12 اکتوبر 1999ء ایک چمکتا ہوا دن تھا۔ موسم گرما رخصت ہورہا تھا اور فضا میں تبدیلی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔ بالائی علاقوں میں سرد ہواؤں کا آغاز ہو چکا تھا اور پنجاب کے بالائی اور مرکزی علاقے بھی خنک ہوگئے تھے۔ تاہم دوپہر کے وقت ہلکی سی حدت برقرار تھی۔ جنوبی پنجاب میں موسم گرم تھا مگر لوگ اس گرمی میں بھی خوش تھے۔ کیونکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ایک مظلوم خاتون کی پکار پر شجاع آباد تشریف لارہے تھے۔ نوازشریف نے زیادتی کا شکار ہو نے والی خاتون کی داد رسی کی اور غفلت کے مرتکب افسران کا احتساب کیا اور جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔ مظلوم خاندان نوازشریف کی درازی عمر اور صحت کی دعائیں مانگ رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے دارلحکومت سے متصل شہر میں ایک خوفناک سازش کے تانے بانے بنے جارہے تھے جنہوں نے چند ہی لمحوں بعد تاریخ پاکستان پر گہرے اور دورس اثرات مرتب کرنا تھے۔
سورج نصف النہار پر تھا اور نوازشریف جلسہ عام میں گرج رہے تھے اچانک اُن کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ یہ ایک پُر اسرارفون تھا جس کا پیغام نوازشریف تک فوراً پہنچادیا گیا۔ نوازشریف نے احسن انداز میں اپنا خطاب سمیٹا اور کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ اُس فون نے ہرشے کو تہہ و بالا کردیا تھا۔ کسی مقبول سیاستدان کیلئے جلسے کو اچانک سمیٹ کر تقریر ختم کرنا دشوار ہوتا ہے لیکن یہ کام بھی ہوگیا اور نوازشریف فوری طور پر شجاع آباد سے بذریعہ کار ملتان اور پھر اسلام آباد پہنچ گئے۔نوازشریف وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور جمہوری حکومت کے خلاف سازش اور بغاوت کی بنیاد پر جنرل مشرف کی برطرفی کے احکامات جاری کرکے جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا چیف اور آرمی اسٹاف مقررکردیا اور انہیں جی ایچ کیو جا کراپنا چارج لینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے مخصوص دفتر میں سعید مہدی سے محو گفتگو ہوگئے۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ کافی کا کپ بھی منگوالیا تھا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی تبدیلی کے احکامات جاری کرنے کے باوجود وزیراعظم ہاؤس میں خوف کی فضا تھی۔ نوازشریف نے گمبھیر خاموشی میں کافی کا پہلا گھونٹ ہی لیا تھا کہ جنرل محمود، جنرل احسان اور جنرل علی جان اورکزئی بیس پچیس مسلح فوجی جوانوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اُن کے ساتھ چند فوجی افسر بھی تھے وہ سب باوردی تھے افسروں کے کاندھوں پر چاند اور ستارے تو ضرور چمک رہے تھے لیکن اُن کی یونٹ اور شناخت کے تمام نشانات غائب تھے۔ وہ سب جی تھری اور اے۔ کے 47، کلاشنکوف رائفلوں سے مسلح تھے انہوں نے آتے ہی آداب و اطوارکو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بندوقیں منتخب وزیراعظم نوازشریف کی طرف تان دیں۔
جنرل محمود آگے بڑھے اور نہایت غیر مہذب لہجے میں کہا: ’’ آپ کو جنرل مشرف سے بات کرنا ہوگی آپ باہرچلیں اور میرے موبائل فون سے بات کریں۔‘‘ اسی دوران جنرل محمود کے موبائل کی گھنٹی بجی دوسری طرف کون تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن جنرل محمود فون سنتے ہی مستعد ہوگئے اور کہا every thing is ok-sir۔
میاں محمد نوازشریف کو جنرل مشرف سے ملاقات کے بہانے فوجی گاڑی میں بٹھا کر ایک سیف ہاؤس میں لیجایا گیا۔ میاں صاحب نے دورانِ جلاوطنی مکہ اورمدینہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران مجھے بتایا کہ جنرل محمود نے مجھے استعفیٰ دینے پر اصرار کیا۔ کاغذات پر درج مضمون دیکھ کر میں شدید رنج اور غصے میں آگیا لیکن جذبات پر قابو پاتے ہوئے جنرل محمود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا یہ سب کچھ میں نے تو آپ کو لکھوایا نہیں اور نہ ہی کہا تھا پھر آپ نے یہ کس کی اجازت سے تحریر کیا۔ جنرل محمود یہ سن کر خاموش ہوگئے اور دوبارہ کاغذات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:’’ آپ کو اِن کاغذات پر دستخط کرنا ہوں گے اسی میں آپ کی بہتری ہے۔ میں نے انکارکردیا اس بحث و تمحیص میں کئی گھنٹے گزرگئے۔ بالآخر جنرل محمود میری طرف جُھکے اوراستعفیٰ دینے پر اصرار کیا۔ میں نے کاغذ پرے ہٹاتے ہوئے کہ :Over My Dead Body ،،میرا یہ جواب سن کر جنرل محمود اُٹھ کھڑے ہوئے اور کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا اور مجھے گھورتے ہوئے دیکھا اور کہا:’’ آپ شاید اس حکم عدولی کے انجام سے آگاہ نہیں ہیں۔ ماضی میں ایک وزیراعظم کو ایسے ہی انکار پر دنیا سے رخصت ہونا پڑا،،۔یہ سن کر میاں نوازشریف مسکرائے اور کہا کہ’’ میں تیار ہوں ‘‘۔
12 اکتو بر 99ء ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ پندرہ سال پہلے والے اور آج کے بارہ اکتوبر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گو کہ آمرانہ سوچ کے حامی آج بھی جمہوریت کو کسی طوربرداشت کرنے پرتیار دکھائی نہیں دیتے۔ بقول نواز شریف پاکستان کے دشمن اس عظیم ملک کو نیوکلیئر طاقت بننے کے بعد معاشی طاقت بننے سے روکنے کیلئے سر گرم عمل ہیں۔ آج بھی حرص و ہوس، ذات اور اَنا کے حصار میں قید عناصرجمہوریت کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ سازش کے تمام دَر بند ہوچکے ہیں۔ ملک کی تمام جمہوری قوتیں اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متحد اور متفق ہو چکی ہیں۔ فوج اور اس کا سپہ سالار آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں۔
آج پھر12 اکتوبر ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف آج قید میں نہیں آزاد ہیں اور اپنے تمام دکھ درد اورغم بھول کر ملکی ترقی کے لئے میدان عمل میں ہیں اور جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کے جری جوانوں کے ساتھ مل کر دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف نعرہ زن ہیں۔ پاکستان زندہ باد!