• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کچھ سال پہلے نیٹو سپلائی روکنے کے لئے کراچی کے جناح برج پر دو دن کے لئے دھرنا دیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو سپلائی کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے ۔ جناح برج پر دھرنے کی وجہ سے بندرگاہ کا رابطہ پورے ملک سے منقطع ہو گیا تھا ۔ عمران خان نے دھرنے سے خطاب کیا ۔ انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو للکارا اور کہا کہ اگر پاکستان پر ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو نیٹو افواج کی سپلائی مستقل طور پر بند ہو جائے گی ۔ عمران خان دھرنا دے کر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ( ف) سمیت دفاع پاکستان کونسل میں شامل امریکہ مخالف جماعتوں سے بھی زیادہ امریکہ کی مخالفت میں آگے چلے گئے تھے ۔ میں اس بات پر بہت حیران تھا ۔ کیا عمران خان واقعی امریکہ مخالف ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال تھا ، جس کا مجھے تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا ۔ میں نے اپنی اس الجھن کا ذکر امریکہ میں رہائش پذیر ایک دوست سے کیا ، جو نہ صرف دفاعی امور کے ماہر ہیں بلکہ عالمی سیاست پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ’’ میں یہ حتمی بات نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان امریکہ کے مخالف ہیں یا پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں کی طرح امریکہ کے حاشیہ بردار ہیں لیکن موجودہ عالمی صورت حال میں امریکی پالیسیوں کا میں نے گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور مجھے یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی امریکہ کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں، وہ امریکہ کی ایماء پر ہی ہورہے ہیں ۔ امریکہ نے پوری دنیا میں اپنی مخالفت میں ہونے والی سیاست کو بھی ہائی جیک کرلیا ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے آپ پاکستان میں عمران خان کی سیاست پر گہری نظر رکھیں ، آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا ۔ ‘‘ ان کی یہ ایک نئی تھیوری تھی ، جس نے مجھے مزید مخمصے میں ڈال دیا تھا ۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو پتہ چلا کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت بن کر ابھری ہے ۔ پھر پاکستان تحریک انصاف کو صوبائی حکومت بھی دے دی گئی ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی تحریک انصاف کی حکومت بننے کی مخالفت نہیں کی۔ میں ایک مرتبہ پھر الجھن کا شکار ہو گیا ۔ میں نے دوبارہ امریکہ میں اسی دوست کو فون کیا اور انہیں اپنی الجھن بتائی ۔ میں نے ان سے کہا کہ خیبرپختونخوا انتہائی حساس صوبہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں ۔ افغانستان میں نیٹو افواج موجود ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں ایک امریکہ مخالف سیاسی رہنما عمران خان کی حکومت بن گئی ہے۔ اب امریکہ اور نیٹو افواج کا کیا ہو گا ؟ ہمارے دوست نے کہا کہ ’’ آپ بہت سادہ آدمی ہیں ۔ امریکہ کی پاکستان میں بننے والی حکومتوں میں پوری دلچسپی ہوتی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں حکومتوں کی تشکیل میں امریکہ کی مرضی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ خیبرپختونخوا میں اس وقت جمعیت علماء اسلام (ف) کی حکومت بنائی گئی ، جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ اور طالبان کی حکومت ختم کی ۔ آپ اگر نہیں سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی ۔ ‘‘ میں نے شرمساری سے فون بند کردیا ۔ ہمارے دوست نے عمران خان پر امریکہ کا کارندہ ہونے کا کوئی براہ راست الزام عائد نہیں کیا لیکن اپنی ’’ تھیوری ‘‘ کی تائید میں ان کی باتیں مدلل تھیں ۔ جناح برج پر دیئے جانے والے دھرنے سے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل تک پاکستان میں ڈرون حملے ہوتے رہے ۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے کام شروع کردیا اور میری الجھن میں اضافہ ہوتا گیا ۔ پھر ایک دن یہ بھی اعلان ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف نیٹو سپلائی روکنے کے لئے اس صوبے میں دھرنے دے گی ، جہاں اس کی اپنی حکومت ہے ۔ اس اعلان پر عمل درآمد بھی ہوا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے نیٹو سپلائی روٹ پر دھرنے دیئے ، جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہے ۔ ان دھرنوں میں شروع شروع میں لوگوں کی بڑی تعداد تھی ، جو روز بروز کم ہوتی گئی ۔ وہاں اسلام آباد کی طرح میوزک کنسرٹ منعقد کرنا اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا شاید ممکن نہیں تھا اس کے باوجود دھرنوں کی وجہ سے نیٹو سپلائی رک گئی اور میں نے محسوس کیا کہ ہمارے دوست کی تھیوری درست نہیں ہے ۔ میں نے پھر انہیں فون کیا اور ان سے یہ پوچھا کہ کیا امریکہ اپنا اتنا بڑا نقصان برداشت کرے گا کہ ایک مہینے تک اتحادی افواج کی سپلائی روک دی جائے ؟ ہمارے دوست نے الٹا مجھ سے یہ سوال کیا کہ ’’ کیا یہ دھرنے پاکستان تحریک انصاف کے بجائے کوئی دوسرے لوگ دیتے ، جو بعد ازاں کنٹرول میں بھی نہیں ہوتے ؟ ‘‘ مجھے یہ بات سمجھ نہ آئی اور میں نے فون بند کردیا ۔
میری الجھن جاری رہی اور اسی اثناء میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری لاہور سے انقلاب مارچ لے کر اور ان کے پیچھے عمران خان آزادی مارچ لے کر اسلام آباد روانہ ہوئے ۔15 اگست کو دونوں جماعتوں کے قافلے اسلام آباد پہنچے اور وہاں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ،جو تادم تحریرجاری تھا ۔ دھرنے سے روزانہ کی بنیاد پر اپنے خطاب میں عمران خان نے نہ صرف موجودہ جمہوری نظام کو دھاندلی کی پیداوار، کرپٹ اور ناکام قرار دیا بلکہ انہوں نے امریکہ بہادر کے خلاف بھی کھل کر باتیں کیں ۔ جب امریکہ کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ پاکستان میں سیاسی بحران کا سیاسی طریقے سے حل نکالا جائے تو عمران خان نے امریکہ کو للکارا اور کہا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کرے ۔ ان کا لہجہ بالکل وہی تھا ، جو جناح برج کراچی پر دھرنا دینے والے شرکاء سے خطاب کے دوران تھا اسلام آباد کے دھرنوں میں دیئے گئے خطبات سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ہمارے دوست کی تھیوری غلط ہے اور عمران خان شاید تیسری دنیا کے پہلے رہنما ہیں ، جو امریکہ کو اس طرح للکاررہے ہیں ۔ دھرنے جاری تھے اور میں اپنی الجھن سے نکلتا جارہاتھا ۔ اسی دوران یہ خبر آئی کہ چین کے صدر نے اپنا پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ اس دورے کی منسوخی سے پاکستان کو اس لئے بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے کہ 32 ارب ڈالر کے معاہدے تعطل اور تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں لیکن دورے کی منسوخی سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو پہنچا ہے ، جو اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے نہ صرف گزشتہ 35 سالوں سے اپنی فوجوں کے ساتھ موجود ہے اور سالانہ اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے بلکہ وہ چین کو روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ چینی صدر کے دورے کی منسوخی سے میں پھر الجھن کا شکار ہو گیا ہوں لیکن اس مرتبہ میں اپنے دوست کو فون نہیں کروں گا کیونکہ اب میرے پاس ان کی تھیوری کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ۔
تازہ ترین