• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بچپن میںایک کہانی پڑھا کرتےتھے کہ جب کوتوال نےایک عا دی چور کوپکڑا تواس نے کوتوال سے ایک درخواست کی کہ اس سے پہلے کہ مجھے کوتوالی میں قید کردیاجائےمیں اپنے ماںسے ملنا چاہتا ہوں کوتوال نے چور کی خواہش کوپورا کرتےہوئے چور کی ماں کو بلایا اورچورکے پاس لے آیا،چور جس کے ہاتھ بندھے ہوئےتھے اس نے اپنی ماںکے کان میں سرگوشی کرنے کی ایک اور خواہش ظاہر کردی،چور کی خواہش پر جب اس کی ماںنےاپنا کان اپنےچوربیٹےکےمنہ کےپاس کیا کہ وہ بیٹے کی سرگوشی سن سکے تواس خاتون کےچوربیٹےنےعجیب حرکت کی اور اپنےدانتوں سے ماں کے کان کو کاٹ ڈالا، بڑی مشکل سے چور کو ماں سے دورہٹایاگیا، اورچورسے اس کی اس حرکت کی وجہ پوچھی گئی تواس نے کہاکہ آج میںجو ایک عا دی چور کی حیثیت سے نہ صرف گرفتار ہوں بلکہ سزا کے طورپر قید کیا جارہا ہوں ، اس کی ساری ذمہ داری میری ماں پر عائد ہوتی ہے،چورسےجب استفسار کیاگیا کہ چوری تم کرتےرہے ہو قصورار اور ذمہ دار تمہاری ماں یہ بات سمجھ نہیں آئی؟چورنے کہاکہ میں نے سب سے پہلی چوری ایک انڈے کی کی تھی اور وہ انڈا لا کر ماں کو دیا تھا لیکن میری ماں نے مجھے ڈانٹنے یا روکنے کی بجائے مجھے کچھ نہیں کہا یوں میری حوصلہ افزائی ہوئی اور اس پہلے انڈے کی چوری کی وجہ سے آج میں نہ صرف ایک پکا چور بن چکا ہوں بلکہ قید میں بھی ڈالا جارہاہوں۔
شاید اس وقت اس کہانی کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آج بھی ہم نے بحیثیت معاشرہ اس کہانی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا حالانکہ بچپن میں یہ کہانی تقریباً سب نے ہی پڑھی یا سنی ہوگی۔
میں گزشتہ روز ایک شاہراہ سے گزر رہا تھا کہ یوٹرن پر غلط سائیڈ سے آنے والا ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار مجھ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا لیکن بریک لگتے ہوئے وہ گر پڑا میں نے گاڑی سائیڈپر لگائی اور اس لڑکے کے قریب گیا لیکن شکر ہے کہ لڑکا چوٹ سے محفوظ تھا ،لڑکا اٹھا ،اس نے کپڑ ے جھا ڑے ، موٹرسائیکل سنبھالی اسٹارٹ کی اور بغیر کسی شرمندگی یا کسی تاثرکے وہ وہی خلاف ورزی کرتےہوئےنکل لیا اور میں دیکھتا رہ گیا، میں جتنی دیر وہاں کھڑا رہا میں نے دیکھا کہ درجنوں موٹرسائیکل سوار شارٹ کٹ کےلیے یہی خلاف ورزی کررہےتھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ قریب ہی ایک ٹریفک پولیس اہلکار کھڑا تھا اور اس نے کسی ایک موٹرسائیکل سوار کو نہ روکا اور اسے معمولی خلاف ورزی سمجھ کر نظر انداز کرتارہا۔ ہمارے معا شرے کا اصل بگا ڑ یہیں سے شرو ع ہو تا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسلام آبادجو ہما را دارالحکومت ہے اور جسے پلانڈ سٹی کہاجاتاہے میں اکثر ایسا ہوا کہ کسی جگہ پر ایک چھوٹاسا جھونپڑا لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ہزاروں نفوس کی کچی آبادی نے جنم لے لیا، اسی طر ح سڑکوں کے کنارے یا فٹ پاتھ پر ایک بندہ تجاوزات قائم کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے گزرنا محال ہوجاتاہے ۔آپ نے یہ مشا ہد ہ بھی کیا ہو گا کہ کوئی شاہراہ ہویا کوئی اہم ادارہ وہاں چند لوگ احتجاجی مظاہرہ کرتےہیں اور پھر وہ احتجاج اور مظاہروں کی آماجگاہ بن جاتی ہے ۔کسی شاہراہ پر کو ئی موٹرسائیکل سو ار ویلنگ کرتے ہیں تو اگلے چند روز میں وہاں موٹرسائیکل سواروں کے غول کے غول ایسے ہی کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں۔
اصل میں بطور معاشرہ ہم میں یہ خرابی ہے کہ کسی بھی غلط عمل یا حرکت کو معمولی یا چھوٹی سمجھ کر نظر انداز کردیتےہیں یا کہہ کر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتےہیں کہ اس جھوٹی سے بات سے کچھ نہیں ہوتا،یا یہ عذر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ اب اس معمولی واقعہ کےلیے ہم وقت اور فورس نہیں لگا سکتے اور پھر وہ معمولی بات ، وہ چھوٹی بات ، وہ چھوٹی سی غلطی ہمیں بڑے حادثات کی شکل میں بھگتنا پڑتی ہے ، چسقے کےلیے سگریٹ کا ایک چھوٹا سا کش ہمیں عادی سگریٹ نوش یا منشیات کا رسیا بنادیتا ہے، ایک چھوٹی سی چوری ہمیں ڈکیت یا کرپشن کا بادشاہ بنادیتی ہے ، آپس میں گفتگو کرتے ہوئے غصے کی ایک معمولی پھنکار جنگ و جدل میں بدل جاتی ہے، ایک منٹ کی تاخیر یا ایک منٹ لیٹ ہونے کی عادت گھنٹوں میں بدل جاتی ہے، ایک معمولی چنگاری آتش فشاں میںتبدیل ہوکر سب کچھ راکھ کردیتی ہے ۔ایک چھو ٹا سا زخم بعض اوقا ت پو رے جسم کو زہر آلو د کر دیتا ہے۔بطور معاشرہ ہم سب چور کی ماں کی بجائے ایک ذمہ دار فرد کا کردار ادا کرکے معاشرے کو بگاڑسے بچاسکتے ہیں۔


.
تازہ ترین