گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں، کبھی امریکہ کا جھکائو بھارت کی طرف ہوتا ہے اور کبھی ہماری طرف، سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ کیا چاہتا ہے حالانکہ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اورامریکہ میں اقوام متحدہ کے مندوب، مسٹر رچرڈسن نے دورہ بھارت کے دوران کہا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ملک ہے اس کی دوستی پر امریکی حکومت کو فخر ہے، ہمارے حکمراںبھی یہی کہتے ہیں۔ بلاشبہ امریکہ کی دوستی سے ہمیں فوائد بھی حاصل ہوئے،بے شمار معاملات میں ہم نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا، ایک باوقار قوم کی طرح اس کی دوستی کو بھی نبھایا مگر موجودہ بدلتی ہوئی صورتحال میں ان تعلقات میں لرزہ سا آگیا ہے، پتہ نہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ 1947 میں پاکستان کا قیام استحصالی قوتوں کیلئے ایک زبردست صدمہ تھا، چونکہ مسلم تاریخ اپنی ارتقاء کی طرف بڑھ رہی تھی، غوری میزائل اور ایٹمی تجربے اسی کا نتیجہ ہیں، ہمارےعوام اور مسلح افواج استحصالی نظام کیخلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں جبکہ پاکستانی افواج نظریہ پاکستان کی امین بھی ہیں۔کیا صحیح اور کیا غلط تھا، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے دورہ امریکہ کی دعوت پہلے قبول کرلی، ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کو اڈے قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اس پر روسی وزیراعظم مسٹر خروشیف نے یو این او میں کہا کہ ہمارے خلاف جاسوس طیارے اڑتے ہیں ۔ ہم نے ہر معاملے میں امریکہ مدد کی ہے، مگر جب 1965 میں ہم پر بھارت نے حملہ کیا تو امریکہ نے ہماری امداد بند کر دی، ہمیں ایک گولی بھی امریکہ سے نہیں ملی، ہماری بہادر افواج نے 1965میں یہ حملہ روک لیا۔ سیالکوٹ سیکٹر میں دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی، جس میں خدا کے فضل سے پاکستانی افواج سرخرو ہوئیں۔ 1962 میں بھارت اور چین کی جنگ ہم نے بھارت کو تنگ نہیں کیا بلکہ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی، جسے بھارتی وزیراعظم نے مسترد کردیا۔اس پیشکش کا صلہ ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ملا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ہمارے یہاں وہ نسل اب بھی موجود ہے۔ جس میں، میں بھی ہوں نے تمام معاملات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
اس تمام عرصے میں دنیا نے دیکھا کہ روس نے بھارت کی بھرپور مدد کی مگر امریکہ نے ہمارا دوست ہونے کے باوجود ہماری مخالفت کی، امریکی صدر نے ہماری اقتصادی امداد بھی بند کردی،۔روس نے افغانستان پرحملہ کردیا، جس کی وجہ سےلاکھوں مہاجرین افغانستان سے پاکستان آگئے، روس کی ایٹمی قوت دیکھتے ہوئے تمام مغربی ممالک خوفزدہ ہوگئے، ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی ادارے بین الاقوامی حالات پر نظر رکھتے ہوئے، سنیئر تجربہ کار پاکستان بھیجیں۔بلا شبہ مغربی ملکوں سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئے مگر دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ امن کی گارنٹی صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں، کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ہے، یہ دو قوموں کی بقا کا مسئلہ ہے اب پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے، ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں جنگ نہیں، اگر بھارت نے کوئی جارحیت کی تو ہماری بہادر مسلح افواج یقیناً اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریگی۔ ہمارے عوام نے تحریک پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ اب امریکہ اور مغربی ملکوں کو ہمارے عوام کی خواہشات کے مطابق اس صورتحال پر گہری نگاہ رکھنی پڑے گی، اس خطے میں ہماری قوت کا بھرپور اندازہ ہو جانا چاہئے، امریکہ کو ہماری اوربھارت کی گزشتہ آٹھ سو سالہ کشمکش کا اندازہ ہو جانا چاہئے۔ یقیناً ہم اب بھی پہلے کی طرح بھارت سے پنجہ آزمائی کی قوت رکھتے ہیں یہ بات سب کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے۔
.