• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ’’خادم خاص‘‘ نورا کی طرح طاقتور، ان کے رازوں کا امین اور شخصیت کے مخفی گوشوں کا گواہ تھا اور نہ ہی نواب آف کالاباغ کے نورے کی طرح ان کی ہیبت اور خوف کا اظہار۔ وہ تو بس چوہدری شجاعت کے صوفی کی طرح، ہاں جی، اچھا جی مہمان آگئے نیں، روٹی لگ گئی اے کے محدود احکام کی تعمیل کرنے والا ایک بغیرتنخواہ کا ’’ملازم خاص‘‘ تھا۔ نوابزادہ صاحب اسے ایک مخصوص انداز اور آواز کے نپے تلے زیروبم کے ساتھ پکارتے، جمشید.... اور پلک جھپکتے جمشید حاضر ہوجاتا۔ حالات، معمولات اور مزاج آشنائی اتنی تھی کہ نواب صاحب ایک جملہ بولتے اور باقی ساراکام جمشیدکی سمجھ میں آجاتا۔ پھرسرشام محفلیں سجتیں غلام مصطفیٰ جتوئی، مولانا کوثرنیازی،مولانا فضل الرحمٰن سے لیکر ملک حاکمین اور ملک نوید تک ان محفلوں میں شریک ہوتے۔اپوزیشن کے لوگ دن کے اجالے میں ملتے توحکومتی شخصیات رات کے اندھیرے میں مشورے اوررہنمائی حاصل کرتیں۔اگر نواب صاحب حکومت کے ہمدرد ہوتے تو ملاقاتیوں کی یہ ترتیب بھی الٹ ہوجاتی۔
اسلام آباد میں موجود شاید ہی کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہوتی جو حقے کی گڑگڑاہٹ اور سگار کےدھویںمیں نواب صاحب کے سیاسی فرمودات، ملکی صورتحال، سیاست کے دائوپیچ اور رموزو اسرار کے بھیدبھائو جاننے کیلئے ان کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرتی۔ زبان و بیان کی چاشنی، برمحل واقعات کا اظہار اشعار میں اور اگر کسی سیاسی مخالف کی بات ناپسند بھی ہو تو ناپسندیدگی کا اظہار اتنے لطیف اور شائستہ پیرائے میں کہ جس کے بارے میں ہو، وہ خود اسے عزت افزائی سمجھے۔لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے پاس32 نکلسن روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے مکان میںسکونت پذیرجہاں ان کی جماعت کا دفتر تھا،نوابزادہ نصراللہ خان جب راولپنڈی اسلام آباد آتے تو اپنے متمول سیاسی رفقاء جن میں چوہدری ارشد،سید کبیر علی واسطی کے علاوہ ایک غیرسیاسی کاروباری دوست حافظ اسحٰق کے دولت خانے پر قیام کرتے جہاںسیاست اور شعرو سخن کی محفلیں سجتیں۔ نوابزادہ صاحب کے بارے میں ان کے مخالفین نے جن میں بعض ان سے دوستی کے دعویدار بھی تھے یہ تاثر پیدا کردیا تھا کہ ’’نواب زادہ صاحب جمہوریت کے دور میں مارشل لا کیلئے راہ ہموار کرنے اور مارشل لا میں جمہوریت بحال کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں‘‘ اور اپنے اس دعوے کے بارے میں کئی مثالیں اور تاریخی واقعات بھی پیش کرتے تھے۔ بہرکیف اپنی پوری سیاسی زندگی میں جو کم و بیش نصف صدی پر محیط تھی نوابزادہ صاحب نے اپنی شخصیت اور کردار کو ’’اپوزیشن کی علامت‘‘ کے طور پر برقرار رکھا۔
لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دوراقتدار میں بزرگ سیاستدان کو ان کے اس حوالے اور زعم سے محروم کر دیا اور انہیں قومی اسمبلی کی کشمیرکمیٹی کا چیئرمین بنادیا۔پھر آصف علی زرداری نے ان سے نیازمندی کا اظہار یوں کیا کہ نوابزادہ صاحب کو وفاقی وزیر کی سہولتیں اورمراعات فراہم کرنے کا حکم جاری کرادیا۔اس طرح نواب صاحب وفاقی دارالحکومت میں واقع منسٹرز کالونی کے بنگلہ نمبر9میںمنتقل ہوگئےجہاںنوکروں،چاکر وںسہولتوں اور مراعات کی فراوانی تھی کیونکہ وہ سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ حکومت کا حصہ بن گئے تھے..... اس دور میں جب نئے ماڈل کی چمکتی دمکتی بیش قیمت نئی شوفرڈرییون کار LEXUSان کے دروازے پر آئی تو ’’فرسٹ ڈرائیو‘‘ کے طور پر انہوں نے منسٹرز کالونی کے ہی تین چار چکر لگائے(نیازمند ان کے ہمراہ تھا) خوشی کے عالم میں بار بار گاڑی کی تعریف کررہے تھے۔ بعد میں اسی گاڑی میں حقہ پیتے ہوئے لاہور بھی گئے۔ حاسدین کہتے تھے کہ نوابزادہ صاحب کو سہولتوںاور مراعات کی نوازشات میں حکومت نےاس لئے ’’مصروف‘‘ کردیا تھامبادا اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف انہیں’’مصروف‘‘نہ کرلیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بنائے ہوئے صدر سردار فاروق لغاری نے ان کی حکومت کورخصت کیا تو نواب صاحب کی پرآسائش حکومتی زندگی کا باب بھی ختم ہوا اور وہ نئے انتخابات کے بعد بننے والی میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے۔اسی دوران ایک موقعہ پر اعجازالحق نے جو غالباً وزیر بن گئے تھے یا بننے والے تھے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نوابزادہ صاحب کے بارے میں سخت کلامی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نوابزادہ صاحب بابائے جمہوریت بنتے ہیں،بڑی پارسائی کے دعوے کرتے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میںکروڑوں روپے کا محل نما گھر کہاں سے خریدا ہے۔ اگلے روز ہی جمشید کا فون آیا، نواب صاحب یادکررہے ہیں، ان کی نئی قیام گاہ کا علم نہیں تھا، معلوم کرنے پر جمشید نے بتایا سیکٹرG.8-2مکان نمبر 301بالمقابل تندوری ریسٹورنٹ۔ یہ سیکٹر اسلام آباد کے متوسط طبقے کے مکینوں کا تھا اور لوکیشن چھوٹے گھروں والی آبادی کی ۔ نواب صاحب مختصر سے ڈرائنگ روم میں صوفے پر متمکن حقہ کے کش لگا رہے تھے، سلام کے جواب میں نہ تو روایتی گرمجوشی اور نہ ہی پذیرائی کا مشفقانہ انداز، اداسی کی حد تک سنجیدگی، جمشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، پہلے انہیں محل کا دورہ کرادو۔ ساری بات سمجھ میں آگئی، اعجازالحق کا بیان اور نواب صاحب کی آزُردگی....... گھر کے بالائی حصے میں دوبیڈروم تھے جہاں انکے پوتے (نوابزادہ افتخارخان کے بیٹے) پڑھائی میں مصروف تھے۔ چھوٹا سا کچن اور مختصر سا ڈرائنگ روم۔ واپس آئے تو نواب صاحب اسی کیفیت میں حقہ گڑگڑارہے تھے، بات کرنیکی ہمت نہیں ہوئی، کچھ دیر بعد خود ہی گویا ہوئے ’’محل کا دورہ کرلیا‘‘، انکی آوازدور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، قدرے خاموشی کے بعد نواب صاحب نے مسلسل حقے کے کش لئے اور پھر اپنے سامنے سے حقہ ایک طرف کرتے ہوئے کہا، میں نے تو کبھی ضیاءالحق کے بارے میں بھی کوئی سخت بات نہیں کی، اعجازالحق تو دور کی بات ہے، پھر اس کے فرزند نے مجھ پر ایسا الزام کیوں لگایا۔ یہ مکان میری ملکیت نہیں، میرے پوتے نے اسلام آباد کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ انہوں نے اب اسلام آباد میں ہی کافی عرصے رہنا ہے، اسلئے یہ گھر کرائے پر حاصل کیا ہے،جس کی تحقیق کے بغیر اعجازالحق نے اتنا بڑا الزام لگایا۔ وہ میرے طرزسیاست کو گالی دے دیتا تو مجھے دکھ نہ ہوتا۔انہوں نے یاد دلایا قومی اسمبلی کے بھرے پرے ایوان میں ، تمہارے شہر کے شیخ رشید نے مجھ پر پھبتی کسی تھی کہ ’’نوابزادہ نصراللہ خان کی پوری جماعت ایک ٹانگے کی سواریاں ہیں‘‘ میں نے محسوس ضرور کیا تھا لیکن یہ ایک سیاسی بات تھی اس لئے مجھے دکھ نہیں ہوا لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے مجھ فقیر پر الزام لگا رہے ہیں گویا ؎
لو وہ بھی کہہ رہے ہیںکہ بے ننگ و نام ہے
نوابزادہ صاحب کو نہ تو کبھی اتنے غصے میں دیکھا تھا اور نہ ہی اتنا کبیدہ خاطر وہ بار بار کہہ رہے تھے، آخر جنرل ضیاالحق کے بیٹے نے بغیرکسی تحقیق کے مجھ پر اتنا بڑا الزام کیوں لگایا۔ ہم جیسے لوگوں کی سیاست میں یہ فقیری اور درویشی ہی تو کمائی ہے جسے جنرل ضیاالحق کے بیٹے نے الزام سے آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کیفیت دیکھ کر جمشید پانی کا گلاس لایا ، چندگھونٹ پینے کے بعد نواب صاحب نے صوفے کی پشت پر ٹیک لگا دی، جیسے ڈھے گئے ہوں، گہری سوچ میںگم پھر ان کی ایک آنکھ سے آنسو نکلا اور چہرے پرلکیر بناتا ہوا دامن میں جذب ہوگیا....توقف کے بعد دھیمے انداز میں کہا نواب صاحب اعجازالحق کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی، یا پھر اسے کسی نے گمراہ کیا ہوگا ، اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں یہاں لے آتا ہوں وہ آپ سے ضرور معافی مانگ لیں گے۔ ہاتھ کے اشارےسے کہا نہیں ہرگز نہیں، پھر ہمت کرکے دریافت کیا کہ نواب صاحب میں نے ’’محل‘‘ دیکھ لیا ہے آپ اجازت دیں تو کل آپ کی طرف سے تفصیلی وضاحت اور ساری صورتحال شائع ہو جائیگی۔ کہنے لگے اب اس کی ضرورت نہیں شاید حقائق جاننے کے بعد موصوف کو خودہی اندازہ ہوجائے کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔ رسمی گفتگو کے بعد نوابزادہ صاحب نے رخصت کی اجازت لی۔ یہ موبائیل فون کا زمانہ نہیں تھا ۔گھر پہنچنے پر اطلاع ملی کہ نوابزادہ نصراللہ خان کے گھر سے تین چار مرتبہ فون آچکا ہے،کوئی جمشید صاحب تھے، فوری رابطہ کیا تو جمشید نے بتایا کہ نواب صاحب نے سختی سے تاکید کی ہے گھر کے حوالے سے ملاقات اورگفتگو کا کوئی ذکر نہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی خبر شائع کی جائے۔
یہ بھی اطلاع دی کہ آپکے جانے کے بعد نوابزادہ صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ بلندفشار خون کے باعث ٹیبلٹ لیکر سوگئے تھے۔
بعد میں یہ تصدیق منظرعام پر آگئی کہ کرائے کا وہ ’’محل‘‘ ایک سرکاری افسر کی ملکیت تھا جو اس نے 25ہزار روپے کرائے پر اٹھایا تھا۔ اس سارے واقعہ کو نوابزادہ نصراللہ خان کی حساس طبیعت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگلے وقتوں کے وضع دار لوگوں کی متروک سیاست بھی اور سیاست میں دستار بچانے کا دفاعی انداز بھی، لیکن آج کی طرزسیاست کیا ہے، دشنام طرازی، مخالف کی تذلیل، تضحیک اور تحقیر۔ اندازتخاطب یہ ہے کہ مخاطب ہی اوئے کہہ کر کرنا ہے۔ چور، بدمعاش، کرپٹ، بے شرم، بے حیا اور بدعنوان، سڑکوں پر گھسیٹنے، پیٹ پھاڑ کر قومی رقم نکالنے کی باتیں، مخالفین خود ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان اور گھروں میں بیٹھی ماں بہنیں اور بیٹیاں بھی اس ’’اندازخطابت ‘‘ سے محفوظ نہیں۔
ہرایک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
بہکتے، تھرکتے انداز میں بیہودہ جملے، شرمناک ریمارکس، بدلہ، انتقام، پکڑ لو، چھین لو، مار دو.....یہ ہے آج کی دلیرانہ سیاست کا انداز۔ 11 سال قبل ستمبر 2003ء آخری ہفتے 25 اور 26 کی درمیانی شب نوابزادہ صاحب اسلام آباد میں نوید ملک کے گھر پر موجود تھے جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا،ہنگامی صورتحال میں اسلام آباد کے ہی اسپتال میں ابتدائی طبی امداد دی گئی جہاں ان کی حالت سنبھل گئی ...کہنے لگے اسپتال والے تو بڑا بل بنا دیں گے طبیعت ٹھیک ہے گھر لے چلو لیکن بس کچھ ہی دیر کی زندگی تھی آخری لمحے ساتھ گزارنے کے لئے سب سے پہلے مخدوم جاوید ہاشمی وہاں پہنچے۔
اللہ تعالیٰ نوابزادہ صاحب کو عمر خضر عطا فرماتا لیکن شاید اچھا ہی ہوا کہ وہ پردہ کر گئے وگرنہ آج وہ حیات ہوتے تو شاید وہ بھی کنٹینر والوں کی زد میں ہوتے اور شاید ان کے ایک الزام کی بھی تاب نہ لا پاتے،نواب صاحب کی87سالہ سیاسی زندگی اور شخصیت کے بارے میں کئی کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں....سیاہ پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی، سفید کرتا یا پھر کلف لگی شلوار قمیص ہلکے رنگ کی شیروانی اور ہاتھ میں عصا۔ان کی ذات سے منسوب ہر واقعہ، ہر قصہ ایک تاریخ ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
تازہ ترین