• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
8 سالہ جلاوطنی کے بعد شہید بینظیر بھٹو جب 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی آئیں تو 30 لاکھ سے زائد افراد کے سمندر نے اُن کا والہانہ استقبال کیا لیکن جب ان کا کاررواں مزار قائد پر منعقدہ جلسے کے لئے رواں دواں تھا تو اس دوران کارساز پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے 200 سے زائد کارکنان شہید اور متعدد زخمی ہوگئے جس کے باعث بینظیر بھٹو مزار قائد پر منعقدہ جلسے سے خطاب نہ کرسکیں تاہم آج 7 سال بعد اسی تاریخ اور اسی مقام پر منعقد ہونے والے جلسے سے اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے اپنا سیاسی سفر ایک تاریخی جلسے سے شروع کیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے مجھ سمیت پارٹی کے دیگر مرکزی رہنمائوں کو ایک روز قبل خصوصی پاسز جاری کئے گئے تھے جبکہ مقررہ روز جلسہ گاہ پہنچنے کے لئے مزار قائد سے تقریباً 2 کلومیٹر دور خصوصی شٹل سروس کے ذریعے اسٹیج تک پہنچایا گیا جہاں میری ملاقات سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، امین فہیم، خورشید شاہ، رضا ربانی، اعتزاز احسن، شیری رحمن، چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری، قمر الزماں کائرہ، قائم علی شاہ، ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، فریال تالپور اور نوید قمر کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنمائوں، پارلیمنٹرینز اور سینیٹرز سے ہوئی۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے میڈیا سے یہ کہتے ہوئے میرا تعارف کرایا کہ ’’بیگ صاحب کراچی میں پیپلزپارٹی کا اثاثہ ہیں۔‘‘
جلسہ گاہ کو پارٹی پرچموں، بینرز اور قائدین کی تصویروں سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا جس میں شہید بینظیر بھٹو کی 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی آمد کے موقع پر میرے نام کی انتخابی کیپ پہنے تصویر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی جبکہ میں نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنے بینرز میں اسی تصویر کو اجاگر کیا تھا۔ جلسہ میں موجود کارکنوں کا جذبہ قابل دید تھا جنہیں دیکھ کر مجھے شہید بینظیر بھٹو کے جلسے یاد آگئے۔ اس دوران مجھے اسٹیج کے ساتھ کھڑا کیا گیا وہ ٹرک بھی نظر آیا جس پر 18 اکتوبر 2007ء کو شہید بینظیر بھٹو اپنے کارواں کے ساتھ مزار قائد آرہی تھیں۔ اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا کہ پارٹی قیادت اب نوجوانوں کے ہاتھوں میں دے دی جائے جو پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھال سکیں جبکہ تمام سینئر لیڈرز مشیروں کا کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان قیادت کی رہنمائی کریں۔ کچھ دیر بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنی خالہ صنم بھٹو کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ 7 سال بعد بلاول بھٹو زرداری اور صنم بھٹو کسی جلسے میں اسٹیج پر اکٹھے دکھائی دیئے کیونکہ اس سے قبل صنم بھٹو سیاست میں حصہ لینے سے واضح طور پر انکار کرچکی تھیں۔ اسٹیج پر پہنچتے ہی بلاول بھٹو نے تمام پارٹی رہنمائوں سے فرداً فرداً ملاقات کی۔ اس دوران سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی جلسہ گاہ پہنچ گئے جنہوں نے پارٹی رہنمائوں سے ملاقات کے بعد مختصر مگر انتہائی جامع تقریر کی کیونکہ وہ تمام اہم امور پر خطاب کے لئے بلاول بھٹو کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تاریخی تقریر میں کہا کہ ہم نے نیا پاکستان دے دیا ہے اور سیاسی طور پر پہلی مرتبہ وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جس کیلئے ہمارے شہداء نے قربانیاں دی تھیں، ہم نے جمہوریت اور 1973ء کا دستور دیا جو بھٹو ازم ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ہم قائد اعظم کے مزار کے سامنے کھڑے ہیں جنہوں نے ہمیں پاکستان جیسے عظیم ملک کاتحفہ دیا لیکن زندگی نے انہیں وقت نہیں دیا اور وہ ہمیں جمہوریت کا تحفہ نہ دے سکے تاہم ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آئے جنہوں نے 73ء کا آئین دے کر قائداعظم کا خواب پورا کر دکھایا۔ بلاول بھٹو نے کہاکہ 18اکتوبر2007ء وہ دن تھا جب آمریت کے پجاریوںنے اس دن کو جمہوریت پسندوں کے خون سے رنگ دیا لیکن پیپلزپارٹی کی ڈکشنری میں ڈرنے کا لفظ موجود نہیں کیونکہ شہادت ہماری منزل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنی تباہی پھیلے گی دشمن اور آمریت کے چاہنے والوں اور انتہا پسندوں کو اتنا ہی فائدہ ہو گا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ ہے، کشمیر کا مسئلہ کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، ہم امن چاہتے ہیں اور پاک بھارت مذاکرات کو کشمیر کے ایشو پر یرغمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کرنے اور 30 نومبر کو لاہور میں پارٹی کا یوم تاسیس بھرپور طریقے سے منانے کا اعلان بھی کیا جس میں قائدین اور کارکنوں کی مشاورت سے فیصلے کئے جائینگے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی وفاق کی زنجیر اور پاکستان کے دل کی دھڑکن ہے، یہ شہر پاکستان کا معاشی حب ہے جہاں پرانے اور نئے سندھی، پشتو، پنجابی، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی بھی رہتے ہیں، یہ شہر پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے، یہیں میری والدہ شہید بینظیر بھٹو پیدا ہوئیں، یہ شہر ہم سب کا ہے لیکن آج جب میں کراچی کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب ایک دوسرے کے ظلم کا شکوہ کررہے ہیں، ایک طرف پرانا سندھی کہتا ہے کہ میں کراچی میں اقلیت بن کر رہ گیا ہوں جبکہ دوسری طرف نیا سندھی غمزدہ نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ظلم کا شکار ہوں، ہمیں یہ باتیں اب ختم کردینی چاہئیں کیونکہ کراچی ہم سب کا شہر ہے جسے ہم سب نے مل کر دنیا کا عظیم ترین شہر بنانا ہے۔
بلاول بھٹو کی تاریخی تقریر کے بعد تمام پارٹی رہنمائوں نے کامیاب جلسے پر ایک دوسرے کو گلے لگاکر مبارکباد دی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیج پر موجود پارٹی کی مرکزی قیادت اور سینئر رہنمائوں کو عشایئے پر بلاول ہائوس مدعو کیا، ہم جب عشایئے کے لئے بلاول ہائوس پہنچے تو بلاول بھٹو زرداری جلسے کی تھکن کے باوجود تازہ دم نظر آئے جنہوں نے ہماری ٹیبل جس پر میرے ساتھ سینیٹ کے چیئرمین نیئر بخاری، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، سابق وفاقی وزراء قمر الزماں کائرہ، نذر گوندل اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی موجود تھے، کو جوائن کیا اور جلسے کے حوالے سے ہم سے فرداً فرداً رائے مانگی۔ اس موقع پر میں نے بلاول بھٹو کو شہید بینظیر بھٹو کی جانب سے بلیک بیری کے ذریعے مجھے بھیجے گئے آخری پیغام کے بارے میں بتایا جس کے بارے میں آصف علی زرداری صاحب نے مجھے بذریعہ ای میل آگاہ کیا تھا۔ عشایئے میں شریک تمام پارٹی رہنمائوں نے تعداد میں پڑے بغیر اس بات سے اتفاق کیا کہ لاکھوں کی تعداد میں شریک لوگوں کا یہ ایک بڑا تاریخی جلسہ تھا جس میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور جیالوں نے بھرپور شرکت کرکے اپنے نئے لیڈر بلاول بھٹو زرداری پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا جبکہ بلاول بھٹو کی اردو میں کی گئی تقریر کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بے انتہا پسند کیا گیا۔ کراچی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے بعد یہ ضروری ہوگیا تھا کہ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی بھی جلسے کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے اور کراچی میں 18 اکتوبر کے کامیاب جلسے نے تمام مقاصد بڑی عمدگی سے حاصل کرلئے ہیں جس پر میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری، فریال تالپور،سید قائم علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ، شرجیل میمن وزیر اطلاعات حکومت سندھ، پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر ،جنرل سیکرٹری دیگر عہدیداران اور پارٹی کے تمام کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
تازہ ترین