ابھی کل کی بات ہے ایران میں احمدی نژاد صدر تھے ،ان کا جھکائو بھارت کی نسبت پاکستان کی طرف تھا۔ ایرانی آئینی موشگافیوں کے مطابق صدر کی حیثیت محض ثانوی ہے اختیارات کا اصل منبع امام ہے اور اس مسند پرامام خامنہ ای جلوہ گر ہیں ۔ایرانی صدر صرف دو بار الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔اختیارات کے ارتکاز کی وجہ سے ہر ایرانی صدر نے اپنی دوسری ٹرم میں امام سے اختلاف کیا ۔ پہلے صدر بنی صدر اور پہلے وزیر اعظم قطب زادہ کو ایک سال میں ہی ایران چھوڑ کر امریکہ پناہ گزیں ہونا پڑا ۔ احمدی نژاداور امام کے درمیان بھی ٹھنی رہی۔نئے صدر حسن روحانی نے ایرانی سیاست کو تبدیل کر دیا ہے ،اسکا مطلب یہ نہیں وہ با اختیار ہیں ، بالکل ایسا نہیں ،صدراورآیت اللہ العظمی خامنہ ای میں تبدیلی پر ہم آہنگی ہے ۔ حالات و واقعات ،خطے کا سیاسی سیناریو ، بین اقوامی پابندیاںایران کے معاشی اور دیگر اندرونی حالات ،تبدیلی کے متقاضی تھے۔کل تک ایران اور امریکہ دشمن ریاستیں تصور ہو تی تھیں آج داعش کے خلاف مشترکہ جنگ کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے ۔ایران امریکہ سے اس جنگ کے خلاف شامل ہونے کیلئے امریکہ اور یو این او کی پابندیوںمیںنرمی کا تقاضا کر رہا ہے۔ امریکہ کی ڈیمانڈ ہے ایران اپنے 19000سنٹری فیوج تباہ کر دے جبکہ ایران کا مطالبہ ہے اسے نو کلیئر انرجی کیلئے ایک لاکھ نوے ہزار سنٹری فیوج مزید درکار ہیں۔ دونوں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر بات چیت کررہے ہیں۔اسرائیل بدستور امریکہ کو وارننگ دے رہا ہے ایران داعش سے بڑا خطرہ ہے ۔
نو کلیئر کے علاوہ داعش ،امریکی صحافی جیسن ریزان،ایف بی آئی ایجنٹ رابرٹ یونیسن اوردیگر لاپتہ امریکی جو ایران کی قیدمیں ہوسکتے ہیں بھی مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔جیسا میںنے اوپر لکھا ہے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے،صرف ایک سال قبل امریکہ ایران دشمن ملک تصور ہوتے تھے آج مشترکہ دشمن داعش کے خلاف مل کر جنگی پلان بنا رہے ہیں ۔ایک سال قبل ایران معاشی بحران میں مبتلاء تھا ،تیل کی فروخت پر بھی پابندیاں تھیں ۔آج وہی ایران ڈپلومیسی کی دنیا میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ،پابندیاں نرم پڑ رہی ہیں ،تیل کی فروخت بڑھ رہی ہے کرنسی بہتر ہو رہی ہے افراط زر کنٹرول میں آ رہا ہے ،شام کے صدر کے معاملات میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ برطانیہ اور شامی فوج مل کر بم ڈیفیوزنگ کر رہے ہیں۔امریکی مطالبات کم ہو رہے ہیںسرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔پہلے 6ممالک مذاکرات کا حصہ تھے اب صرف امریکہ ایران سےمذاکرات کر رہے ہیں ۔ کچھ مغربی ممالک معترض ہیں ہمیں سائڈ لائن کر دیا گیا ہے مگر امریکہ کا موقف ہے دو طرفہ مذاکرات ایران کا مطالبہ تھا کیونکہ پابندیوں میں بڑا حصہ امریکہ کاتھا البتہ مذاکرات کی پیش رفت سے سب کو بابر رکھا جا رہا ہے ۔ 2009سے شروع ہونے والے خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں 2012میں صدر اوبامہ اور صدر حسن روحانی کے درمیان پہلی 15منٹ کی فون کال ہو ئی ،اب دونوں اطراف سے تواتر سے فون کالز ہو رہی ہیں۔امریکہ کارول بڑھ رہا ہے اور دیگر یورپی ممالک کا سکڑ رہا ہے ۔ یہ کسی معجزے کا اعجاز نہیں ،بھارت کی بیک چینل ڈپلومیسی اور تبدیل ہوتے حالات کا نتیجہ ہے ۔داعش کی پیدائش نے سفر اور آسان کر دیا ۔ایران قریب آ رہا ہے سعودی عرب دور ہٹتا جا رہا ہے ایران مشرقِ وسطیٰ میںشیعہ فرقے کو لیڈکرتا ہے سعودی عرب سنّی اہلحدیث ،سلفی وغیرہ دیگرفرقوں کو۔مشرق وسطیٰ کی لہر نے جہاں صدور کے تخت اکھاڑ دیئے وہاں فرقوں کی نفرت کوبھی ابھارا ہے، باد شاہتیںبھی زیر ارتعاش ہیںاور سہاروں کی تلاش میں ہیں ۔میری ایک فیس بک فرینڈ مصری صحافی جین سمور کی رائے ہے امکان ہے اہم عرب ملک روسی بلاک جوائن کرلےگا ایسی صورت میں غالب امکان ہے مصر بھی صدر ناصر کے دور میں واپس پلٹ جائے،مگر مجھے جین سے اتفاق نہیں ۔بھارت امریکہ رومانس زوروں پر ہے ۔ 80کی دھائی میں پاکستان آنکھ کا تارا تھا اور بھارتی لیڈروں کو واشنگٹن میں کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا ۔آج ہندسے جگہ بدل چکے ہیں پاکستانی وزیر اعظم سے بے اعتنائی برتی گئی ،بھارتی وزیر اعظم کی ناز برداریاں اٹھائی گئیں۔سول نوکلیئر ٹیکنالوجی اوراقوام متحدہ کا مستقل رکن بنانے کیلئے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔سربراہانِ مملکت کی ملاقاتوں کا تانتا بندھا ہے سرمایہ کار ہاتھوں میں ہاتھ لئے کھڑے ہیں ۔
وائٹ ہائوس کے اس مہمان خصوصی سے اوبامہ دوبار ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔وائٹ ہائوس میں مودی کے اعزاز میں ڈنر دیا گیا ۔مودی سادہ سے لباس میں ڈائننگ ٹیبل پر پہنچے اور کھانے سے معذرت کی کہ وہ بھرت سے ہیں ،صرف گرم پانی پیئیں گے ۔انکی چستی اور انرجی سے صدر اوبامہ بہت متاثر ہوئے اور یوگا سیکھنے کی خواہش کی۔بھارت ایک عرصہ سے زرعی ،صنعتی ترقی کیلئے انفرا اسٹرکچر تعمیر کر رہا تھا جسکے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔1974ءسے بھارت ایٹمی ٹیسٹ کی وجہ سے امریکی پابندیوں اور پروپیگنڈے کا شکار تھابوجوہ بھارت کا امیج ایک ہارڈ لائنر ملک کا تھا مگر 1994 میں جب ایشوریا رائے مس ورلڈاورسشمیتا سین مس یونیورس انائونس ہوئیں توبھارت لائم لائٹ میں آ گیا اور دنیا کے سامنے بھارت کا سافٹ امیج ابھرا۔بھارتی فلم انڈسٹری نے زر مبادلہ کا سورس بننے اور سافٹ امیج کو بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کیا ۔1990سے اب تک بھارت میں روزا نہ سینکڑوںچھوٹی بڑی انڈسٹریزکا افتتاح ہو تا آرہا ہے ۔موٹروے نہیں سستی ہائی ویز کا جال بچھا دیا گیاہے ۔تعلیم کو ترجیح حاصل ہے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اربوں ڈالر سالانہ بھارت کما رہا ہے ۔سلیکان ویلی پر بھارت کا قبضہ ہے ۔ جی 20کا ممبر ہے یعنی قرض لینے کی بجائے قرض دینے والا ملک بن چکاہے ۔حال ہی میں ساڑھے سات ارب روپے میں بھارتی خلائی جہاز منگلیان مریخ پر سستی ترین کامیابی حاصل کر کے گلوبل سپیس انڈسٹری کو حیرت زدہ کر چکا ہے ۔لکھنے کامطلب ہے بھارت پاکستان کی طرح ہاتھ میںکشکول تھامے دوست تلاش کرنے نہیں نکلا ،اس کے پاس دینے اور لینے کیلئے بہت کچھ ہے ۔قارئین یہ بھی سچ ہے امریکہ کسی کا دوست نہیں وہ صرف اپنے مفاد کا دوست ہے ،بھارت کی ناز برداریاں یونہی نہیںاٹھائی جا رہیں۔افغانستان کا جنگی گڑھا جہاں سے خود امریکہ بھاگ رہا ہے وہاں کمانڈ بھارت کے حوالے کیجا رہی ہے ۔امریکہ بھارت میں ملٹی نیشلزسے 267ارب ڈالرز کی خطیر رقم کاروبار، انڈسٹری کے نام پر بھارت میںپمپ کر وا چکاہے ۔افغانستان میں جنگی اور فوجیوں کی تنخواہوں کیلئے 8ارب ڈالرز سالانہ درکار ہیں ۔امریکہ چاہتا ہے افغانستان کو ڈالرز دینے والا ہاتھ تو امریکہ کا نظر آئے مگر جیب بھارت کی ہو ۔بھارت بھی افغانستان میں کمان کیلئے پُر جوش ہے ۔پاکستان کو ہر طرف سے گھیرنے کی خواہش ۔افغانستان پر حکمران بن کر 1000سالہ غلامی کی تاریخ کو بدلنے کی خواہش بھارت کیلئے incentivesہو سکتے ہیں۔ایران بھارت رومانس زوروںپر ہے ۔ ایرانی بندرگاہ چاہ بہارکی بھارت BOT کی بنیاد پر 100ملین ڈالرز سے توسیع کر رہا ہے ۔چاہ بہار سے ایران کے راستے کابل تک سڑک کی تعمیر کاپلان ہے جس سے فوجی کانوائے اور تجارتی قافلوں کی آمدو رفت کیلئے پاکستان پر انحصار ختم ہو جائیگا،لینڈ لاکڈ کا تالہ کھل جائیگا اورپاکستان کی چابی بیکار ہو جائیگی ۔افغانستان ، ایران اور کاکیشیئن ریاستوں کی مارکیٹوں میں بھارتی مصنوعات کا پھیلائوبھارت کے پیشِ نظر ہے ۔اسوقت داعش القائدہ اور طالبان تین جنگی حریف ہیں ،تینوں شیعہ دشمن ہیں، ایران شیعہ فرقے کی نمائندگی کرتا ہے لہذا ایران کا امریکہ بھارت پلان میں شامل ہونا مجبوری ہے۔ممکن ہے ایران کا پلان ہو وہ پاکستان کی طرح جنگ کا حصہ بن کر اپنے ایٹمی پلان کی تکمیل کر لے گا مگر میں ایران سے متفق نہیں۔ مغرب کو ایک ہی سوراخ سے دوسری بار دھوکہ نہیں دیاجا سکتا ۔میری رائے ہے یہ ایران کا استعمال ہے ۔استعمال کے بعد ایران کی مذہبی حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے ۔جو قلعہ باہر سے فتح نہیںہوا اس کا دروازہ اندر گھس کر کھولنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔اگر ایسا ہوگیاتو دنیا ایران سے وہی سوال کریگی جو آج پاکستان سے کیاجا رہا ہے، کیا کھویا ،کیا پایا ۔