• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم ہائوس کے سبزہ زار میں کرکٹ کا ورلڈکپ ایک ا سٹینڈ پر بڑے قرینے سے سجا ہوا تھا، وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اہم شخصیات ورلڈکپ کے ساتھ کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے، اسے تھامنے کا پوز بنواتے ہوئے تصاویر بنوا رہی تھیں ....کہ وزیراعظم کی آمد کا اعلان ہوا۔ سیاہ شیروانی میں ملبوس نازاں وشاداں میاں نواز شریف سب سے پہلے کپتان عمران خان کے پاس گئے اور ستائشی جملے کہے۔ کپتان نے شرمانے کے انداز میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ملک کے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا، پھر وزیراعظم نے ورلڈکپ اور ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ اس موقع پر کپ جیتنے والی ٹیم کے ارکان کو اسلام آباد میں پلاٹ اور نقد رقوم کا انعام دینے کا بھی فیصلہ ہوا۔ فوٹو سیشن ختم ہوا تو مفرحات کے میز پر گپ شپ شروع ہو گئی۔ تقریب میں آسٹریلیا، برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے سفارت کار بھی موجود تھے۔نکولس بیرنگٹن پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر تھے۔ انہوں نے کچھ دیر عمران خان کے ساتھ علیحدگی میں رازونیاز کئے تاہم جب انہوں نے وزیراعظم سے رخصت چاہی تو کپتان کی موجودگی میں ہی انہوں نے اُن سے یہ سوال بھی بظاہر غیررسمی انداز میں پوچھا ’’مسٹر پرائم منسٹر! کیا آپ چاہیں گے کہ ورلڈکپ جیتنے والا نوجوان کپتان اب سیاست میں بھی آئے؟‘‘ تو وزیراعظم نے اپنے ساتھ کھڑے کپتان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس طرح کی پیشکش کپتان کو پہلے بھی کر چکا ہوں‘‘ اور پھر ہائی کمشنر رخصت ہو گئے اور وزیراعظم دیگر شرکاء سے گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔
تاہم وزیراعظم کی یہ خواہش تھی کہ عمران خان چونکہ کرکٹ میں بحیثیت کپتان اپنا آخری ہدف حاصل کر چکے تھے اس لئے اُن سے کوئی سیاسی کمٹمنٹ آن ریکارڈ کرانی چاہئے۔ جس کا ذریعہ وہاں موجود سینئر صحافی صالح ظافر بنے اور انہوں نے فرمائشی انداز میں کپتان سے سوال کیا ’’کیپٹن کیا خیال ہے اگر وزیراعظم آپ کو مسلم لیگ کی حکومت میں کوئی اہم ذمہ داری دیں تو آپ اسے قبول کریں گے؟ کپتان نے سوال کنندہ کو گھور کر دیکھا اور صرف مسکراہٹ پر اکتفا کیا۔ بھیڑ چھٹ جانے کے بعد بھی اس موضوع پر گفتگو جاری رہی۔ عمران خان نے سیاست سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست، سیاستدانوں کو بھی ناقابل اشاعت الفاظ میں ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا.... اور کہا کہ ’’میں یہاں کی گندی سیاست کا حصہ نہیں بنوں گا، وزیراعظم نواز شریف زیادہ سے زیادہ مجھے سینیٹر بنا دیں گے، وہاں دو دو پیسے کے لوگ بیٹھے ہیں جو پیسے دے کر آتے ہیں، میں اُن کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا ‘‘ عمران خان نے پاکستان کی سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت کی حد تک جو طرز گفتگو اختیار کیا تھا اگر اُسے دہرایا جائے تو یہ بات وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی کہ وہ کبھی پاکستان کی سیاست میں.... بلکہ ملک کا وزیراعظم بننے کی خواہش میں لاشوں کی سیاست کرنے پر بھی تیار ہو جائیں گے۔ تقریب میں موجود کئی لوگ کپتان کے ہم خیال بھی تھے اور اُن کے کئی کرکٹر ساتھی اس بات پر بھی متفق تھے کہ مزاجاََ اور اپنے جارحانہ رویوں کے باعث عمران خان سیاست کیلئے ایک ناموزوں شخص ہیں۔ بعض شرکاء اس بات پر نالاں بھی تھے کہ سیاست کے حوالے سے عمران پاکستان کے بارے میں جن الفاظ اور جس انداز کا اظہار کر رہے ہیں وہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ بہرحال یہ ایک فخر کا لمحہ تھا کہ اُنہیں ورلڈکپ پاکستان لانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
پھر انہوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال کا منصوبہ شروع کیا تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ وہ ایک بہترین منتظم ہیں۔ انہوں نے ملک میں اور بیرون ملک فنڈریزنگ کا آغاز کیا تو لوگوں نے اُن کیلئے دل کشادہ کر دیا اور بند آنکھوں سے اعتماد کر کے اسپتال کی تعمیر میں دل کھول کر مالی معاونت کی.... لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی عمران خان جو پاکستان کی سیاست کو ایک غلاظت سے تعبیر کرتے تھے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف بنا کر اس کا حصہ بننے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کی روایتی سیاست سے بیزار لوگوں نے تبدیلی کے نعرے پر اعتبار کیا اور کپتان کی باتوں پر اعتماد.... 2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان اپنے جلسوں میں کرکٹ کے بعد ’’سیاسی ہیرو‘‘ کے انداز میں سامنے آئے، اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہوئے کہ مغرب میں اُن کے ماضی کا حوالہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ ایک ’’پلے بوائے‘‘ اور کھلنڈرے نوجوان کا تھا جس کی نائٹ لائف کی باتصویر داستانیں اخبارات اور میگزین کی زینت بنتی رہی تھیں.... لیکن اُنہیں پسند کرنے والے لوگوں نے اُن تمام الزامات کو نظرانداز کر دیا بلکہ اُن کے سیاسی سحر اور گلیمر میں گرفتار لوگوں نے حقائق جانتے بوجھتے ہوئے اس الزام سے بھی صرفِ نظر کیا کہ مبینہ طور پر اُن کی پہلی بیوی سیتا وائٹ سے اُن کی ایک صاحبزادی بھی ہے لیکن وہ اس رشتے کو تسلیم نہیں کرتے۔
مغربی معاشرے میں ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن اِس معاشرے میں جہاں عمران خان اُن لوگوں سے ووٹ مانگ رہے تھے جہاں کسی شخص کا اپنی بیٹی کے ساتھ باپ ہونے کا رشتہ ہی تسلیم نہ کرنا ایک بےرحمانہ رویہ سمجھا جاتا ہے....اس معاشرے میں لوگ ایسے شخص کے پڑوس میں بھی رہنا پسند نہیں کرتے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایک طبقے نے انہیں ووٹ دیئے اور اُن سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا، مگر انہیں کیا ملا؟ تبدیلی کی خواہش اور کوشش تو ہمیشہ مثبت نتائج کیلئے کی جاتی ہے، ایثار اور قربانی تو بُرے منظر کو ایک خوبصورت منظر میں تبدیل کرنے، دکھوں کی جگہ خوشیوں اور صعوبتوں کی جگہ آسانیوں کیلئے کی جاتی ہے لیکن آج کیا ہو رہا ہے؟ اُن کا ہیرو، اُن کا لیڈر کس انداز کی سیاست کر رہا ہے؟ تمام سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی ایوانوں میں بیٹھے اُن کے نمائندے کرپٹ ہیں، جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے انہیں بھی مسترد کیا جا رہا ہے۔ اداروں کی تحقیر کر کے اُن پر بداعتمادی کی جا رہی ہے، ہر شام کنٹینر پر کھڑے ہو کر سیاسی ناپختگی اور غیرذمہ دارانہ بیانات سے خود اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو بھی ایک نئے امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ناقابل عمل اور ناقابل فہم مطالبوں سے رفقاء کو بھی پریشان... اور کافی حد تک بدظن کر رکھا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ کپتان کی ٹیم کے بیشتر ارکان انتہائی مایوسی اور بددلی کا شکار ہیں ۔ کور کمیٹی کے اجلاس میں ارکان نے اپنے بعض تحفظات کا اظہار کیا ۔ خدشات بھی ظاہر کئے اور وزیراعظم کے استعفے کے انتہائی مطالبے پر نظر ثانی کرتے ہوئے حکومت اور مصالحت کاروں کی طرف سے تجویز کردہ آبرو مندانہ اور باوقار طریقہ کار پر عمل درآمد کی حمایت بھی کی ۔ لیکن کپتان اپنی ضد پر قائم رہے اور کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد کنٹینر پر آکر ببانگ دہل یہ کہہ دیا گیا .... شاہ محمود حکومت سے مذاکرات کرتے رہیں لیکن میں وزیراعظم کا استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں جائونگا ۔ اطلاعات تو یہی ہیں کہ ملتان کے دوسرے مخدوم نے بھی کچھ ایسا ہی کرنا ہے جو ملتان کے پہلے مخدوم نہیں کیا ہے.... لیکن اس مرتبہ مختلف کچھ ویسا ہونا ہے جیسا احمد رضا قصوری نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بھٹو صاحب کو پارٹی سے نکالنے کے اعلان پر قصوری صاحب خود تماشا بن گئے تھے۔
پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لینے والی جماعت جس نے ایک صوبے میں حکومت بنائی، قومی اسمبلی میں 33اور پنجاب میں 26سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن آج قیادت کنٹینر پر، ارکانِ پارلیمنٹ سڑکوں پر اور کارکن جیلوں میں جا رہے ہیں۔ کپتان نے اپنے غیرذمہ دارانہ بیانات سے ملکی سیاست میں خود کو تنہا کر لیا ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ وہ طاقتیں جو خطے کے ممالک اور پاکستان کی سیاست میں غیرمعمولی دلچسپی رکھتی ہیں وہ بھی عمران خان کی سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں۔ اِن کے دھرنوں کی سیاست کو اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں کبھی دلچسپی اور کبھی بیزاری سے زیربحث لایا جاتا ہے۔ لیکن سفارت کار اس حوالے سے سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے کم ہی دیکھے گئے۔ کیا یہ تمام صورتحال کسی المیے سے کم ہے کہ کپتان نے تھرڈ امپائر کی اصطلاح استعمال کر کے پاک فوج کو اس سارے سیاسی کھیل میں شامل کیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ لیکن اب جبکہ فوج کی جانب سے تمام صورتحال واضح کر دی گئی تو اُن کی مایوسی دیدنی ہے جو یقیناََ آہستہ آہستہ لاتعلقی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایک ماہ تک کنٹینر پر کھڑے ہو کر کارکنوں کو سبزباغ دکھائے گئے، امیدیں دلائی گئیں اور جاگتے میں خواب...لیکن ان امیدوں اور خوابوں کی تعبیر کیا ملے گی؟وہ نظر آ رہی ہے۔ چند سو کارکنوں کے رنگین لباس اور ترنگے اسکارف میں موسیقی کی دھن پر روزانہ تھرکنے سے ’’جسمانی تبدیلی‘‘ تو آ سکتی ہے لیکن ملکی حالات میں نہیں۔
1970ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اسی طرح سوشلزم کا نعرہ لگا کر ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی جس طرح عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں سے نمایاں اکثریت حاصل کی۔ پھر جب اگست 1973ء میں بھٹو صاحب نے وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور اداروں کو قومیائے جانے کا عمل شروع ہوا تو یہ منظر بھی دیکھنے میں آئے کہ مزدور لیڈر فیکٹری مالکان کو دفتروں سے گھسیٹ کر باہر نکال دیا کرتے تھے، چپراسی اپنے افسر کا دروازہ ٹھڈا مار کر کھولتے، ا سٹوڈنٹ لیڈر پرنسپل کے آفس میں کالج کا نظم ونسق سنبھال لیتے۔ مزارعوں نے جاگیرداروں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور سرکاری دفاتر میں یونین لیڈروں نے اپنا کام چھوڑ کر افسران کے کام سنبھال لئے تو سارا نظام ہی درہم برہم ہونے لگا اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ ’’اگر یہ سوشلزم ہے تو ہم باز آئے ایسے نظام سے‘‘ عوام کو سوشلزم سے بدظن کرنے کیلئے ایک ایسی تصویر پیش کی گئی کہ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔ ہرچند کہ نہ تو ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے درمیان اور نہ ہی پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے.... لیکن اسی طرح آج نئے پاکستان اور تبدیلی کے خوش کُن نعرے لگائے جا رہے ہیں، انقلاب کی باتیں کی جا رہی ہیں اور صورتحال کو دیکھتے ہوئے آج بھی لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ.... اگر وزیراعظم کی کرسی خالی کرا کہ وہاں بیٹھنا ہی تبدیلی ہے، چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کر کے موسیقی کی لہروں پر ہی نیا پاکستان بنانا ہے تو پھر ’’ہم باز آئے ایسی تبدیلی اور ایسے نئے پاکستان سے‘‘
تازہ ترین