• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا‘ اُن کے پاس دو راستے تھے پہلا تو یہ کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کا تذکرہ یا تو سرے سے ہی گول کر جاتے یا پھر محض سرسری انداز میں حاضری لگا دیتے لیکن اُنہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کرکے ڈٹ کر عالمی فورم پر کشمیریوں کی نمائندگی کی اور کشمیر کے تنازع کو طے کرانے کی ذمہ داری سے عالمی برادری کو یاددہانی کرائی، اس کے ساتھ ساتھ پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کا موقع کھو دینے پر بھی اُنہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، یہ جانتے ہوئے کہ بھارتی قیادت پر اُن کا یہ خطاب کتنا گراں گزرے گا،بلکہ جو بااثر طاقتیں دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ’’دوستانہ تعلقات‘‘ کی حامی ہیں اُنہیں بھی شاید ناگوار گزرے لیکن وزیراعظم نوازشریف اپنی ذمہ داری سے سرخرو ہوئے۔ یقیناً وزیراعظم نواز شریف کے پیش نظر یہ حقیقت بھی ہو گی کہ اگر وہ جنرل اسمبلی میں موثر انداز سے کشمیر کا مقدمہ پیش نہیں کرتے تو پاکستان میں اُن کے مخالفین اُن کے ساتھ کیا کریں گے! تاہم بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یہ پیشکش کہ ان کاملک خطے کےامن اورتشدد سے پاک ماحول کےلئے پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنے کےلئے تیار ہے ان کی مثبت سوچ کی غمازی کرتی ہے۔
جولوگ اورحلقے امریکہ میں نواز شریف اور ان کےبھارتی ہم منصب نریندرمودی کی مصروفیات اورپذیرائی کاموازنہ کرتے ہوئےوزیراعظم نواز شریف کے دورے کوکم اہمیت کاحامل قرار دے رہے ہیں انہیں اتنا ضرور سوچنا چاہئے کہ بھارتی وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کے علاوہ امریکہ کے سرکاری دورے پرگئے ہیں جبکہ پاکستانی وزیراعظم صرف جنرل اسمبلی سے خطاب کےلئے گئے تھے اوران کادورہ نیویارک تک ہی محدود تھا۔ بھارتی وزیراعظم امریکہ میں اپنے پانچ روزہ قیام کے دوران ان تقریبات میں شرکت کریں گےجن کی تیاریاں کئی ہفتوں سے جاری تھیں البتہ یہ بات درست ہے کہ میزبان ملک کے سربراہ کی حیثیت سے صدراوباما اپنی مصروفیات کے باعث جن ممالک کے سربراہان سے ملاقات کےلئے وقت نہیں نکال سکے ان میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی شامل تھےاورخاصی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے بھی شعوری طورپر اس حوالے سے کوئی تگ ودو نہیں کہ وہ نیویارک میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کریں یہ بھی عین ممکن ہے کہ چاہنے کے باوجود وہ اپنے اور ان حکومتی رفقا کے مشوروں کے پابند ہوئے ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ عالمی منظر پر دونوں ملکوں کے وزیراعظم خطے کے اہم رہنماوں کی حیثیت سے یکساں اہمیت حاصل کریں۔
جب تک زمینی حقائق کا ادراک نہ ہو‘ اُن کا اعتراف نہ کیا جائے‘ صورتحال کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بڑے آدمی کا کہنا ہے کہ’’اُن لوگوں سے بچو جو تمھیں اُن نقائص کے بارے میں بتاتے ہیں جو تم میں نہیں ہیں، اور اُن سے بھی جو تمھیں اُن خوبیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو تم میں نہیں‘‘ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ وزیراعظم نواز شریف ایک ’’کمزور وزیراعظم ‘‘کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے نیویارک گئے تھے اور اُن کے اقتدار کے تین ادوار میں یہ پہلا موقع تھا کہ اُنہیں بیرون ملک اپنے ہی ہم وطنوں کے محدود اور غیرموثر ہی سہی لیکن احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی ماہ سے ملک میں اُن کے خلاف ایک مسلسل تحریک چل رہی ہے۔ ملک کے دارالحکومت میں اُن کی حکومت کیخلاف دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔ اُن سےمستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ سول نافرمانی کی تحریک کی باتیں ہورہی ہیں، غیرملکی سربراہان پاکستان کے دورے منسوخ کر رہے ہیں، وزیراعظم کوملک میںپولیو کے حوالے سے بھی ناپسندیدہ صورت حال کا سامنا تھا‘ عدالتوں میں اُن کیخلاف مقدمات درج ہورہے ہیں‘ اُن پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کرکے نئے الیکشن کے مطالبات ہورہے ہیں‘ اُن کی مخالفت کرنیوالے مخصوص میڈیا کو مضبوط کیا جارہا ہے جبکہ اُن کی حامی اپوزیشن اور پارلیمنٹ کے مقابلے میں محاذ آرائی کیلئے نئے اسباب پیدا کئے جا رہے ہیں۔ غیریقینی کے ان حالات میں اعتماد کا فقدان ایک فطری سی بات ہے‘ لیکن یقین اور اعتماد سے محروم کرنیکی صورتحال پیدا کرنیوالے افراد اور اسباب کے باوجود ایک’’ کمزور وزیراعظم ‘‘نے عالمی برادری کے سامنے اپنے فیصلے میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور کشمیر کے بارے میں کھل کر اپنے ملک و قوم کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اس حقیقت سے کیسے انحراف کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی نیویارک میں گنتی کے چند اور وہ بھی قدرے کم اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں تو ہوئیں لیکن اسےمحض ’’فوٹو سیشن‘‘ میں ہی شمار کیا جاسکتاہے۔
دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا سواگت تھا جو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعدپہلی مرتبہ امریکہ کے دورے پرآرہے تھے جس طرح وزیراعظم پاکستان کے سیاسی مخالفین نے اپنے بیانات‘ اعلانات اور بعض اقدامات سے اُنہیں یقین اوراعتماد سے محرومی کا ماحول بنا کر اُنہیں عالمی فورم میں بھیجا تھا. اُس کے برعکس بھارتی وزیراعظم اپنے ملک کا بھرپور سیاسی اعتماد اور یقین کی حمایت لے کر آئے تھے اور اُن کے ’’محب وطن مخالفین‘‘ کو احساس تھا کہ نریندرمودی پورے ملک اورکروڑوں ہندوستانی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے اُن کی ترجمانی کرنے عالمی برادری کے سامنے جا رہے ہیں اس لئے اُنہیں مضبوط سے مضبوط بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جو امریکہ کا ا سٹرٹیجک پارٹنر ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا اتحادی، اُسے وہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی جو بھارتی وزیراعظم کو حاصل رہی, یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ پاکستان کے وزیراعظم جن باتوں سے محروم رہے. اور اُن کے بھارتی ہم منصب نے جو کامیابیاں حاصل کیں ان دونوں میں. ان ،شخصیات کا انفرادی حوالہ اُن کی شخصیت نہیں‘ بلکہ وہ عوامل اور محرکات تھے جن کا ذکر کیا گیا، وگرنہ میاں نواز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اورتیسری مرتبہ اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ جبکہ اُن کے بھارتی ہم منصب نریندرمودی کی سیاسی زندگی ایک صوبے (گجرات) کے وزیراعلیٰ تک محدود رہی جو 2002ء کے بدترین فسادات کے باعث ’’داغدار‘‘ ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ پس منظر بھی ہے۔امریکی وزارت خارجہ کا طویل پس منظر رکھنے والی خاتون سفارتکار نینسی پاول‘سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں امریکی سفیر کی حیثیت سے اسلام آباد میں متعین تھیں۔ یہ دلچسپ واقعہ ’’ہدایت اور احتیاط‘‘ کے پیش نظر رپورٹ تو نہیں ہوا لیکن اسکے شرکاء کے درمیان خاصہ عرصہ دلچسپی کا باعث بنا رہا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں ہونیوالی ایک تقریب میں میزبان نینسی پائول سفارتخانے کے سبزہ زار میں مدعوین کے ایک گروپ جس میں ایک پاکستانی وزیر بھی شامل تھے غیررسمی گفتگو میں مصروف تھیں۔ دوران گفتگو مذکورہ وزیر نے پنجابی زبان میں نینسی پائول کیلئے ’’چالاک سفارتکار‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنے ساتھی کو محتاط گفتگو کرنے کا مشورہ دیا‘ چونکہ ماحول پر ’’مشروب مغرب‘‘ کا اثر غالب تھا اس لئے غیرسفارتی اور غیرمحتاط گفتگو کیلئے شرکاء آپس میں پنجابی زبان میں گفتگو کرتے جس میں سفیر کا بھی تذکرہ ہوتا۔ تقریباً پانچ منٹ کی گفتگو کے بعد امریکی سفیر نے شرکاء سے اجازت لیتے ہوئے جہاں ڈرنک انجوائے کرنے کا رسمی جملہ ادا کیا وہاں مسکراتے ہوئے یہ جملہ اردو زبان میں کہا ’’میں اردو بول لیتی ہوں اور پنجابی سمجھ لیتی ہوں‘‘ سفیر کی جانب سے یہ جملہ جیسے ان شرکاء پر بجلی کی مانند کڑکا اور اُنکے ہوش ’’ٹھکانے‘‘ آگئے۔
بالخصوص وزیرصاحب صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے اور نینسی پائول مسکرا مسکرا کر Dont Worry, Dont Worry کہتی رہیں۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگلی صبح مذکورہ وزیر نے باضابطہ طور پر امریکی سفیر سے Appology کیا۔ اس طرح یہ بات ختم ہو گئی۔ یہی نینسی پائول 2012ء میں بھارت میں بھی امریکی سفیر کی حیثیت سے 2014 ء تک خدمات انجام دیتی رہیں جو اُن کی آخری سفارتی ذمہ داری تھی۔ بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کا ماحول بنا تو یہ بات بھی یقینی ہو گئی کہ اگربھارتیہ جنتا پار ٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی تو وزارت عظمیٰ کیلئے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی Most Favorite ہوں گے جبکہ نریندرمودی کی موجودہ سیاسی پوزیشن امریکہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں تھی کیونکہ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے فسادات جن میں ایک ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے اور جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی کی انتظامی طور پر ذمہ داری گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی پر ہی عائد کی جا رہی تھی اور اسی حوالے سے امریکی حکومت نے اُن پر اپنے ملک میں داخلے پرپابندی عائد کردی تھی. اس دوران جب نریندر مودی نے امریکہ کے ویزہ کی درخواست دی تو اُن کی حکومتی حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے دہلی میں امریکی سفارتخانے نے انہیں ویزہ دینے سے معذرت کر لی تھی تاہم اس حقیقت کے پیش نظر کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی کامیابی یقینی ہو گئی تھی اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کی بھی ۔ نینسی پائول گلدستہ اُٹھائے ممبئی میں امریکی کونسل جنرل پیٹرہیس کے ہمراہ نریندرکی سرکاری رہائش گاہ پہنچ گئیں۔
ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کے دورانئے پر محیط ملاقات کے بعد اس ملاقات کے حوالے سے جو خبر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی سے بھارت میں امریکی سفیر کی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور بھارت اور امریکہ کے مابین تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ کسی بھی امریکی سفیر کی نریندر مودی کی سانحہ گجرات کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی جبکہ 2005ء میں نریندر مودی پر امریکی ویزے کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی تھی اس طرح 9سال تک امریکہ کے ویزے کی پابندی کے بعد امریکی حکومت کی خصوصی دعوت پر بھارتی وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی امریکی صدر کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کررہے ہیں۔ اس طرح تقریباً ایک دہائی قبل جہاں داخلے کیلئے اُنہیں ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا آج وہیں پوری امریکی حکومت اُنکی پذیرائی کیلئے پرجوش نظر آتی ہے۔ جہاں تک بھارتی وزیراعظم کیخلاف نیویارک میں ایک وفاقی عدالت کی جانب سے 2002ء کے سانحہ کے حوالے سے مقدمے کے اندراج اور اب اُن کیخلاف سمن جاری کرنے کا معاملہ ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے کارروائی کی جا رہی ہے کیونکہ نریندر مودی تو اس وقت امریکہ کے ایک پسندیدہ ترین ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے وہاں موجود ہیں ویسے بھی وزیراعظم خواہ کسی بھی ملک کا ہو نہ صرف اسے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنیوالے سفارتکاروں کو بھی سفارتی استثنیٰ حاصل ہوتاہے۔
تازہ ترین