• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ کی صبح بہت عرصے کے بعد جب میں آج کے صوفی ،درویش اور استادوں کے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنے گھر سے نکلا تو ملاقات کے علاوہ مقصد ایک ہی تھا کہ معلوم کروں کہ 7سالوں سے عمران خان کی سیاسی ،اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے والے پروفیسر صاحب اپنے لاڈلے کپتان سے اچانک ناراض کیوں ہوگئے ہیں ۔ دوماہ پہلے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا کیونکہ 13اور 14اگست کی درمیانی رات کو جب آزادی مارچ کے زمان پارک سے نکلنے سے چند گھنٹے پہلے یہ اطلاعات آنے لگیں کہ پنجاب حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ، کچھ گڑ بڑ ہوسکتی ہے یا کوئی بڑی شرارت ہوسکتی ہے تو یہ پروفیسر احمد رفیق اختر اور ان کے ایک سنیئر صحافی دوست ہی تھے کہ جنہوں نے سابق آرمی چیف جنرل کیانی کو مدد کیلئے کہا۔ جنرل کیانی نے شہباز شریف سے بات کی اور یوں 14اگست کو آزادی مارچ پر امن طریقے سے لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔ پھر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب چند ہفتے قبل آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکاء آبپارہ کے اردگرد دھرنا دیئے بیٹھے تھے ۔عمران خان روزانہ نواز شریف سے استفعے کا مطالبہ کئے جار ہے تھے اور حکومت پر دن بدن بڑھتے دباؤ کی وجہ سے بہت سوں کا خیال تھا کہ شاید وزیراعظم مستعفی ہوہی جائیں۔ انہی دنوں کی ایک دوپہر کو میں نے پروفیسر احمد رفیق اختر سے ٹیلی فون پر پوچھا کہ کیا میاں نواز شریف استعفیٰ دیدیں گے ؟ تب پہلی بار مجھے معلوم پڑا کہ پروفیسر صاحب اور کپتان میں سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا کیونکہ اُس دن کپتان کے اس مطالبے کو احمقانہ اور بچکانہ قراد دے کر پروفیسر صاحب نے یہ قصہ سنایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’گرمیوں کی ایک شام خلیل ملک مرحوم اٹک جیل میں قید میاں نواز شریف کا پیغام لے کر میرے پاس آئے ۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ مجھے کھانے میں زہر دے کر مار دیا جائے گا ۔ لہٰذا میرے لئے دعا کریں اور مجھے پڑھنے کیلئے کچھ دیں ۔ میں نے میاں صاحب کوپڑھنے کیلئے کچھ تسبیحات بجھوا دیں ۔ کچھ عرصہ بعد جلا وطن ہوجانے والے میاں نواز شریف کا جدہ سے فون آیا کہنے لگے ’’پروفیسر صاحب اللہ کے فضل وکرم کے بعد میں آپ کے دیئے ہوئے ذکر کی وجہ سے بچ گیا ‘‘۔
یہ واقعہ سنا کر پروفیسر صاحب نے کہا کہ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں اور نواز شریف سے متعلق جتنا میراعلم ہے بلاشبہ میاں صاحب کی ٹیم ہمیشہ نالائق ترین لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے وہ ہر فیصلہ کرنے میں دیر لگا دیتے ہیں اور بہت سارے معاملات میں وہ واقعی کمزور ہیں مگر استعفٰی نہ دینے کے حوالے سے وہ بہت دلیرہیں وہ کبھی استعفٰیٰ نہیں دیں گے۔ پھر ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے پروفیسر صاحب کے یہ خیالات بھی میرے لئے کسی انکشاف سے کم نہ تھے کہ ’’ہر اگلے لمحے اپنی پچھلی بات سے مکرنے،ہر اندازے سے زیادہ چالاک اور خود کو پاکستان کے امام خمینی سمجھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے سب لوگ ایک سحر میں جکڑے ہوئے برین واشڈ ہیں اور ان کی ایک عرصے سے برین واشنگ ہورہی تھی۔ ان کے مارچ اور دھرنے کا مقصد پاکستانی اداروں کو آپس میں لڑا کر یہاں عراق،شام اور لیبیا جیسی صورتحال پیدا کرنا تھی ۔ مگر یہ ناکام ہوئے کیونکہ ہماری فوج مضبوط ہے اور جہاں فوج مضبوط ہوتی ہے وہاں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر بقول پروفیسر صاحب اس سازش میں یہود ،ہنود ،ایک مذہبی جماعت سمیت عالمی ایجنسیاں براہ راست ملوث تھیں ۔‘‘
میرا دماغ نجانے ابھی اور کہاں کہاں بھٹکتا اگر گھنٹہ بھر کی ڈرائیوکے بعد میں پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ پر نہ پہنچ چکا ہوتا ۔ سامان اور انسان کے بغیر خالی پڑے گراؤنڈ فلور کی سیڑھیاں چڑھ کر جب میں پروفیسر صاحب کے بیڈ روم ،ڈرائنگ روم اور اسٹڈی روم (تھری ان ون) کمرے میں پہنچا تو باہر دن کے 11بجے جس زرد صبح ایک گرم دوپہرمیں ڈھل رہی تھی جبکہ کمرے کے اندر ٹھنڈک ایسی تھی کہ سردیوں کا گمان ہورہا تھا تازہ تازہ ائیر کنڈیشنر بند کر کے آدھے لحاف کے اندر اور آدھے باہر پروفیسر صاحب لیٹے لیٹے مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میں ان کے سامنے پڑی پلاسٹک کی کرسی پربیٹھ گیا ۔ کپتان سے کیا غلطی ہوگئی کہ آپ نہ صرف ناراض ہیں بلکہ اب آپ اُنہیں مِل ہی نہیں رہے؟ علیک سلیک ،حال احوال اور چند رسمی جملوں کے بعد میں نے اپنا اصل موضوع چھیڑا ۔ پروفیسر صاحب پہلے مسکرائے ،سگریٹ سلگایا اور پھر بولے:ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بے شک انسان جلد باز ہے ‘‘امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’آخری چیز جو انسان سے نکلتی ہے وہ حبّ جاہ ہے‘‘عمران بھولا ہے۔اتنا بھولا کہ اپنے بیٹوں کو ملتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ اگلی مرتبہ تم اپنے والد وزیراعظم عمران خان سے مِلو گے۔ آزادی مارچ سے چند گھنٹے پہلے تک مجھ سے پوچھتا رہاکہ کیا 40ہزار لوگ لاہور سے نکل آئیں گے ۔ میں ہر بار کہتا پورا لاہور نکلے گا وہ راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔ کہتا ہے 63سال کا ہوگیا ہوں کہیں کچھ کرنے سے پہلے مر ہی نہ جاؤں ۔ مگر وہ جتنا سیدھا ہے اُس سے زیادہ جلد باز ہے اور حبّ جاہ میں جکڑا ہوا۔ اپنی جلد بازی کی وجہ سے وہ آج بندگلی میں ہے ۔7سال پہلے جب وہ پہلی بار میرے پاس آیا تو رات 8بجے سے صبح 4بجے تک بیٹھا سوال کرتا رہا،جواب سنتا رہا۔ میں خوش تھا کہ اچھا شاگرد مل گیا اسے تیار کروں گا تو ملک کا بھلا ہوگا ۔ مگر میں غلطی پر تھا، لگتا ہے کہ میری محنت رائیگاں چلی گئی ہے ۔
کپتان اور تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ چائے کے ساتھ سگریٹ پیتے پروفیسر صاحب سے میں نے اگلا سوال کیا تو نیا سگریٹ سلگا کر بولے! عمران خان بہت خود پسند ہے اور خود پسندی وہاں ہوتی ہے جہاں عقل کم ہو ۔ اس نے اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھا وہ اپنی باتوں سے مکر گیا ہے اور وہ اپنے مشن سے پھرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُس کے دوست ،خیرخواہ اور ضمانتی سب شرمندہ ہیں ۔ ہاں اگر آج بھی اسے عقل آجائے اور وہ دل بڑا کرکے اپنی غلطیاں تسلیم کرلے تو اُس کا مستقبل ہے ۔ یہ تو الیکڑانک میڈیا کی آپس میں لڑائی کی وجہ سے دھرنے اتنے عرصے تک چل گئے ورنہ تو بہت پہلے کے ختم ہو چکے ہوتےاور پھر مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ عمران کیسا لیڈر ہے جو کہتا ہے کہ عوامی پریشر کی وجہ سے میں یہ سب کچھ کر بیٹھاہوں ،فلاں پریشر کی وجہ سے وہ کررہا ہوں یا فلاں پریشر کی وجہ سے مجھے وہ کرنا پڑا۔ بھائی لیڈر شپ کے فیصلے ہر پریشر سے بالاہوتے ہیں ۔ بہت پہلے میں نے عمران خان کو قائداعظم کا یہ واقعہ سنایا تھا۔ آج تمہیں سنا رہاہوں ،خود فیصلہ کرو کہ لیڈر شپ کو کیسا ہونا چاہئے ۔’’تقسیم ہندوستان سے پہلے کی بات ہے۔ جلسہ ہو رہا ہوتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح مہمان خصوصی ہیں ۔ قائد اعظم تقریرکرنے آتے ہیں ۔ایک بہت بڑا ہجوم نعرہ زن قائداعظم زندہ بار کے نعرے۔ قائداعظم کہتے ہیں خاموش ہو جائیے مگر لوگ مسلسل نعرہ زن ہیں ۔ چند لمحوں بعد قائد دوبارہ کہتے ہیں خاموش ہو جائیے ، لیکن پھر بھی جب نعرے نہیں رکتے تو قائداعظم اسٹیج سے اتر کر گاڑی میں بیٹھ کر واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں‘‘۔ نواز حکومت کے مستقبل کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟جونہی پروفیسر صاحب خاموش ہوئے تومیں نے اگلا سوال کر دیا۔ یکم مئی 2013کو موجودہ انتخابات سے 10دن پہلے ایوان اقبال لاہور والا میرا لیکچر سن لیں ۔(پروفیسر صاحب نے بولنا شروع کیا ) یہ لیکچر شائع بھی ہوا اور یوٹیوب پر موجود بھی ہے ۔
میں نے انتخابات سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’موجودہ انتخابات میں عمران خان نہیں مسلم لیگ (ن) جیت کر حکومت بنائے گی۔ حکومت کو پہلے دن سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور کچھ عرصہ کے بعد اسے سخت مظاہروں اور احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مگر حکومت ان تمام مشکل مراحل سے تو نکل جائے گی ۔ لیکن اگر حکمرانوں نے ڈلیور نہ کیا تو پھر دو ڈھائی سال کے بعد سب کو گھر جانا پڑے گا اور (عمران خان نہیں ) نئے لوگ آئیں گے جو حقیقی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہ نظام بھی بدل دیں گے ۔ دوستو ! یہ پانچ فیصد ہے اُس سب کا جو پروفیسر صاحب نے بتایا اور جو کچھ انہوں نے سنایا ۔ خواہش تھی کہ سب کچھ لکھ پاتا مگر مجبوری یہ ہے کہ پروفیسر صاحب پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کے قصے تو سناتے رہے ،وہ ہوچکی اور ہونے والی سازشوں سے پردے تو اٹھاتے رہے اور وہ دوست نما دشمنوں کا پتہ تو بتاتے رہے مگر ساتھ ساتھ ہی اپنی گفتگو کو آف دی ریکارڈ کے تڑکے بھی لگاتے رہے ۔ باقی پروفیسر صاحب سے اس بار ملنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ جہالت غربت کا دوسرا نام ہے اور بے خبری میں جہالت ہوتی ہے مگر اس ملاقات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بعض اوقات لاعلمی بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ۔ کاش پروفیسر صاحب یہ سب کچھ نہ بتاتے اور کاش میں یہ سب کچھ نہ سنتا۔ کیونکہ اپنے بڑوں کوکپڑوں کے بنا دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔
تازہ ترین