• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دو تین ماہ کی سیاسی کھینچا تانی کے نتیجے میں ابھی تک یہ کہنا بہت دشوار ہے کہ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا کس کا گراف اوپر گیا اور کس کا گراف نیچے آیا۔ تاہم اس حقیقت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ اس مختصر عرصے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق وزیر خزانہ خیبر پختونخواہ جناب سراج الحق ایک مدبر ،مفکر اور صلح جو قائد کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر سمندر پار پاکستانیوں نے سراج الحق کے مثبت جمہوری طرز عمل کو بہت سراہا ہے۔ جماعت اسلامی روز اوّل سے ایک ایسی سیاسی پارٹی رہی ہے کہ جس کی دیانت وامانت کو جماعت کے دوست ہی نہیں اس کے مخالفین بھی دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کو اپنی سترسالہ تاریخ میں کبھی بھرپور عوامی پذیرائی نہیں ملی یا یوں کہنا چاہیے کہ جماعت کو کبھی واضح انتخابی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی ایک مصلح ،مفکر اور مفسر قرآن تھے۔ 1970کے انتخابات سے پہلے جماعت اسلامی نے ’’شوکت اسلام‘‘ کے نعرے کے ساتھ بڑے بڑے جلوس نکالے اور بعض جلوسوں کی تو خود مولانا مودودی نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود قیادت کی۔
جماعت اسلامی نے مشرق مغربی پاکستان کی بہت سی سیٹوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ جماعت اسلامی کا اس وقت رویہ بڑا رومانوی تھا جو حقیقت سے کوسوں دور تھا۔ جماعت اسلامی مشرقی اور مغربی پاکستان میںملا کر ایک سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے کی قوی امیدلگائے بیٹھی تھی۔ اس موقعے پر جو سیاست دان یا تجزیہ نگار حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے جماعت کو آگاہ کرتے کہ سیٹوں کے بارے میں اُن کا تخمینہ حقیقی نہیںخیالی ہے تو جماعت کے اکابرو کارکنان ایسے ہر تجزیے کو مسترد کر دیتے۔ اُن دنوں مغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب مشتاق گورمانی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ تین چار سیٹیں ملیں گی۔ جب 1970کے انتخابی نتائج سامنے آئے تو یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ جماعت اسلامی کے اندازے غلط ثابت ہوئے اوریہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اسلام کے لئے لوگوں کی وابستگی ودلبستگی الگ چیز ہے جبکہ انتخابی سیاست اس سے بالکل مختلف شے ہے ۔
1970اوراسّی کی دہائی میں میاں طفیل محمد کا دورِ امارت عسکری اور نیم جمہوری حکومتوںسے تعاون کرنے یا نہ کرنے کی کشمکش میںگزرا۔ البتہ 1980سے لے کر 2008تک قاضی حسین احمد کا دورِ امارت رومانویت کا نقطہ عروج تھا۔ قاضی صاحب کبھی عوامی تحریکوں کے ذریعے ،کبھی دھرنوں کے ذریعے اور کبھی جلسے جلوسوں کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے کی تگ ودو کرتے رہے ۔ البتہ 2002میںمتحدہ مجلس عمل کا قیام اور عام انتخابات میں اس کی محیّر العقول کامیابی حقیقت پسندی کا شاہکار تھی۔ تاہم ایک بار پھر قاضی صاحب نے رومانوی رویہ اختیار کرتے ہوئے 2008کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔جہاں تک سیّد منورکا تعلق ہے تو اُن کی دیانت وامانت اور اُن کے تقویٰ کا تو ہر کئی مداح ہے مگر انہوں نے اپنے پانچ سالہ دورِ امارت میں رومانوی رویہ اپنایا اور نہ حقیقت پسندی سے کام لیا۔سیّد صاحب نے کوئی انتخابی پالیسی وضع نہ کی اور جب انتخابات عین سر پر آ گئے تو سیّد صاحب فیصلہ نہ کرپائے کہ جماعت کے پروانے کو زمان پارک جانا ہے یا جاتی عمرہ ۔دھرنوں کے آغاز سے قبل سراج الحق سے رمضان المبارک کے آواخر میں ملاقات ہوئی ۔ عید الفطر کے بعد میں ایک ماہ کے لئے امریکہ چلا گیا اور وہاں سے واپس آیا تو پاکستان کے حالات بہت مختلف تھے ۔
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
گزشتہ شب تقریباً دو ماہ کے بعد جناب سراج الحق سے پھر ملاقات ہوئی تو مجھے یہ دیکھ کر بہت اطمینان ہوا کہ اُن کے افکارو خیالات پہلے سے بڑھ کر واضح ہو گئے ہیں۔ اور اُن کی سوچ اپروچ میں کسی قسم کا ابہام نہیں۔ وہ اپنے امام اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کی طرح تبدیلی کے لئے صرف اور صرف ایک راستے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ راستہ جمہوریت کا راستہ ہے۔سراج الحق 21نومبر کو جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر قوم کو خوشحال پاکستان کا تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے سراج الحق سے پوچھا کہ خوش حال پاکستان کے لئے اُن کا وژن کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہی وژن جو قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا جس کا قائد اعظم تحریک پاکستان کے دوران بار بار تذکرہ کرتے رہے اور پھر جس وژن کی انہوں نے 14دسمبر 1947کو پاکستان مسلم لیگ کونسل کے کراچی اجلاس میں تجدید کی تھی۔ اس اجلاس میں ایک اہم قرار داد پیش کی گئی تھی یہی قرار داد سراج الحق کا وژن بھی ہے اوراُن کا مشن بھی ہے ۔ اس قرار داد کا خلاصہ یہ ہے ’’کونسل اسلامیان پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت کی تعمیر وترقی میں حتی الوسع زیادہ سے زیادہ حصہ لیں تاکہ اسے ایک مثالی جمہوری مملکت کے طور پر دنیا میں باعزت مقام ومرتبہ حاصل ہو سکے اور یہ مملکت اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی آزادی اور عالمی امن کی علمبرداربن سکے جو عسکری اعتبار سے مضبوط اور اخلاقی ومادی دولت سے مالا مال ہو اور جس میں تمام شہری مساوی حقوق سے بہرہ مند ہوں اور جہالت سے مکمل طور پر آزاد ہوں‘‘۔جماعت اسلامی سرمایہ داروں، جاگیرداروں یا فاشسٹوں کی جماعت نہیں یہ بنیادی طور پر عوام کی پارٹی ہے مگر سوچنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پھر جماعت اسلامی ایک مقبول عوامی جماعت کیوں نہ بن سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی اپنی تاریخ کے روز اوّل سے ستاروں پر کمند ڈالنے کے دعوے تو کرتی رہی ہے مگراس کے پائوں کبھی زمین پر مضبوطی سے جمے ہوئے نہیں تھے۔ ترکی ،تیونس ، فلسطین ،مصر اور دیگر کئی ممالک کی اسلامی تحریکوں نے انتخابی کامیابی کیلئے جماعت اسلامی پاکستان سے روشنی مستعارلی مگر روشنی دینے والوں نے اپنے گھر کیلئے کوئی حقیقت پسندانہ دیا بچا کر نہ رکھا کہ جس کی نورانی کرنوں کے ذریعے وہ اپنے لئے کامیابی کا کوئی زینہ یا قرینہ تلاش کرپاتی۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ خیالی دنیائوں میںآسودگی محسوس کی ۔جناب سراج الحق کو جو عوامی پذیرائی ملی ہے اسے مبالغہ انگیز چشمے سے نہیں حقیقت پسندانہ عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے خیال میں سراج الحق کو ماہرین سے مشاورت کرکے ایک حقیقت پسندانہ اور ترقی پسندانہ خوش حالی کا معاشی ماڈل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ نیز انہیں لوگوں کو باعزّت مقام دلانے کیلئے اس ملک کے سیاسی ومعاشی کلچر میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ 20کروڑ کے ملک میں 20ہزار لوگ مالک ومختار بنے ہوئے ہیں اور باقی سب کو وہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ کبھی کوئی وڈیرہ شاہ زیب خان کو کراچی میں گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے اور کبھی کوئی وزیر زادہ 24سالہ جوان رعناملک طاہر کو اپنے گارڈ سے بلا قصور اور بلاجواز گولی مروا کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جناب سراج الحق وڈیروں کی نخوت ودہشت کاشکار ہونے والے ملک طاہر کے گھر گئے اور انہوں نے مقتول کے والدملک تنویرسے اظہار ِ ہمدردی کیا اور اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی جاگیر دار اور وڈیرے کو اس ظلم و زیادتی کی ہر گز اجازت نہ دیں گے اور اسلامی قانون وقصاص کے مطابق ہر کوئی جیسا کرے گا ویسابھرے گا ۔
سرا ج الحق خیالی ورومانوی دنیا سے نکل کرسیاسی دنیا کے حقیقی تقاضے پورے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سراج الحق قائدا عظم محمد علی جناح ،علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے مشترکہ وژن کو لے کر کیسے آگے بڑھتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ نومبر کے آواخر میںاجتماع عام کے موقع پر وہ پاکستانی عوام کو خوش حالی کا ایک زوردار پیغام دیں گے جس سے کوہ وامن ہی نہیں پاکستان کے کوچہ وبازار بھی دمکنے لگیں گے ۔
تازہ ترین