• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں شکاگو میں شمالی امریکہ میں سندھیوں کی خود کو نمائندہ تنظیم کہلانے والی سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے سالانہ کنونشن میں جانے کا قصد ہوا جہاں ایک مقامی ہوٹل میں سندھ پاکستان سمیت امریکہ و کینیڈا بھر سے کوئی پانچ سو سے چھ سو کے لگ بھگ سندھی مرد، بچے، خواتین شریک ہونے کو آئے تھے۔ سانا شمالی امریکہ کے کسی نہ کسی شہر میں ہر سال ماہ جولائی میں اپنا کنونشن منعقد کرتی ہے اسی سال ماہ رمضان جولائی میں آنے کی وجہ سے انتیس اگست سے اپنا چار روزہ کنونشن منعقد کیا۔ سانا کے اس کنونشن میں مہمان مقررین کے طور پر سندھ اور پاکستان کے مسائل پر مکالمے کیلئے پاکستان اور سندھ سے سیاست و ادب، آرٹ سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات مدعو کی جاتی ہیں اور اس سال سانا کے شکاگو کنونشن میں معروف سندھی شاعر جوڑا امداد حسینی اور سحرامداد، معروف ادیبہ و افسانہ نگار نورالہدی شاہ، معروف قانون داں ضمیر بھنبھرو، دانشور جاوید قاضی، معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیت صادقہ صلاح الدین جن کا خیرپورمیرس سمیت اندرون سندھ ترقی و سول سوسائٹی کی تعمیر میں ایک اہم کردار ہے کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری کے بردار نسبتی سکرٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو اور ان کی اہلیہ عذرا پیچوہو بھی مدعو تھیں۔ اس سے قبل انیس سو تراسی میں معرض وجود میں آنےوالی اس شمالی امریکی سندھی تنظیم کے آج تک ہونیوالے کنونشنوں میں جسٹس سجاد علی شاہ، عبدالحفیظ پیرزادہ، نثارکھوڑو،سیدعبداللہ شاہ،رسول بخش پلیجو، ایازلطیف پلیجو، زرینہ بلوچ، قادرمگسی، جی این مغل، یوسف لغاری ۔ فقیر محمد لاشاری، ذوالفقار ہالیپوٹو، امر سندھو،عرفانہ ملاح ،جامی چانڈیو، نصیرمیمن، مسلم لیگ (ن)کے احسن اقبال،سوبھو گیانچندانی، کیرت بابانی، امرجلیل،اعتزاز احسن اور بشریٰ اعتزاز بھی مدعو و شریک ہوچکے ہیں۔ ہمارے دوست اور پنجابی دانشور ڈاکٹر منظور اعجاز اٹھارہ سال تک بلاناغہ سانا کے کنونشنوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر منظور بہت سے سندھیوں کی طرف سے اپنی سندھ دوستی اورسندھی ادب کوپنجابی میں متعارف کرانے اور پنجابی کو سندھیوں سے متعارف کروانے کے حوالے سے اعزازی سندھی مانے اور جانے جاتے ہیں۔ لیکن سانا میں میرٹ صرف بندے یا بندی کا سندھی ہونا ہوتا ہے۔ ترجیحاً نجیب الطرفین سندھی ہو تو اچھا۔ اسی لئے اگر آپ سندھی ہیں شمالی امریکہ میں رہتے ہیں ، پاکستانی ہیں تو سانا کے رکن بن سکتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہیں لیکن سانا کے کنونشن میں اپنے خرچ پر شریک ہوسکتے ہیں۔
سانا اگرچہ شمالی امریکہ کے سندھیوں میں ایک غیر سیاسی اور غیر جانبدار کمیونٹی تنظیم کے طور پر سرگرم ہے لیکن ظاہر ہے کہ سندھ کے مصائب و مسائل پر سانا نہ غیرسیاسی رہ سکتی تھی اور نہ غیر جانبدار اور اسی طرح اس کی ہر دور کی قیادت میں کن لوگوں کے باقاعدہ سیاسی عزائم بھی رہے ہیں۔ کن کو امریکی صدر ذاتی طور پر جانتا ہے تو کن کو پاکستانی سابق صدر یا وزیر اعظم۔ اسی لئے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسی سال کے شکاگو کنونشن میں نہ صرف حکمراں پارٹی کے تین موجودہ اراکین سندھ صوبائی اسبملی اور ایک سابق رکن قومی اسمبلی اورکئی سندھی نوکر شاہی کے اراکان بھی شامل تھے۔ سنا ہے کہ سانا والے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چيئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کو مدعو کرنا چاہتے تھے پر یہ ہو نہ سکا۔ بلاول بھٹو کی جگہ بہر حال انکی پھوپھی اور پھوپھا نے شرکت کی۔ اسکے علاوہ سندھ سے ادیبوں، شاعروں ، سندھی میڈیا کے کئی اراکین ، سندھی بیوروکریٹ، و کاروباری لوگ بھی شریک تھے شمالی امریکہ سے اکثر شرکاء اپنے اہل خانہ سمیت شریک تھے۔
یہ بات بھلی لگی کہ شکاگو کے مقامی اسٹار ہوٹل کی غلام گردشوں میں صوقی فنکار جمال لدین فقیر اور ان کے ساتھی ، اپنے روایتی گیروے لباسوں میں اور کوہستان کے الغوزہ نواز بھی پھرتے دکھا ئی دئیے۔
میڈیکل سیمینار، فری میڈیکل ٹیسٹ کلینکنس کومل بھٹو کی ہدایات میں شمالی امریکی سندھیوں کی نئی پود کا پیش کردہ ٹیبلو، سندھ سے آئے ہوئے شاعروں امداد حسینی ، سحر امداد، نور الہٰدی شاہ ، سردار شاہ، ڈاکٹر مشتاق پھل، اور بخشن مہرانوی کا مشاعرہ ، سندھی خواتین کی صورتحال پر شاہدہ سومرو، ثوبیا آغا،نورالنساء گھانگھرو، حمیرہ رحمٰن، اور نورلہٰدی شاہ کی پریزینٹیشن (چہ جائیکہ سانا میں خواتین کی نائب صدر کی نشست مخصوص ہوتی ہے)، اور بڑھ کر یہ کہ صنم ماروی اور جمال الدین فقیر اور انکی سنگت کا صوفیانہ کلام اور اس پر سندھی قوم کے جھمر و رقص نے کنونشن کو چار چاند لگائے۔ سانا کی سب سے بڑی کامیابی دنیا بھر کے سندھیوں کو ہر سال ایک چھت کے نیچے جمع کرنا اور گویا سندھ میں رہنے والے سندھیوں کے نزدیک چلو چلو امریکہ چلو پروگرام کا تصور قائم کئے جانا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جہاں ٹیکسی ڈرائیور سندھی سے لیکر برین یا ٹراما سرجن سندھی تک کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع ملتا ہے پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا کی مطابقت یا مسابقت کی طرز پر یہاں بھی اپنی امارت و خوشحالی کی بھرپور نمائش نظر آتی ہے۔ روایتی سندھی شو باز وڈیرا ٹائپ یا ٹراپن اور صوفیانہ انکساری ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔
میں سانا کے کنونشن کو شمالی امریکہ میں ’’ سندھیوں کا بڑا کھانا‘‘ سے تعبیر کروں گا۔ جہاں سب شرکاء موج میلہ کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں کئی ٹھنڈے میٹھے کڑوے مشروبات پیتے ہیں۔ ہو جمالو اور جھولےلال پر رقص کرتے ہیں ، جھومر و دھمال ڈالتے ہیں اور جئے سندھ کے نعرے لگاتےہیں ، کچہریاں (سندھی مجلس ) واوطاق لگاتے ہیں پھر خوش خوش اپنے گھروں کو واپس ہوتے ہیں۔ سندھ میں کارو کاری میں تین ہزارعورتیں ہر سال قتل ہوتی ہوں کہ سات ہزار سے زائد اسکول بند ہوں جن پر وڈیروں کی اوطاقیں بنی ہوں اس سے موج میلے والے پرندوں کو کوئی سروکار نہیں۔ اس سے بھی نہیں کہ سندھ کے لوگ غریب اس لئے ہیں کہ سندھ کو وڈیروں اور وڈیرہ حکمرانوں اور بیوروکریٹوں نے ڈاکوئوں کی طرح لوٹا ہے۔ اس سے بھی نہیں کہ نوجوان سیاسی کارکن اپنے گھروں سے غائب کردیئے گئے ہیں، اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ ہردسواں سندھ باسی ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہے۔ ہیپاٹائٹس کے فنڈ لوٹے گئے ہیں، غیر ملکی عالمی امداد یا تو حکومت سندھ کو نہیں چاہئے یا غبن کردی گئی ہے۔ کاغذات پر بڑے بڑے منصوبے موجود ہیں۔ سات ارب روپے ترقی کی مد میں ہضم کردیئے گئے ہیں۔ ایک اور قیامت خيز سیلاب دریائے سندھ میں آیا ہی چاہتا ہے۔ جو جتنا چور رہزن قاتل وہ اتنا بہادر ہیرو اور مڑس مانہوں۔ اسی لئے شریف سندھی انسانوں نے اپنی بھنویں اسوقت اوپر چڑہائیں جب حکومتی شخصیات کی مدد سے کراچی میں چائنا کٹننگ میں ملوث شخص کو بھی سانا کنونشن میں شریک دیکھا گیا۔ تین سو لوگ قتل کرنے کے بعد بھی قاتل قابل تکریم رہنما۔ سندھی اشرافیہ اور وڈیرے میں کوئی عیب نہیں۔ غیروں میں عیب ہزار۔ یہی وجہ تھی کہ نہ کسی نے تین ایم پی ایز اور سابق ایم این اے سے کسی نے کوئی سوال کیا اور نہ ہی بلاول کے پھوپھا اور پھوپھی سے۔ کہ سندھ میں تعلیم کی تباہی کیوں؟
اسی لئے تو قیصر بنگالی دو ٹوک الفاظ میں سانا کنونشن میں اپنے حاضرین کو بتا رہے تھے کہ سندھ میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیرداری وڈیرانہ نظام کا صدیوں پرانا ڈائناسار ہے جسے ختم کئے بغیر سندھ ترقی نہیں کرسکتا۔ بیشک یہ ڈائنا سار سندھ میں ہر دس کوس پر ایک میر پیر وڈیرے ایم این اے، ایم پی اے سردار سینیٹر کے روپ میں سندھی عوام کا خون چوس رہا ہے۔ اسی لئے تو سندھی عوامی شاعر سرویچ سجاولی نےاسے حرامخور شوم کہا تھا۔ لیکن سندھی تھے کہ صنم ماروی کے گانوں پر مست تھے اس میں وہ گیت بھی تھے جس میں سندھ دشمن کے سر قلم کردینے(نہ جانے شاعر کی مراد سندھ دشمن سے کون تھا) کی خواہش تھی۔ اور جو سندھ کے لئے نہیں لڑتا اسے کہو کہ میری نگری سے نکل جائے۔ ادھر صادقہ صلاح الدین جن کی غیر سرکاری تنظیم یا خیرپور میرس سمیت اندرون سندھ میں سندھ کے وزیر اعلی سے زیادہ کام ہے اپنے سندھی دوستوں سے کہہ رہی تھیں’’آپ کی تنگ نظر قوم پرستی کے تصور کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کو نائین زیرو پر پناہ لینا پڑے۔‘‘
سندھی ایسو سی ایشن آف نارتھ امریکہ انیس سو اسی کی دہائی کے شروعاتی سالوں میں تب قائم کی گئی جب پاکستان میں ضیاءالحق نے فوجی آمریت مسلط کی جس کا سب سے بڑا نشانہ سندھ بنا۔ ایم آر ڈی کے دنوں میں سانا کو قائم کرنے والوں میں بائیں بازو کے معروف دانشور اور سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر فیروز احمد، الطاف میمن، خالد ہاشمانی ، جاوید لغاری۔ ڈاکٹر نرنجن دودانی، اعجاز ترک، عزیز ناریجو، گل آغا وغیرہ شامل تھے۔ سانا کے قائم ہونے کا بنیادی مقصد شمالی امریکہ میں سندھیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے علاوہ انکے آبائی سندھ میں جبر کے خلاف آواز بلند کرنا بھی تھا جس کیلئے باقائدہ’’سنگت‘‘ نامی ایک پرچے کا اجراء بھی ہوا۔ سانا میں زیادہ تر پاکستانی سندھی شریک و سرگرم ہیں جن میں ایک تعداد متمول ڈاکٹروں، انجنیئروں، آئی ٹی کے ماہرین کے علاوہ کاروباری قسم کے لوگوں کی بھی شامل ہوتی گئی جو اس ممبر شپ کی بنیاد پر قائم تنظیم کی قیادت میں بھی آگئے۔ سانا میں ہرسال کنونشن ہوتا ہے ہر سال بڑا کھانا ہوتا ہے ہر سال باقاعدہ انتخابات۔ اس دفعہ کے انتخابات میں گھمسان کا رن پڑنا ہے جس کی ایک بھرپور جھلک جنرل باڈی کے اجلاس میں دیکھنے میں آئی جہاں سانا کے کچھ ارکان اور رہنمائوں نے ایک دوسرے کو پاکستانی اور بھارتی جاسوسی اداروں کے ایجنٹ قرار دیا۔
سانا کے کن رہنمائوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ ان کو پاکستانی طاقتور جاسوسی ایجنسی کا ایجنٹ کہنے والوں کے پیچھے ان کا ہی بھائی بند با اثر ڈاکٹر ہے جس نے امریکی صدور سے لیکر بینظیر بھٹو تک کے حلقوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سابق صحافی اور اب سندھی نژاد امریکی اسحق تنیو جو سانا کی آئندہ سال صدارت کیلئے متوقع امیداوار ہیں سامنے والے با اثر و کاروباری حریفوں پر ممبر سازی میں دھاندلیوں کے الزمات لگاتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں تین سے چار سندھی تنظمیں ہیں جوایک دوسرے کو کسی نہ کسی ملک کا ایجنٹ قرار دیتی ہیں۔
بقول شخصےاہل ایماں کیلئے روح پرور نظارہ یہ تھا کہ سانا کے اب کے کنونشن میں واحد کتابوں کا اسٹال سلیس سندھی ترجمے کے ساتھ قرآن کے نسخوں کا ہی اسٹال تھا جس کا ہدیہ سانا کے فنڈ میں جانا بتایا گیا تھا کہ سانا کے لوگوں میں مذہبی رجحانات بڑھتے بتائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب سے ایک مخیر سندھی نے قران کے نسخے کار میں بھر کر نیویارک سے شکاگو پہنچوائے۔
تازہ ترین