والد (آصف علی زرداری )اوربیٹا (بلاول بھٹو زرداری) پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے بھرپور انداز میں میدان میں کود پڑے ہیں وہ چاہئے اپنے مشن میں کچھ کامیاب ہوں یا ناکام سہرا انہی کے سر پر ہو گا ۔ باقی ساری پی پی پی ایک عضو معطل ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ صرف اپنے سربراہوں کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں اور انہوں نے اپنا کوئی مؤثر تنظیمی ڈھانچہ نہیں بنایا ہے۔ایسے ہی نون لیگ کے کرتا دھرتا وزیراعظم نوازشریف ہیں۔ بالکل اسی طرح عمران خان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کا نام ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)ان سے مختلف نہیں ہے اور باوجود2دہائیوں سے زیادہ پاکستان سے باہر ہونے کے الطاف حسین ہی اس جماعت کا نام ہے۔ایسے ہی حالات عوامی نیشنل پارٹی میں ہیں ۔ تاہم جماعت اسلامی ان سب سے مختلف ہے جس کے پاس اعلیٰ تنظیمی سیٹ اپ موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تو بڑے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں مگر ان کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
اپنے بھر پور سیاسی کیرئیر کے آغاز میں بلاول نے کچھ چوکے چھکے لگائے ہیں اورانہوں نے سخت الفاظ میں نون لیگ ٗ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیاہے انہوں نے خاص طور پر پی ٹی آئی اور نون لیگ کے سربراہوں کو یہ طعنہ دیا ہے کہ انہوں نے جمہوریت میں اس طرح کی قربانیاں نہیں دیں جیسے پیپلزپارٹی نے دی ہیں۔ یہ بات ان کی بالکل صحیح ہے ۔ پیپلزپارٹی کی قربانیاں دینے کی تاریخ بہت درخشاں ہے ۔مگران قربانیوں کے ساتھ ساتھ کارکردگی کا بھی ذکر ضروری ہے جو کہ اس کی گزشتہ حکومت کے دوران انتہائی ناقص اور ناکارہ تھی۔ اسی کارکردگی کا خمیازہ اسے 2013کے عام انتخابات میں بھگتنا پڑا اوراب بھی یہی اس کا پیچھا کر رہی ہے ۔ بلاول کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنے والد گرامی کی حکومت کے نامہ اعمال کو کس طرح مٹا کر لوگوں کو یقین دلائیں کہ وہ بطور وزیراعظم ان سے بالکل مختلف ہوں گے۔ یوں لگ رہا ہے کہ جو کچھ بلاول ابھی کہہ رہے ہیں ان کی آئندہ پالیسیوں پر بھی چھاپ آصف علی زرداری کے خیالات اور حکمت عملی کی ہی ہوگی لہٰذا نوجوان رہنما کو جس نے سیاسی زندگی میں ابھی قدم رکھا ہے اور بہت سی بہاریں دیکھنی ہیں کو اپنے والد کی’’سیاسی وراثت ‘‘سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جب وہ مکمل طور پر سیاسی میدان میں متحرک ہوجائیں تو آصف زرداری کو کافی حد تک بیک گرائونڈ میں رکھیں ۔پی پی پی کا چہرہ اب بلاول ہونا چاہئے نہ کہ آصف زرداری ۔
بلاول کا سب سے بڑا ٹیسٹ یہ ہے کہ وہ کس طرح پنجاب پی پی پی میں جان ڈالتے ہیں جو کہ ایک عرصہ سے غیرفعال ہے۔ اس صوبے میں گزشتہ کئی سالوں میں پی پی پی نے بڑے تجربے کئے ہیں اورمختلف لوگوں کو صدربنایا ہے مگر ہرکوئی بری طرح ناکام رہااور پارٹی جان نہیں پکڑ سکی۔رہی سہی کسر2013کے عام انتخابات نے نکال دی جس میں اس کا اکثریتی ووٹ پی ٹی آئی لے اڑی اور اس نے پیپلزپارٹی کی کمر توڑ دی ۔بلاول کو اب یہ ووٹ واپس لانا ہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ اس میں کسی حد تک کامیاب ہوجائیں کیونکہ ابھی بھی مزدوراور کسان پی ٹی آئی کے زیادہ نزدیک نہیں ہیں اور زیادہ تر شہری علاقوں کے لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں۔آصف زرداری کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے لہٰذا اسی لئے انہوں نے کہاہے کہ مزدوراورکسان ان کی پارٹی کے ساتھ ہیں۔ اپنے تئیں پی ٹی آئی نے نون لیگ کے ساتھ ساتھ پی پی پی کو بھی سخت انداز میں ٹارگٹ کیا ہوا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ اس کا ووٹ بنک جو وہ پہلے حاصل کر چکی ہے اسی طرح موجود رہے بلکہ پی پی پی کو رہے سہے ووٹوں سے بھی محروم کیا جاسکے اورنون لیگ کو بھی نقصان پہنچایا جاسکے۔ اب پی ٹی آئی کا نشانہ سندھ میں پی پی پی ہے اور خاص طور پر وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جن کے اس صوبے میں کافی مرید ہیں سرگرم ہیں تاکہ کچھ وڈیروں کو بھی ساتھ ملاکر پی پی پی سندھ میں شگاف ڈالا جائے۔تاہم عام خیال یہی ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوںگے اور اب بھی پی پی پی کا اس صوبے پر قبضہ ہے ۔باوجود اس کے کہ گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی ہر جگہ پٹی مگر پھر بھی وہ سندھ میں کامیاب ہوئی ۔
بلاول کی سب سے زیادہ سخت تنقید الطاف حسین کے حصے میں آئی جس میں انہوں نے ’’نامعلوم افراد ‘‘ کی کراچی میں کارستانیوں کا ذکر بھی کیا۔الطاف حسین اکثر و بیشتر اپنے مخصوص انداز میں پی پی پی ٗ ن لیگ اور پی ٹی آئی پر بھر پور حملے کرتے رہتے ہیں جن کا جواب کبھی یہ جماعتیں دے دیتی ہیں اور کبھی نظر انداز کر دیتی ہیں۔ خصوصاً آصف زرداری ان بلند آہنگ بیانات کا جواب نہیں دیتے تاہم بلاول کبھی کبھار بڑے سخت انداز میں اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ویسے بھی آصف زرداری ایسی بیان بازی سے گریز کرتے ہیں جس سے سیاسی کھنچائو اور ٹکرائو میں اضافہ ہو۔وہ ہر وقت سیاسی رواداری کی بات کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک مدّبر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ ایم کیو ایم نے چھوٹی موٹی تنقید کا بھی جواب ضرورت سے بہت زیادہ نہ دیا ہومگر اس بار الطاف حسین نے کہاکہ جس نے بھی ان کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ اسے معاف کرتے ہیں اور ناانصافیوں کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا۔باوجود اس کے کہ ایم کیو ایم جو کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ سندھ میں حکمراں حکومت میں حصہ دار ہے بار بار اپنی شکایات کا اظہار کرتی رہتی ہے مگر پھر بھی حکومت کے ساتھ ہی رہتی ہے اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر عشرت العباد کو صوبائی گورنر کے عہدے پر کام جاری رکھنے کا کہتی ہے یعنی وہ حکومت میں بھی ہے اور اپوزیشن میں بھی ۔
اپنی کھوئی ہوئی سیاسی پوزیشن کو واپس لینے کے لئے بلاول نے ان تمام سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے پی پی پی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ ان کے حالیہ بیانات سے ان کی حکمت عملی کے کچھ خدو خال ظاہر ہو رہے ہیں مگر ان کا سب سے بڑا پالیسی بیان18اکتوبر کے کراچی میں ہونے والے جلسے میں آئے گا ۔ پی پی پی ایک عرصہ بعد اتنا بڑا عوامی اجتماع کرنے جارہی ہے۔ اتفاق سے 7سال قبل اسی دن بے بنظیر بھٹو شہید اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے واپس پاکستان آئی تھیں اور ان کے جلوس کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا جس میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے تھے۔بلاول نے بھی کچھ خطرات کا اظہار کیا ہےجن سے انہیں آگاہ کیا گیا ہے مگر انہوں نے ان کو نظر انداز کر کے ہر صورت اس دن جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صاف طور پر بلاول کے انداز میں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کی جھلک نظر آتی ہے۔شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ بلاول زرداری ہیں بھٹو نہیں بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ انہیں اس نوجوان کی سیاست کو دیکھنا چاہئے نہ کہ اس حقیقت پر کہ وہ زرداری اس لئے ہیں کہ ان کے والد اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ خاندان کی لڑی والد سے شروع ہوتی ہے نہ کہ والدہ سے ۔رہنما پی ٹی آئی اس طرح کی بحث شروع کر کے پی پی پی جو کہ بھٹو خاندان کی وارث ہے اور اس کے نام اور قربانیوں پر ووٹ لیتی ہے کو اس ہمدردی سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔