• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے سیاسی رہنمائوں نے تو کڑوی کسیلی زبان استعمال کرنے کو وطیرہ توبنا ہی لیا ہے ، ٹی وی شوز ہوں یا سیاسی اجتماع، پارلیمنٹ ہاؤس ہو یا میڈیا ٹاک، ہم منہ سے جملے نکالنے کی بجائے چھریاں، تیر، خنجر اور برچھیاں نکال رہے ہوتے ہیں، اور ان کی بوچھاڑ آنکھیں بند کرکے کررہے ہوتے ہیں، لیکن یہ صورتحال محض سیاسی لیڈروں تک محدود نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے میں شاید ایسی ہی گفتگو کرنے کا رواج پڑ گیا ہے ، آپ کے شہروں کے اندر آجارہے ہوں، سڑکوں پر سفر کررہے ہوں، پارکس میں بچوں کے ساتھ گھوم رہے ہوں یا پارکنگ میں گاڑی کھڑی کررہے ہوں آپ کو ہر جگہ لوگ توں تکرار کرتے نظر آئینگے، لائن بنا کر اپنی باری کا انتظار کرنے کا کلچر تو ہم میں ہے ہی نہیں ہر جگہ دائو لگانے کیلئے تاک میں رہتے ہیں، اور یہی وجہ ہے ہم افریقہ کے جنگلوں کے بھوکے جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر غرارہے ہوتے ہیں، ’’پہلے میں اور پہلے مجھے‘‘ کی ہوس نے اخلاقیات کو تہس نہس کرکے رکھ چھوڑا ہے ، قربانی اور ایثار کا جذبہ جو ہمارے دین نے بھی ہمیں قدم قدم پر سکھایا ہے اب ہم سے کوسوں دور نظر آتا ہے، ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ کچھ روز پہلے انکا ڈر ائیور سوزوکی وین میں جارہا تھا کہ گلی میں دو بچے جو کرکٹ کھیل رہے تھے ان میں سے ایک گاڑی سے ٹکرا گیا ، ڈرائیور بتا تا ہے کہ’’ میں گاڑی سے نیچے اترا اور بچے کو سہلانے لگا کہ اس تنگ گلی میں ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے ، اس سے پہلے کہ وہ معاملے کو سمجھتے ،روتے بچے کو دیکھ کر مجھ پر چڑھ دوڑے کہ ایک نے کہاکہ سوزوکی ڈبے والے ہی بچے کو اغواء کرتے ہیں اور یہ ان کا طریقہ کارہے بس پھر کیا تھا دو نوجوان لڑکوں نے مجھے بازئوں سے پکڑ لیا اور مجھے دھکیلتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگا لیا ، اس سے پہلے کہ وہ میری درگت بنانا شروع کرتے انہوںنے میری گاڑی پر زور آزمائی شرو ع کردی ، میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا مجھے پکڑنے والے ایک لڑکے نے میرے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور میری قمیض کو تار تار کردیا مجھے بالوں سے پکڑ لیاجس کے بعد میرا حلیہ واقعی کسی بچے اغواء کرنے والے بردہ فروش کا لگنے لگاتھا، اس سے پہلے کہ بپھرے ہوئے لوگ لاتوں، گھونسوں، اور ٹھڈوں سے اپنے فن کا اظہار کرتے کہ اچانک جن صاحب کے گھر مجھے امانتاً آم کی پیٹی پہنچانی تھی وہ نکل آئے اور انہوںنے چیختے ہوئے لوگوں کو منع کیا اور بیچ بچائو کرانے لگے کہ وہ دو لڑکے جنہوںنے مجھے پکڑا ہوا تھا ان سمیت ایک دو دوسرے اشخاص بھی جو وہاں موقع پر موجود ہی نہیں تھے کہنے لگے ہم نے اسے خود بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اغواء کرتے ہوئے دیکھا ہے ، ان صاحب کے آ جانے سے مجھے جو حوصلہ ہوا تھا میں نے بھی باقاعدہ چیخنا شروع کردیا اور یوں میری قسموں اور چیخ و پکار سے آہستہ آہستہ لوگ تتر بتر ہونا شروع ہوگئے ‘‘ اور یہ وہ مناظر ہیں جو اب آئے روز ہم ٹی وی ا سکرینوں پر دیکھتے ہیں کہ ذرا سا کسی کا حلیہ مشکوک دیکھا اور اس نے بھلے گلی یا محلے سے گزرتے ہوئے پیار سے بھی کسی بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو ہم اسے اغواء کار قرار دے کر وہیں عدالت لگالیتے ہیں اور پھر ایسی ٹھکائی کرتے ہیں کہ چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اور جب تک متاثرہ انسان اپنی صفائی میں چند الفاظ کہے یا قانون نافذ کرنے والے لوگ جنہیں ہم ’’پُلس‘‘ کہتے ہیں وہ پہنچے ناک، منہ اور کانوں سے خون بہہ نکلتا ہے ، یہ نفرت، یہ غصہ، یہ شدت ہمارے معاشرے میں درکرآئی ہے، چلیں ہم تھوڑی دیر کیلئے یہ مان لیتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے لوگوں کے لخت جگر اغواء ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصے کی لہر آئی ہوئی ہے اور ہر وقت اسی خدشے میں گھومتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کے لخت جگر کو اغواء کرکے اس سے جدا نہ کردے، جس کے ردعمل کے طور پر لوگ اس شدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی آپ دیکھیں تو چھوٹے چھوٹے واقعات، چھوٹی چھوٹی رنجشیں، چاہیے وہ دوستوں کے درمیان ہوں یا رشتہ داروں کے مابین فائرنگ تو معمولی واقعات کا نام بن گئی ہے ، توں تکار اور گالم گلوچ سے شروع ہونے والی تکرار فائرنگ اور پھر قتل و غارت کا باعث بن رہی ہیں، معمولی اختلافات ، جھگڑوں یا شک کی بنا پر بنت حوا کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ دیاجاتا ہے ، معصوم بچوں کو مار کر نہر برد کردیا جاتا ہے یا کھیتوں میں دبا دیا جاتا ہے اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بڑے بڑے مذہبی رہنما جو ہمارے لئے رول ماڈل ہونے چاہیں اگر ان کی مرضی کے خلاف کوئی قانون بن جائے یا کوئی بات ہوجائے وہ بڑے بڑے سیاسی اجتماعوں میں ایسی تقاریر کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے، وہ قانون کے نفاذ کے خلاف کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں، جنہیں قوم کو یہ درس دینا ہے کہ صبراور مذاکرات سے مسائل حل کرنے ہیں وہ بھی منہ سے بیانات کے تیروں کی برسات بر سا نے میں لگے ہوئے ہیں ۔اس صو رتحا ل کو تبد یل کر نے میں میڈیا ، تعلیمی اداروں ، مساجد کے ممبر کو پہلے اور پھر حکومت اور دیگر اداروں کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ہم خود ہی ایک دوسرے کے دست و گریباں ہوکر دشمن کا کام کرتے رہیں گے۔


.
تازہ ترین