• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے پاکستان کے قائد عمران خان نے فرمایا ہے کہ میثاق جمہوریت ہی اصل لندن پلان ہے۔عمران خان نے یہ بیان مختلف حلقوں سے یہ خبر آنے کے بعد دیا کہ انہوں نے گزشتہ موسم سرما میں مولانا طاہر القادری سے لندن میں ملاقات کی تھی جہاں حالیہ احتجاجی مہم کے خدوخال طے کیے گئے تھے۔ عمران خان کو عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے اٹھارہ برس گزر گئے۔ وہ پارلیمنٹ میں معتدبہ نمائندگی رکھنے والی ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا بےجا نہیں کہ وہ ہمارے سیاسی ارتقا اور تاریخی تناظر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لندن پلان ہماری تاریخ میں خوشگوارحوالہ نہیں ہے۔ ستمبر 1972ء میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ حزب اختلاف کے کچھ رہنمائوں نے لندن میں ملاقات کر کے سازش تیار کی ہے کہ مختلف صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چلا کر پاکستان کو توڑا جائے۔ ان رہنمائوں میں صوبہ سرحد سے عبدالولی خان، بلوچستان سے سردار عطااللہ مینگل، سندھ سے محمود ہارون اور پنجاب سے ملک غلام جیلانی کے نام گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ایک برس بھی نہیں گزرا تھا۔ ملکی سلامتی کے حوالے سے حساسیت اپنے عروج پر تھی۔ بھٹو صاحب نے غداری کے اس الزام کو بانس پر چڑھا دیا۔ لندن پلان کا تو کبھی اور چھورنہیں ملا لیکن عام تاثر یہی تھا کہ یہ افواہ حزب اختلاف کو کچلنے کے لئے بھٹو صاحب کی شعبدہ گری ہے۔ چنانچہ لندن پلان ہماری تاریخ میں سازش کا استعارہ قرار پایا۔ اب عمران خان میثاق جمہوریت کو لندن پلان قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے مصور عبدالرحمٰن چغتائی کو مخاطب کر کے زبور عجم میں ایک دعائیہ غزل کہی تھی۔ اس کا ایک مصرعہ عمران خان کی نذر کرنا چاہیے۔ یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ ۔ اے خدا، ان کے سینے میں خبر رکھنے والا دل عطا فرما۔
میثاق جمہوریت سازش نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی سیاسی امنگوں اور تمدنی بلوغت کا قابل رشک سنگ میل ہے۔ ہمارے ملک میں روز اول سے سیاست دو دھڑوں کی باہمی کشمکش سے عبارت ہے۔ ایک طبقہ جمہوریت کا خواہاں ہے، دوسرا طبقہ پاکستان پر آمریت مسلط کرنے کا خواہش مند ہے۔ میثاق جمہوریت پاکستان کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کا واضح اعلان تھا کہ جمہوری قوتیں آمریت پسند عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کی بجائے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سیاست کریںگی۔ سازشیں کرنے کی بجائے منتخب حکومتوں کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا ۔ میثاق جمہوریت آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد کا عہد نامہ ہے۔ دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے دونوں جلاوطن سیاسی رہنما یعنی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ہیئت مقتدرہ کی سازشوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ میثاق جمہوریت قوم کے سامنے جمہوری قیادت کی غلطیوں کا اعتراف تھا۔ یہ کسی سیاسی جلسے یا ٹیلی ویژن ٹاک شو میں مانگی جانے والی معافی نہیں تھی۔ میثاق جمہوریت کچھ اصول ضابطوں کی پاسداری کا دستاویزی اعلان تھا ۔ پاکستان کی ان مسلمہ سیاسی قوتوں نے بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے میثاق جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے اتفاق رائے کا اظہار کیا جو باضابطہ طور پر میثاق جمہوریت کا حصہ نہیں تھیں۔ عمران خان نے میثاق جمہوریت کو حرف دشنام دے کر اہل پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ یہ باز آفرینی تو شاید مناسب نہیں کہ مئی 2006ء میں بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف نے دنیا بھر کے صحافیوں کی موجودگی میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو عمران خان پرویز مشرف کے سایہ عاطفت میں تشکیل پانے والی اسمبلی کے رکن تھے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ عمران خان نے دانستہ طور پر میثاق جمہوریت کو نشانہ بنایا ہے یا ان سے نادانستہ چوک ہوئی ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ آمریت پسند عناصر گزشتہ آٹھ برس سے میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جمہوری مفاہمت سے مایوس ہو کر آمریت پسند قوتوں نے اکتوبر 2011ء میں تحریک انصاف اور پھر ایک برس بعد 2012ء کے موسم سرما میں پاکستان عوامی تحریک کو تھپکی دی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 35برس پہلے مقبول سیاسی قیادت کے مقابلے میں اصغر خان کو اتارا گیا تو وہ بھی ’’چہرے نہیں ، نظام کو بدلو‘‘ کا نعرہ لے کر آئے تھے۔ ان تینوں سیاسی جماعتوں نے اپنے لئے تحریک کی اصطلاح اختیار کی۔ تحریک اور جماعت کی اس کشمکش میں جمہوری عمل کے مقابلے میں غیر آئینی انگیخت کی کارفرمائی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
آمریت پسند عناصر نے پاکستان کے سیاسی بندوبست کے لئے تین ترجیحات اختیار کر رکھی ہیں۔ صدارتی نظام حکومت، وحدانی ریاست اور سیاسی اختیار کی ایسی تقسیم جس میں جمہوری قوتوں کو سڑکیں اور نالیاں بنانے پر مامور کر دیا جائے جب کہ بنیادی قومی ترجیحات کی فیصلہ سازی غیر منتخب ریاستی اہلکاروں کے ہاتھ میں ہو۔ ہم نے چار مختلف آمریتوں میں 33برس گزارے ۔ آمر کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہا جائے یا صدر یا چیف ایگزیکٹو، وہ مجلس شوریٰ کی صورت میں بھان متی کا کنبہ جوڑے یا مرغان دست آموز پر مشتمل پارلیمنٹ بنائے ، اختیار کی ہر گلی کی تمام تمام شاہراہیں اور گلیاںبالآخر اس مرکزی چوک میں کھلتی ہیں جہاں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح آمر کا سنگین مجسمہ ایستادہ ہوتا ہے۔ ہمارے منتخب نمائندوں نے 1973ء کے آئین میں پاکستان کے لئے وفاقی پارلیمانی نظام چنا۔ اس متفقہ آئین کو ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدارتی خدوخال بخش دئیے۔ تمام اختیارات وزیر اعظم کی بجائے صدر کے عہدے میں مرکوز کر دئیے گئے۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی چاروں حکومتیں بری طرح مفلوج تھیں لیکن یہ دست وپا جمہوریت بھی مختلف آئینی ترامیم کی مدد سے پارلیمانی طرز حکومت کو بڑی حد تک بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ پرویزمشرف کو 1999ء میں براہ راست مداخلت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ 1997ء میں صدر سے منتخب پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کو پھر سے صدارتی روپ بخش دیا۔ جمہوری قوتوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر آئین کا پارلیمانی تشخص بحال کیا۔ اس گستاخی کی پاداش میں پیپلز پارٹی کو پانچ تک چین کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ مسلم لیگ (نواز)کا قصور یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کی صورت میں یہ جماعت اٹھارہویں آئینی ترمیم کو سیاسی بنیادیں فراہم کرنے میں شریک رہی ہے۔
معروف معنوں میں جمہوریت وفاقی یا وحدانی بندوبست سے مشروط نہیں ہے۔ لیکن ہمارے تاریخی تناظر میں صوبے محض انتظامی یونٹ نہیں بلکہ یہاں بسنے والے مختلف لسانی، ثقافتی اور نسلی گروہوں کا نامیاتی سیاسی تشخص ہیں۔ ہمارے صوبے ریاست کی تشکیلی اکائیاں ہیں۔ اس خطے میں سیاسی عمل کی تاریخ تقسیم بنگال کے قضیے سے شروع ہوتی ہے۔ ہم نے ون یونٹ مسلط کر کے اس قوم کے پندرہ برس ہی ضائع نہیں کیے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی رکھی۔ کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستان میں چار آمریتوں کو شکست دینا اسی لئے ممکن ہو سکا کہ آمریت وفاق کے نازک پیچیدہ اور باہم ناگزیر توازن کی تاب نہیں لا سکتی۔ جمہوریت کی آواز اٹھتی ہی صوبوں سے ہے۔ آمریت پسند حلقوں کو وحدانی طرز حکومت پسند ہے۔ لیکن صوبوں کے اساسی خدوخال میں من مانی تبدیلی کا مطلب ریاست کے مستقبل سے کھلواڑ ہے۔ آمرانہ سوچ کا تیسرا زاویہ سیاسی قیادت کے اختیار کو مقامی بندوبست تک محدود رکھنا ہے۔ یہ بندوبست سو برس پہلے غیر ملکی قبضے کے دوران تو ممکن تھالیکن ایک آزاد قومی ریاست میں شہریوں کو ریاست کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ حاکمیت اعلیٰ عوام کی ملکیت ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے ریاستی اہلکار بھی اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے محض محکومی کی نفسیات کے شناور ہیں، اختیار کی سائنس نہیں سمجھتے۔
عمران خان کوپاکستان میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ جمہوری عمل میں حصہ لینا ان کا اور ان کی جماعت کا بنیادی آئینی حق ہے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ انہیں اپنی سیاست کو ہماری تاریخی روایت سے ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ عوام کے حقوق اور جواب دہ جمہوریت کی خواہش بہت اچھی ہے ۔ اس منزل کی طرف بڑھنے کے لئے دیگر جمہوری قوتوں کو سرے سے رد کر دینا ضروری نہیں۔ جمہوری قوتوں کی بجائے آمریت کے شعبدہ گروں کو رد کرنا چاہئے۔ آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جمہوری مفاہمت اختیار کرنا آمریت کے ہوا خواہوں کے ہاتھ میں کھیلنے سے کہیں زیادہ قابل احترام راستہ ہے۔
تازہ ترین