• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اتنی کمزور‘ نازک اور سہمی ہوئی جمہوریت دُنیا میں شاید ہی کہیں ہو جسے چند ہزار افراد کے دھرنے سے ہی خطرہ لاحق نہیں ہو جاتا بلکہ بعض ارکان کی تقاریر سے بھی اُس کی بقاء کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایشو ختم ہو گیا لیکن تبصرے جاری ہیں۔ نثار علی خان نے اعتزاز احسن کے بارے میں ردعمل کے طور پر بیان کیا دیا‘ اعتزاز احسن کی ایوان میں تقریر نےگویا جمہوریت کو ہی ہلا کر رکھ دیا... پھر نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں جواب دینے کا فیصلہ سنایا تو وزیراعظم نواز شریف سمیت مولانا فضل الرحمٰن جیسے بھاری بھرکم سیاستدان‘ پارٹی کے اہم رہنما اُنہیں سمجھانے اور منانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے قبل تو بعض حلقوں میں ایسی قیاس آرائیاں اور خدشات پائے جا رہے تھے کہ اُن کی جانب سے نئی محاذ آرائی کا مقصد جمہوریت کا اختتام ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ایک پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن کی وہ جماعت ہے جسکے اخلاقی سہارے کی بدولت مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم نظر آتی ہے‘ آخر چوہدری نثار علی خان کو کیا ضرورت پیش آئی کہ اُنہوں نے اعتزاز احسن کو مشتعل کر دیا... خیال ظاہر کیا گیافوج سے چوہدری نثار کی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اُنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اندر ہی بعض لوگوں سے حساب کتاب ’’چکتا‘‘ کیا ہے۔ آئندہ وزیراعظم چوہدری نثار ہی ہونگے۔ پھرچوہدری اعتزاز احسن کی تقریر پر ہونے والی قیاس آرائیاں بھی کم نہیں تھیں۔ کہا گیا کہ ’’فرینڈلی اپوزیشن لیڈر‘‘ خورشید شاہ کو پیچھے کرکے چوہدری اعتزاز احسن کو اس لئے سامنے لایا گیا تھا کہ اعتزاز احسن قانون دان ہے‘ شاعر ہے‘ دھیمے لہجے کا سیاستدان سہی لیکن جٹ ہے۔ آگے بڑھ گیا تو پھر پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیگا۔ پھر جب اُنہوں نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ میں چاہوں تو پوری اپوزیشن کو اِسی وقت ایوان سے باہر لیجائوںتو یاروں نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ دیکھا لائن آ گئی ہے‘ اشارہ مل گیا ہے‘ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ایماندار‘ باضمیر اور سچ بولنے والوں میں ’’فی زمانہ‘‘ بڑی ’’خامی‘‘ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ’’بے لچک‘‘ ہوتے ہیں۔ کردار کی پختگی بعض لوگوں کو بے رحم بنا دیتی ہے جسے وہ اپنے اُصولوں سے تعبیر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے نزدیک وہ غرور اور تکبر ہوتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور چوہدری اعتزاز احسن دونوں کے ہی خاندانی اور سیاسی پس منظر کو جاننے والے لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ ’’مغرور اور اناپرست سیاستدان‘‘ کتنے معتبر اور محترم حوالے رکھتے ہیں۔لیکن ان کے کردار نے ان کے بارے میںیہ تاثر بنا دیا ہے
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیئے رات گئی‘ بات گئی
دونوں چوہدریوں سے کم و بیش تین دہائیوں کی رفاقت ہے‘ جمہوریت کیلئے اُن کی خدمات اور قربانیاں ایسی بھی ہیں جو کم لوگوں کے علم میں ہیں۔ حسب نسب رکھنے والے سیاستدان ہیںدونوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ نہ تو کبھی چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ ن کو چھوڑا اور نہ ہی کبھی چوہدری اعتزاز احسن نے پیپلزپارٹی سے وابستگی تبدیل کی ۔ لیکن افسوس کہ اب ’’ایسے ویسے بھی‘‘ اُنکی سیاست اور کردار پر تبصرے کر رہے ہیں‘ لیکن چوہدری صاحبان! اُنہیں یہ موقع بھی تو آپ نے ہی دیاہےوہ تومخدوم ہیں۔ ان کا شجرہ نسب انہیں اپنے رفقاء میں ویسے بھی ممتاز رکھتا ہے کسی ایرے غیرے کی بھی لوگوں کے سامنے بے توقیری کی جائےاُسکے چاہنے والوں کی موجودگی میں تضحیک و تذلیل کی جائے تو وہ کھولتے خون کے ساتھ بڑے سے بڑا فیصلہ کر سکتا ہے اور پھر مخدوم بھی۔ جاوید ہاشمی ہو جس نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ اپنے عقیدت مندوں کی محبتوں سے دور ہو کر اصولوں اور سچ کا علم بلند کرنے کیلئے جیل کی سختیاں سہیں۔ اُسے ایک شخص نے ہزاروں کے مجمع میں تحقیرآمیز انداز سےا سٹیج سے رخصت کردیا۔ نیچے اُترنے کی راہ دکھا دی۔ ایک ایسے شخص نے جو سیاست میں جاوید ہاشمی سے بہت جونیر ہے‘ جس کی پاکستان کے آئین اور جمہوریت کے تحفظ میں قربانیاں تو کُجا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کے چاہنے والے شاید وہ منظر نہ بھول سکیں جب وہ دھرنے کے اسٹیج پر بار بار عمران خان کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے تھے کہ پارلیمنٹ ہائوس میں کارکنوں کو داخل ہونے کی ترغیب دینے کے عمل میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقلید کرنی چاہئے۔ جاوید ہاشمی مسلسل اُنہیں باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ فیصلہ اصولوں کیخلاف اور بدعہدی کے مترادف ہوگا۔ لیکن عمران خان اُن کی بات ماننا تو دور‘ سننے کیلئے بھی تیار نہیں تھے اور آخر وہی ہوا جواس سے پہلے بھی ہوتا رہا تھا۔ ’’مخدوم ناراض ہاشمی‘‘نے ’’کپتان خان ‘‘سے کہہ دیا۔ ’’میں تحریک انصاف کا صدر ہوں‘ اگر طاہرالقادری کے فیصلوں کی تقلید کی گئی تو میں پارٹی چھوڑ کر چلا جائوں گا‘‘ اور ایسا لگا جیسے کپتان خان اس مرتبہ یہ جملہ سننے کے انتظار میں تھے۔ ہزاروں افراد کی موجودگی میں اُنہوں نے جاوید ہاشمی کو ا سٹیج سے اُترنے کا اشارہ کیا اور راہ دکھائی۔ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے بعد بھی کپتان خان چیونگم چباتے اپنی شان میں ہونے والی ’’میوزیکل قصیدہ سرائی‘‘ پر جھوم رہے تھے‘ تھرک رہے تھے‘ اُنہیں نہیں معلوم تھا کہ اُنہیں اپنے اس طرز عمل کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ لیکن قومی اسمبلی میں تقریر اور جاوید ہاشمی کے ٹی وی انٹرویو زکے بعد اُنہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اُن کی تحریک کو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلاب کو بھی کتنا بڑا نقصان ہواہے۔
یہ درست ہے کہ جاوید ہاشمی جو زمانہ طالب علمی میں جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی کو اپنا پیرو مرشد مانتے تھے‘ اُنہوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز پاکستان کے مقبول سیاستدانوں اور حکمرانوں کی طرح آمریت کے سائے میں کیا اور 1978ء میں جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر بنے‘ لیکن پھر اُنہوں نے اس کا کفارہ ادا کرنے کیلئے 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی میں جنرل ضیاء الحق کی خواہش کے برعکس سید فخرامام کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی منتخب کرایا۔ فوجی حکمرانوں کیخلاف اور جمہوریت کی سربلندی کیلئے مشرف دور میں تقریباََ چھ سال جیل میں بھی گزارے لیکن وہ بھی کیا خوب منظر تھا جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنا الوداعی خطاب کرنے اور مستعفی ہونے کا اعلان کرنے کے بعد جاوید ہاشمی جب ایوان سے رخصت ہو رہے تھے تو کسی نے اُنہیں روکنے یا فیصلے پر نظر ثانی کیلئے درخواست نہیں کی بلکہ کئی دوست تو اُنہیں دروازے تک چھوڑ کر آئے۔
حکومتی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے دھرنے کے حوالے سے جو انکشافات کئے ہیں‘ جو سازش بے نقاب کی ہے اُسکے بعد اب حکومت کیلئے حالات معمول پر آ جائیں گے‘ جارحانہ انداز میں منفی پیشرفت کرنے والی قوتیں اور طاقتور افراد صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر اب دفاعی انداز اختیار کرکے دبے قدموں کے ساتھ پیچھے ہٹنا شروع کریں گے۔
لیکن یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے‘ بعض اوقات پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے جو حکومتی حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ سازش پکڑی گئی اس لئے ختم ہو گئی ہے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ’’سازش زخمی ہوئی ہے کچلی نہیں گئی‘‘ دھچکا ضرور لگا ہے لیکن اتنا گہرا نہیں جتنی ضرورت تھی‘ اسلئے ایسا ہونے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔
رضا ربانی کا کہنا بالکل درست ہے کہ پارلیمنٹ میں جمہوریت کی بقاء کیلئے جو اتفاق سامنے آیا ہے اب اس کے تحفظ کی ضرورت ہے‘ کوشش کی جائے گی کہ اس میں نفاق ڈالا جائے‘ غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، ایک طرف تو ایسے تمام خدشات متوقع ہیں لیکن دوسری طرف دو کنٹینرز کے قائدین اور اُنکے رفقاء ازخود ہی ایسی صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں جس کے آثار بھی نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں اور اطلاعاً عرض ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو ایک کنٹینر پر کھڑا کرکے صرف کوئی پیغام دینا ہی مقصد نہیں تھا‘ اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ علامہ صاحب کو خود سری، ضد اور اپنی ہدایات پر عمل میں تاخیر کا طرز عمل انتہائی نا پسند ہے۔ دوسری طرف اس احساس سے بھی توازن کا پلہ بھاری ہے کہ ایک صوبے کی حکومت اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی قابل ذکر تعدادسب کچھ تو تحریک انصاف کا دائو پر لگا ہوا ہے۔ صلح کاروں کے مشورے اور ہدایت پر طے یہ ہوا ہوا کہ متنازع اُمور نہ چھیڑیں جائیں۔ ان معاملات پربعد میں بات کرنی چاہئے تھی چنانچہ فی الحال تنازع کے ڈھیر کو پوٹلی بنا کر چارپائی کے نیچے ڈال دیا گیاہے۔
لال حویلی والے گفتار کے غازی، ان دنوں ٹی وی ٹاک شوز میں کم کم ہی نظر آتے ہیں‘ کچھ عرصے پہلے تک نجی ٹی وی چینلز میں اُن کی خاصی ڈیمانڈ تھی۔ تاہم اُنکی یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ اُن کے پروگرام میں کسی دوسرے سیاستدان کو شریک نہ کیا جائے‘ بلکہ وہ اینکر کے ساتھ ’’ون آن ون‘‘ پروگرام کرینگے۔ یہ مان لینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ جہاں اُنکی گفتگو میں تفریح اور چونکا دینے والے انکشافات ہوتے تھے وہیں بار بار سنی جانے والی باتوں کو بھی لوگ انجوائے کیا کرتے تھے۔ لیکن اُنکی 40منٹ کی گفتگو میں حاصل کلام کا دورانیہ بمشکل چار منٹ کا ہی ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ یہ بھی بار بار کہا کرتے تھے کہ 2014ء اس حوالے سے فیصلے کا سال ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے اس سال اپنا اقتدار بچالیا تو پھر اُنہیں آئندہ پانچ سال بھی کوئی نہیں ہٹا سکتا اور ہماری بس چھٹی ہی چھٹی ہے اور اب محترم شیخ صاحب گھڑیاں گن رہے ہیں کیونکہ حالات اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو گی..... تو پھر وزیراعظم نوازشریف ہی ہونگے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور منفرد واقعہ ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتیں (ماسوائے پی ٹی آئی کے) وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اتحادی جماعتیں تو ہیں ہی ساتھ، اپوزیشن کی جماعتیں بھی اُن کے طرز حکمرانی پر تنقید تو کررہی ہیں۔ تاخیر سے کئے جانے والے اُنکے فیصلوں پر نکتہ چینی بھی اور وزراء کے انتخاب پر شاکی بھی ہیں۔ لیکن وہ یہ سب کے کچھ وزیراعظم کو سینے سے لگا کر اور اُنکے ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہہ رہی ہیں‘ اور اُنہیں یقین دلا رہی ہیں‘ اعتماد بخش رہی ہیں کہ ’’وزیراعظم صاحب! بادشاہوں والا طرز عمل چھوڑیں‘ موجودہ صورتحال میں آپ ’’جمہوریت کی علامت‘‘ بن چکے ہیں‘ ڈَٹ جائیں‘ ہم سب آپکے ساتھ ہیںگزشتہ ہفتوں کے مقابلے میں وزیراعظم کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ اُن کے یہ خدشات بھی کم ہوئے ہیں کہ وہ مڑ کر دیکھیں گے تو خود کو تنہا نہیں پائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُنکے پیش نظر یہ بھی ہونا چاہئے کہ بعض اوقات ’’گھر کے چراغ سے بھی گھر کوآگ لگ جاتی ہے‘‘ اور سب کچھ خاکستر کردیتی ہے....!!
تازہ ترین