی۔ دورے کی منسوخی کا ذمہ دار عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو قرار دیا گیا۔ کسی ایک نے یہ نہیں کہا کہ سانحہ ماڈل ٹائون 17جون کو پیش آیا، ایف آئی آر ہائیکورٹ کے حکم اور مقتدر حلقوں کے دبائو پر اگست کے آخری ہفتے میں کٹی۔ ملزم گرفتار آج تک نہیں ہوئے، عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان 27جون کو کیا دونوں لانگ مارچ 14؍ اگست کو شروع ہوئے حکمران بھنگ پی کر سوئے رہے کسی کو خیال نہ آیا کہ دھرنا طویل ہو گیا تو یہ دورہ منسوخ ہو سکتا ہے۔ بامقصد مذاکرات شروع کئے گئے نہ مظاہرین کے جائز آئینی اور جمہوری مطالبات مان کر انہیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا گیا تاکہ پاکستان کے آزمودہ دوست ملک کے صدر کے استقبال کی تیاریاں کی جائیں۔ سری لنکا اور مالدیپ کے صدور نے دورہ منسوخ کیا پھر بھی حکومت کو ہوش نہیں آئی۔ ضد پر ڈٹی رہی وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔
پارلیمنٹ میں چار روز تک کسی نے وزیر اعظم سے نہیں کہا کہ جناب یہ بحران حل کریں اور چینی صدر کا دورہ منسوخ نہ ہونے دیں البتہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کسی نے اشاروں کنائیوں اور کسی نے کھل کر زبان طعن ضرور دراز کی، ہدف ملامت و تنقید ضرور بنایا، بعض اوقات یوں لگا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا ہی فوج کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے گیا ہے ورنہ وزیر اعظم کی موجودگی میں یہ زہریلی تقریریں نہ ہوتیں اور وہ زبان استعمال نہ کی جاتی جو بھارتیہ راجیہ سبھا یا لوک سبھا میں ہوتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں گھسیٹتا کون ہے۔ سول حکمران اور سیاستدان یا کوئی اور؟ گزشتہ روز وزیر اعظم کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر جی ایچ کیو حاضری دی۔ ظاہر ہے موسم کا حال پوچھنے یا نریندر مودی کے تیور معلوم کرنے کے لئے نہیں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لئے؟ تو پھر فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کا ذمہ دار کون ہوا؟ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ کی اب تک آرمی چیف سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ ان میں سے کتنی خفیہ تھیں، کتنی علانیہ؟ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
حکومت روز اول سے دھرنے کے شرکاء کو تھکانے اور ڈاکٹر طاہر القادری و عمران خان کو تھک ہار کر ناکام و نامراد واپس بھیجنے کی پالیسی پر گامزن ہے اسی بنا پر مذاکرات میں تعطل پیدا ہوتا ہے۔ جب مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی احسن اقبال، اچکزئی، خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمٰن اشتعال انگیز بیان دے کر تعطل پیدا کر دیتا ہے۔ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے پیروکار تو اب تک اپنے موقف پر جمے، شاہراہِ دستور پر ڈٹے ہیں مگر حکومت کی اس ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی پالیسی کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ منسوخ، معیشت مفلوج اور کاروبار ریاست معطل ہے پولیس اہلکار مظاہرین کو تلاشی دے کر آگے بڑھتے ہیں اور سرکاری ملازمین گھر اور دفتر میں بیٹھ کر ارکانِ پارلیمنٹ کی بے مغز تقریریں سنتے ہیں یا ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اب ’’کیا ہو گا‘‘۔
نظر یوں آ رہا ہے کہ اگر موجودہ بحران کی شدت اور سنگینی برقرار رہی، حکومت نے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ضد نہ چھوڑی، ارکان پارلیمنٹ وزیر اعظم اور حکومت کو ہلہ شیری دیتے رہے، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان بازی جاری رہی اور شاہراہ دستور پر بیٹھے ہزاروں باشعور مرد و زن کو شودر سمجھ کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو چھوٹی بڑی قربانی سے بچنے والوں کو سب کچھ قربان کرنا پڑے گا کہ آہستہ آہستہ سیاست ریاست پر غالب آنے لگی ہے۔ سیاسی اور گروہی مفادات نے قومی مفادات کو نگلنا شروع کر دیا ہے اور غلبہ و بالادستی کی خواہش دنیائے اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور کی چولیں ہلانے لگی ہے۔ چینی صدر کے دورے کی منسوخی محض سیکورٹی مسائل کی بنا پر نہیں سیاسی عدم استحکام اور موجودہ ریاستی انتظام و انصرام میں ممکنہ تبدیلیوں کا اشارہ ہے اور امریکہ کی طرف سے بار بار حکومت نواز بیانات کا جواب۔
ریاستی ادارے اور مظاہرین ایک غیر مرئی دبائو سے نکل گئے ہیں۔ دورے کی منسوخی کے بعد دونوں کے پاس وقت ہی وقت ہے جبکہ پارلیمنٹ نے ایک ہفتہ تک قوم کا صرف وقت ہی ضائع کیا ہے۔ بحران کے حل کا کوئی ٹھوس فارمولا، مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوئی تجویز اور حکومت کو انداز کار، انداز فکر بدلنے کی مؤثر تلقین؟ تقریروں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی تک سے محروم یہ ادارہ وزیر اعظم کی حفاظت کرے گا یا اپنی؟ اور کتنی دیر؟ جمہوریت اس قوم کی طاقت تھی مگر حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اسے کمزور بنا دیا لیکن یہ اشرافیہ کتنی دیر تک اس کمزوری کا فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہےنگاہ۔