یقینا آپ کے مشاہدے میں آیا ہوگا، اگر نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ ہم دیہاتی لوگ لاکھ کوشش کریں مگر اپنا پینڈوپن نہیں چھپا سکتے ۔ آپ نے ماں بیٹے کا وہ پرانا قصہ تو سنا ہوگا، جو پہلی دفعہ شہر گئے ۔ مسافر بس شہر میں پہنچی تو مغرب کا وقت تھا ۔ جا بجا ٹیوب لائٹیں جلنا شروع ہوئیں تو بیٹے نے چلا کر کہا ’’بے بے ! ڈنڈے بَل پئے نیں‘‘ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ پرانی باتیں ہیں اور اب تو بڑا انقلاب آ گیا ہے ۔ نہیں حضور والا! انقلاب ایسا ہی آیا ہے جیسا علامہ طاہرالقادری صاحب لا کر کینیڈا اپنے دولت کدے پر تشریف لے گئے ہیں ۔
آپ اہلِ شہر تو خیر بڑے تعلیم یافتہ ، مہذب اور شائستہ مزاج ہوتے ہیں ، خواتین کا اٹھ کر استقبال کرتے ہیں ، ان کی فنکارانہ اور ادبی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ، ان کے خیرہ کن فیشن شو وغیرہ منعقد کراتے ہیں اور ان کے حقوق کے لئے جلوس شلوس بھی نکالتے رہتے ہیں ، البتہ ہماری سوچ ابھی تک ان بھاگ بھریوں کے برقعے سلوانے سے آگے نہیں گئی ۔ 1997ء میں جب ہماری شادی ہوئی تو ہمارے ایک متمول دوست نے اس موقع کو پرمسرت تصور کرتے ہوئے ہم چھ سات بیلیوں کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر پر بلا لیا۔ حسب روایت صرف مرد حضرات ہی کو دعوت دی گئی جبکہ ان کی ازواج کو اس تقریب میں ملوث کرنے سے مکمل پرہیز کیا گیا۔ وہاں جانے سے قبل ایک ہنگامی اجلاس میں یار لوگ متفقہ طور پر ایک ہی پیج پر اکٹھے ہو گئے کہ ہوٹل میں ہم میں سے کوئی بھی کسی وی آئی پی کو دیدے پھاڑ کر نہیں دیکھے گا اور نہ ہی دیگر کوئی ایسی حرکت کرے گا، جس سے ہمارا ’’گرائیں‘‘ ہونا آشکار ہو جائے ۔ ہم ہوٹل میں داخل ہوئے آپ جیسے سلجھے ہوئے کئی خواتین و حضرات لابی میں تشریف فرما تھے۔ہم ڈرائیور ہوٹلوں کی چارپائیوں پر بیٹھنے والے حسب عادت فائیو اسٹار ہوٹل کے پر شکوہ ماحول میں نروس ہو گئے ۔ شاید قدرت کو ہمارا امتحان مقصود تھا ۔ ہم لابی میں چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک معروف فلمسٹار ہم پر’’حملہ آور‘‘ ہو گئی ۔ دراصل وہاں کسی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں ایک سین فلمایا جا رہا تھا ۔ اس دوران اس اداکارہ کو کسی سے ملنے لابی میں آنا پڑا تو وہ ہوشربا لباس سے لیس وہاں آدھمکی اور ہمارے بالکل قریب سے گزری کہ مابین فریقین صرف کہنے کو ہی فاصلہ رہ گیا۔ اس سین نے یار لوگوں کی رہی سہی خود اعتمادی بھی ہوا میں اڑا دی اورہماری گردنیں کسی خود کار آلے کی طرح اداکارہ کی چال کے ساتھ ساتھ مڑتی چلی گئیں ۔ عزیزی باقر وسیم نے بآواز بلند ’’اداکارہ کا نام لیکرکہاہائے اوئے …‘‘ اس حرکت پراداکارہ تو مسکرا دی، مگروہاں لابی میں موجود لوگوں پر بھی یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ بارانی یا پہاڑی لوگوں کا کوئی گروہ ہوٹل میں گھس آیا ہے۔ ایک اورآپ بیتی سنئے ۔رات گئے ہم دو دوست ملائیشیا کے شہر پینانگ میں آوارہ گردی کر رہے تھے۔ ایک ڈسکو کلب کے سامنے سے گزرے تو یہ تماشہ دیکھنے کو ہمارا بھی جی للچا گیا۔ ہم نے کلب میں گھسنے کی کوشش کی مگر سیکورٹی گارڈ نے ہمیں روک لیا۔ کم بخت بڑا ہی کرخت مزاج تھا ۔ ہماری شلوار قمیض اور کوہاٹی چپل پر حقارت سے نگاہ ڈال کر کہنے لگا’’ پہلے انسانوں جیسا حلیہ بنا کر آئو ‘‘ ہم نے کہا ’’ہم تیرے برادرملک سے آئے ہیں بھائی ! ہماری کچھ حیا کر ‘‘ مگر اس تند خو نے ہماری کوئی حیا نہ کی ۔ہم غالبؔ کی طرح منتِ درباں کرتے رہے مگر غالبؔ کی چلی تھی ، نہ ہماری، سو ہم دوبارہ آن روڈ ہو گئے ۔ ہمارے دوست نے فخر سے کہا کہ اب تو ہم اہل دیہات کی شہرت ملکی سرحدیں بھی پھلانگ چکی ہے ۔اپنے اور آپ کے درمیان فرق واضح کرنے کے لئے ہم ایک اور واقعے کا سہارا لیں گے ۔ ایک دفعہ ہم دو دوستوں کو اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں نیو ایئر کے فنکشن میں شرکت کی دعوت مل گئی ۔ ہم نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مانگ تانگ کر انگریزی سوٹ حاصل کیے اور روانہ ہو گئے ۔ بڑی ہی دلربا و ہوشرباتقریب تھی ۔ ظاہر ہے کہ جہاں آپ جیسے اہل ثروت ،تہذیب یافتہ اور کھلے دل و دماغ والے خواتین و حضرات ہوں گے ،وہاں کھِلے چہروں اور ہرے، نیلے ، پیلے ،اودے اور سرخ پیرہنوں کی بہار تو ہو گی۔ وہاں پر ہم پرمنکشف ہوا کہ ہوٹل میں ڈسکو کلب بھی ہے ۔ پس ہم دونوں منہ اٹھائے چل دیئے ۔ یہاں بھی ایک سیکورٹی گارڈ نے ہمیں دروازے پر روک لیا اور کہا کہ کلب میں صرف جوڑوں کو داخلے کی اجازت ہے لہٰذا آپ حضرات اپنی اپنی خاتون دوست ہمراہ لائیں ۔ ہم نے عرض کی کہ بھلے مانس! ہماری تو اپنے علاقے میں کوئی خاتون دوست نہیں ، اس پرائے شہر میں ہمیں کون منہ لگائے گا؟ مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہااور ہم واپس فنکشن والے ہال میں آ گئے ۔ ایک میز پر دو روشن خیال اور وسیع المشرب شہری خواتین تشریف فرما تھیں۔ ہمارا دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا فسانہ غم کہہ سنایا۔ خدا ان کو لمبی عمر عطا کرے ،وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پربخوشی ہماری جعلی دوست بننے پر تیار ہو گئیں ۔ ہم نے ہر دو فراخ دل خواتین کی معیت میں کلب کے دروازے کی سر حد با عزت عبور کی مگر ان کی صحبت میں چند منٹ ہی رچائو پایا کیونکہ ان کی کراچی کے لئے فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا ۔ تاہم ، ہم نے ان مہرباں خواتین کی مہربانی کے طفیل تادیر جذبات کی جولانیوں کا ہونقوں کی طرح تماشہ کیا۔
اب آپ ذرا ہمارے ہاں کا حال سنیے ۔ آپ کسی بھی گائوں میں جائیں اور کسی راہ چلتی جوان عورت سے کسی کے گھر کا پتہ پوچھ کر دکھائیں ۔ وہ تڑاخ سے جواب دے گی ’’بے شرم ! تیرے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا؟‘‘…بڑے فرق محمداؔ بولیاں دے …
بڑا فرق ہے بھائی جی ، آپ کے اور ہمارے ماحول میں ’’تُسیں سخی تے سیانے ، اَسیں کملے تے جھلے‘‘ …تہاڈے ویہڑے روشنائیاں ،ساڈا دیوا وی نہ بلے ‘‘ جتنی لوڈ شیڈنگ ہمارے ہاں ہوتی ہے ، آپ کے مقدر میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ۔آپ بڑے بڑے افسروں سے بھی خود اعتمادی سے بات کرتے ہیں ، ہمیں سپاہی بھی نظر آجائے تو ہاتھ ماتھے پر رکھ کر کہتے ہیں ’’صاحب سلام‘‘ آپ کے لئے اربوں روپے سے میٹرو بس جیسے منصوبے بنتے ہیں ، ہماری گھٹیامیٹریل سے بنی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جائیں تو انہیں مرمت تک کوئی نہیں کرتا۔ بات لمبی ہو گئی ہے ، ہم اسے باقر وسیم کی اس پنجابی غزل پر ختم کرتے ہیں ۔
دکھ دے بھانبھڑ بال گراں وچ وسنے آں
مگھر، پوہ ، سیال گراں وچ وسنے آں
کھا کے تیر ہجر دے شہروں نکلے ساں
جُثے رتے لال ، گراں وچ وسنے آں
کَسیّاں پینڈے دُور دُراڈے کیتے نیں
اُنج تے تینڈے نال گراں وچ وسنے آں
توں تے میں ای لگی توڑ نبھائی اے
بس دو لجپال گراں وچ وسنے آں
سنیاں اے ، توں ہاسے ونڈا رہندا ایں
اسیں وی چکوال گراں وچ وسنے آں
ڈیرے لائیے باقرؔ سکھ دیاں ڈھوکاں تے
ڈاہڈے مندے حال گراں وچ وسنے آں