آج عالم اسلام کا چودہ سو ستائیسواں 1427واںحج ہے،پہلا حج سن9ہجری مطابق22مارچ631 بروز منگل وار کوہوا تھا اس حج کی قیادت خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کی تھی جبکہ رسولﷺ کے نقیب کے طورپر حضرت علیؓ اس حج میں شریک ہوئے تھے ۔ دوسرا حج سنہ10ہجری 9ذو الحجہ بروز جمعہ کوہوا تھا اس روز عیسوی تاریخ بھی 9ہی تھی مارچ کا مہینہ اور سن632تھا اس حج کی قیادت حضرت محمدﷺ نے خود فرمائی تھی اس حج میں جو اصحابؓ مدینہ سے ہمارے پیارے نبیﷺ کے ہمراہ آئے تھے انکی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی جبکہ مکہ مکرمہ کے مقامی مسلمانوں کی شرکت سے میدان عرفات میں خطبے کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوالیس ہزار مسلمان اللہ کے حضور حاضر تھے وہ حج جمعہ کے روز تھا اس لئے حج اکبر کہلایا اوراگر جمعہ نہ بھی ہوتا تو عالم اسلام اور تاریخ انسانی میں اس طرح کا حج پھر نہ ہوسکا اور نہ ہی قیامت تک ہوسکے گا ۔ اس حج کو ہمارے علمائے کرام نے چار ناموں سے یاد کیا ہے نمبر1حجتہ الوداع نمبر2حجتہ الاسلام نمبر3حجتہ البلاغ نمبر4حجتہ الکامل ، اس حج میں حضورﷺ نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے 2خطبے منیٰ میں اور ایک خطبہ میدان عرفات میں منیٰ کے خطبے کے وقت لوگوں تک حضورﷺ کی آواز پوری طرح نہیں پہنچ پارہی تھی اس لئے ربیعہ بن امیہ خلف نے خطبے کے الفاظ کو باآواز بلند لوگوں تک پہنچایا تھا ۔ عرفات کے میدان میں حضرت ﷺ نے9ذی الحج کو خطبہ ارشاد فرمایا تھا جسے خطبتہ الوداع بھی کہتے ہیں اور منشور انسانیت بھی اس خطبے میں آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ’’اے لوگو میرا کلام سنو تاکہ میں تمہارے لئے ضروری امور بیان کردوں کیا معلوم آئندہ سال میں تم سے پھر مل سکوں یا نہیں ‘‘ حضور ﷺ نے اپنا یہ آخری خطبہ القصویٰ نامی اونٹنی پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا تھا حضرت اسامہ بن زید اس دوران آپ ﷺ پر کپڑے سے سایہ کئے رہے اس روز حضورﷺ کی عمر مبارک62سال8ماہ اور 17دن تھی ، اس حجتہ الوداع میں آپﷺ کے ساتھ جو ازدواج مطہرات تشریف لے گئی تھیں انکی تعداد تاریخ کی کتابوں میں9درج ہے ، حجتہ الوداع کے موقع پر رسول ﷺ مدینہ پاک میں سباح بن عرفطہ کو گورنر مقرر کر آئے تھے ۔ حج کے بعد حضورﷺ نے جس حجام سے بال (موئے مبارک) کٹوائے تھے اس حجام کا نام معمر بن عبداللہ تھا وہ بال حضرت ابو طلحہؓ نے اپنے پاس محفوظ کر لئے تھے ایک بال حضرت خالد بن ولید نے اپنی ٹوپی میں لگا لیا تھا تاریخ نے پھر دیکھا کہ خالد بن ولیدؓ کو کسی جنگ میں شکست نہیں ہوئی، بعد میں کئی صحابہ کرام حضرت ابو طلحہؓ سے موئے مبارک لے کر اپنے پاس تبرک کے طور رکھا کرتے تھے آج دنیا میں جہاں کہیں موئے مبارک موجود ہیں وہ وہی ہیں جو ابو طلحہؓ نے محفوظ کئے تھے ۔ اور حجتہ الوداع کا وہ خطبہ جسے زندگی کا نصاب اور منشور انسانیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ وہی خطبہ ہے جو9ذی الحج کو میدان عرفات میں حضرت ﷺ سے عبداللہ بن نوفل نے درخواست کی تھی کہ وہ یہ خطبہ کتابت کراکے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے پھرحضورﷺ کے حکم پر عبداللہ بن نوفل کی خواہش پوری ہوئی اور تاریخ نے اعزاز سمجھ کر اپنے دامن میں اس خطبے کو محفوظ کر لیا ۔
حجتہ الوداع کی مناسبت سے سن10ہجری کو عام الوفود بھی کہا جاتا ہے جب حضرت محمدﷺ نے خطبتہ حجتہ الوداع کے آخر میں فرمایا کہ ’’ اگر پوچھوںکہ میں نے تم کو اللہ کے احکامات پہنچا دئیے ہیں تو کیا جواب دوگے ‘‘ حاضرین نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے احکام الہٰی ہم کو پہنچا دئیے اس پر آپﷺ نے آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر تین بار فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا ، اس موقع پر سورہ مائدہ کی پانچویں آیت نازل ہوئی۔جس کے ابتدائی الفاظ ہیں۔ ’’ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا ، اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا ‘‘
اللہ پاک نے حج کرنے کا حکم سورہ آل عمران میں دیا تھا جو تیسرے چوتھے پارے میں ہے قرآنی ترتیب کے حوالے سے یہ تیسرے نمبر پر جب کہ اس سورہ کا نزول کا نمبر89ہے یہ مدنی سورہ ہے ۔ بعد سورہ حج بھی اللہ پاک نے وحی فرمائی جو اپنے نزول کے اعتبار سے103نمبر پر ہے مگر قرآن حکیم میں اس کی ترتیب کا نمبر22ہے۔ یہ مدنی سورہ ہے سترہویں پارے اقترب میں78آیات اور دس رکوع ہیں اس میں ۔
حج کے لغوی معنی ہیں قصد کرنا کعبہ کا طواف کرنا ، مناسک ادا کرنا حج کرنے والے کے لئے ہدایت ہے کہ مسلمان ہو ، عاقل ہو،آزاد ہو ، صحت مند ہو، مالی استطاعت رکھتا ہو۔حج مرکزیت کی علامت ہے ، مساوات، اجتماعی عبادت اور ادب وعقیدت کا پیغام ہے حج پر آنے والوں سے فرشتے مصافحہ کرتے رہتے ہیں، حج اور عمرہ کرنے والا اللہ کا مہمان ہوتا ہے ۔ سورہ حج کی ستائیسویں آیت میں حج کی اجازت دی گئی ہے جو شخص استطاعت اور مالی آسودگی کے باوجود حج کی سعادت حاصل نہ کرے اسے اللہ پاک نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ تاریخ انسانی کا پہلا حج صرف دولوگوں نے کیا تھا ایک حضرت آدم ؑ اور دوسری حضرت حوا تھیں، اسلام کے ظہور سے پہلے حج بے لباس ہوکر ہوا کرتا تھا طواف کے دوران حجاج اپنے اپنے قبیلوں اور خاندانوں کے قصیدے پڑھا کرتے تھے سیٹیاں بجاتے اور ہلڑ بازی کیا کرتے تھے لیکن اسلام نے انسانیت کو معراج سے ہمکنار کردیا ہے ۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے ، حج سے فراغت کے بعد قربانی ہے ، لیکن جو حجاج کرام قربانی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں وہ تین روزے حج سے پہلے اور سات روزے حج کے بعد رکھیں ۔
حضرت ﷺ نے100اونٹ قربان کئے تھے63کو خود ذبح فرمایا تھا اور37کو حضرت علیؓ نے ، جبکہ اس سے پہلے 8ذی الحجہ کو2مینڈھے قربان کئے تھے آج کا تاریخ اسلام کا چودہ سوستائیسواں حج بھی حج اکبر ہے پاکستان سے جانے والے حاجیوں کی تعداد 143368ہے جبکہ بھارت سے 136020ہے اور دنیا بھر سے اس وقت تقریباً188ملکوں کے لوگ کعبۃ اللہ میں موجود ہیں جن کی تعدا د تیس لاکھ کے قریب ہے اللہ پاک سب کی حاضری قبول فرمائے۔ آمین۔