نوجوان نسل جسے پیارسے نئی پودبھی کہا جاتا ہے کہنے کو تو کسی بھی ملک کا حقیقی سرمایہ ہوا کرتی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سرمایہ منجمد ہی رہا۔ آج کل نوجوانوںکی تعریف لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی ریٹنگ بڑھنے کے علاوہ ان کا Twitterاور Facebook اکائونٹ گالیوں کی بوچھاڑ سے بچ جاتا ہے۔ میں اپنے آپ کو اس عزت افزائی کا حقدار نہیں سمجھتا کیونکہ ایک تو میرا سوشل میڈیا پر کوئی کھاتا نہیں اور دوسرے میں دھرنے کے طریقہ کار، حکومت کا دھرنے پہ دھرنا دینے مگر کچھ نہ کرنے کی حکمت عملی، قومی سیاست میں ’’تُو تڑاخ‘‘ کی غیر مہذب گفتگو اورقائدین کے ایک دوسرے کو للکارنے کے خلاف کافی لکھ چکا ہوں۔ البتہ آج نوجوانوں کے نئے پاکستان کی امنگ سے متاثر ہوکر کچھ لکھنے کو جی چاہا۔ کچھ روز قبل میری اکلوتی نواسی اورپانچ عدد نواسے چاندنی چوک سے ہوتے ہوئے ڈی چوک جا نکلے اور علی الصبح واپس لوٹے۔ میں نے واپسی پرجب تفتیش کی تویقین کیجیے اپنی تشویش جاتی رہی۔ میں نے پوچھا وہاں دھرنے میں جاکر عمران خان کا خطاب سننے سے تمہیںبھلا کیا ملا؟ معصومیت سے جواب ملا’’پاپا ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آج سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور سبز پاسپورٹ کی عزت پر کوئی آنچ نہیںآنے دیں گے‘‘ یہ سن کر مجھے اپنی نئی پود کی خود اعتمادی پر فخر ہوا مگر یہ افسوس بھی ہوا کہ کل جو کام ا سکول کو کرنا تھاآج دھرنے کو کرنا پڑرہا ہے۔نئی نسل کی وی آئی پی کلچر کے خلاف حالیہ تحریک خوش آئندہے۔ امریکی صدرTruman کی خودنوشت پڑھنے کے بعدوی آئی پی کلچر کی تفصیل پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ موصوف نے حلف اٹھانے کے بعد پانچ منٹ قبل کی خاتونِ اول سے پوچھا کہ وہ ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں تو بولیں کہ کیا وہ جہاز پرWarms Springجاسکتی ہیں جہاں سابقہ صدر Rosevelt کی میت رکھی گئی ہے؟ یہ کچھ ہمارے ہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارا صدر مرتا نہیں فقط اتارا یا مارا جاتا ہے اور خدانخواستہ اگر ایسا واقع ہو بھی جاتا تو نیا صدر کہتا’’آپا!آپ جہاز ضرورلے جائیے کیونکہ واپسی پر یہ جہاز بھنڈیاں لیتا آئے گا‘‘۔ جہاز تو گیا مگر Trumanکچھ عرصہ بحیثیت صدر اپنے کرائے کے فلیٹ میںہی رہے پھر ایک سرکاری گیسٹ ہائوس میں منتقل ہوئے جہاں سے ہر روز پیدل ایوان صدر آیا جایا کرتے تھے۔قارئین کرام! بات اصل میں حکومتی سادگی اور رویے کی ہورہی ہے۔ ہمیں مغربی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں بشرطیکہ ہم اپنے ان قائدین کے قول و فعل اور جمہوری رویوں سے سبق سیکھیں جوہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ یوں تو کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر میں یہاں صرف چند ایک مثالیں ہی دینا چاہوں گا۔ سب سے پہلے قائداعظم کو لیجیے جن کا نام توہم نے خوب لیا مگر ان کے عمل کی تقلید سے آج بھی عاری ہیں۔ ایک بار نواب اسماعیل قائداعظم سے کسی بات پر روٹھ کرمیرٹھ چلے گئے۔ قائداعظم نے لیاقت علی خاں کو ان کو منانے کیلئے کہا تو لیاقت علی خاں نے ’’جی سائیں‘‘ کی بجائے یہ کہا کہ اگر ان کی ناراضگی سیاسی ہوتی تو وہ ضرور جاتے، چونکہ یہ ناراضگی آپ کے ساتھ ذاتی نوعیت کی ہے لہٰذا آپ کا جانا بنتا ہے البتہ میں ضرور آپ کے ساتھ چلوںگا۔قائداعظم میرٹھ گئے اورانہیں منا کر لوٹے۔قائداعظم نے Cabinet Mission Planکی حامی بھرتے ہوئے اس کو سنٹرل ایگزیکٹیوکمیٹی کی منظوری سے مشروط کیا۔ اس کمیٹی کے اجلاس میں قاضی عیسیٰ نے قائداعظم سے استفسارکیا کہ آپکی حمایت کے بعد ہمیںغورخوض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پرقائد کا جواب تھا کہ اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا سیاسی جدوجہد کی کامیابی کی کلید ہے۔ اگر صرف میری مرضی کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوتو پھر باقی سیاسی رفقاء کیا مزارعے یا نوکر ہیں؟آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان بننے کے ساتھ اس کا نام پاکستان مسلم لیگ رکھا جائے گا اور حکومتی عہدے رکھنے والوں کو سیاسی عہدے رکھنے کی اجازت نہ ہوگی البتہ قائداعظم اس سے مستثنیٰ ہونگے۔ پاکستان بننے کے بعد پارٹی کے پہلے اجلاس کیلئے قائداعظم کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے گورنر ہائوس کا انتخاب کیا گیاتو قائداعظم نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی کا اجلاس ہے اس لیے گورنر ہائوس میں نہیںہوسکتا اور میں بحیثیت گورنر جنرل پارٹی کا صدر بھی نہیں رہ سکتا۔ یہ اجلاس پھر خالق دینا ہال میں منعقد ہوا جس کا کرایہ پارٹی فنڈ سے ادا کیاگیا۔ ایک روز قائداعظم نے اپنےCare Taker سے کہا کہ ان کا نائی پیدل آنے کی وجہ سے روز دیر سے آتاہے لہٰذا اسے سائیکل خرید کر دی جائے جس پر نوکر شاہی کا نمائندہ ہونے کے باوجوداس نے عرض کی کہ یہ نائی چونکہ سویلین ٹھیکیدارہے لہٰذا سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ کرنا قواعد و ضوابط کے خلاف ہوگا جس پر قائد اعظم نے اپنی جیب سے100روپے دیئے۔ اپنے ذاتی دوست آئی آئی چندریگر (جنہیں ان کے ساتھ برج کھیلنے کا شرف حاصل ہوتاتھا)کو وزیرتجارت کی حیثیت سے ایک معمولی سی بے قاعدگی کرنے پر وزارت سے ہٹا دیا۔یوپی کے دو اضلاع کے جاگیردار نواب لیاقت علی خاں کو ہی دیکھیے جنہوں نے پاکستان میں جائیداد کاکوئی کلیم داخل نہیں کیابلکہ اپنی بیگم کے نام پر دہلی والے گھر کو پاکستان کے سفارت خانے کے حوالے کردیا۔ بحیثیت وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے کانفرنس پر انگلستان جاتے ہوئے اپنے طبی معائنے کیلئے حکومت سے7000/-روپے کا قرض مانگا۔ وزارت خزانہ نے اپنے آقائوں کیلئے روایتی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضور آپ علاج کروائیے قرضے کی قطعاً ضرورت نہیںجس پر چوہدری محمد علی نے پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ یہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی ہے ۔پھرانہوں نے قرضہ لیابھی اور بروقت لوٹایابھی اور اپنی سبکدوشی کے بعد حکومت پاکستان کو شکریے کا خط بھی لکھا(ہمارے قاعدے میں تو بے قاعدگی نام کی کوئی چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی)۔ سکندر مرزا، غلام محمد، غلام اسحاق خان اپنے منفی سیاسی کردار اور عمل کی وجہ سے ویسے تو سگے بھائی لگتے ہیںمگر اپنے رہن سہن میں نہایت سادہ رہے، کسی طرح کی مالی کرپشن میں ملوث نہ پائے گئے۔ اگرفوجی آمروں کا بھی موازنہ کریں تو ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بھی سادگی کی روش جاری رکھی۔ یحییٰ خان کو الگ اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ خدا بخشے اگر زندہ ہوتے ہوئے ہوش میں ہوتے تو وہ بھی یہی کچھ کرتے جو باقی آمروں نے کیا۔قارئین کرام! بات آمریت یا جمہوریت کی نہیں اصل بات سوچ اور رویئے کی ہے کیونکہ بادشاہت، جمہوریت اور آمریت دونوں میں ہوسکتی ہے۔ جب قوم کے حکمران اپنے آپ کو حاکم اور قوم کو محکوم سمجھیں اور قانون کو اندھاہونے کیوجہ سے اندھیر نگری مچا دیں تو اس سے وہ وی آئی پی کلچر جنم لیتا ہے جو آج کل رائج ہے۔ مجھے اس بات کی انتہائی خوشی ہے کہ اس قوم کے نوجوان جاگ اٹھے ہیں اور ان کا جذبہ قابل تحسین ہے ۔میرے ایک دوست کا بیٹا کچھ دوستوں کے ہمراہ اپنے خرچے پر اسلام آباد سے کراچی تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت کے لئے جا پہنچا اور وہاں اپنا قیمتی موبائل گنوا بیٹھا۔ اتنے بڑے ہجوم میں جس نوجوان کو یہ موبائل ملا اس نے Contact List سے اس کی والدہ کو فون کیا اور اس کے فون کی گمشدگی کی اطلاع دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس فون سیٹ کو کہاں پہنچائے؟ یادرہے کہ یہ واقعہ اس شہر میں ظہور پذیر ہوا جہاں ہر منٹ میںتین موبائل چھینے جاتے ہیں۔ اگر اس قسم کے نوجوان پاکستان میں موجود ہوں تو یقین کیجیے کہ یہ ملک موجودہ قسم کے حکمرانوں کے بغیر بھی چل سکتا ہے اور یقینا اچھا چلے گا۔ آخر میں نوجوان نسل کیلئے سید ضمیرجعفری کی تلقین:
کچھ ہُنر کچھ جُستجو کچھ سَعی اے نور نظر
صِرف اِک پَتلون کس لینے سے کام آتا نہیں