ایم کیو ایم نے ایک بار پھر حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے اب صوبہ لئے بغیر نہیں رہیں گے۔ آپ متحدہ سے مہاجربن رہے ہیں پیپلز پارٹی کا جوابی وار۔قبل ازیں6 بار یہ کھیل کھیلا جا چکا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو اب بھی یقین ہے کہ وہ جلد پھر سے وزارتوں کا حلف لے رہے ہو ں گے۔کچھ عمیق نگاہیںدور کی کوڑ ی لائی ہیں کہ یہ زور شور یہ تنقیدی بیانات قبل از الیکشن والی ملی بھگت ہے، جب ایم کیو ایم مستعفی ہو کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی تھی تاکہ متفقہ نگران حکومت بنا کر الیکشن گھوٹالہ کر سکیں۔
تحریک انصاف کے کراچی جلسے نے دونوں کے کان کھڑے کر دیئے ہیں اور لاڑکانہ میں جلسے کے اعلان نے پی پی پی کی صفوں میں خصوصا کھلبلی مچا دی ہے ۔دونوں چاہتے ہیںکہ لوگوں کی توجہ تحریک ِ انصاف کے جلسوں سے ہٹائی جا سکے۔بیانات کی حکمت عملی طے کی جا چکی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کاایک دم بلا وجہ الطاف بھائی پر برسنا اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا لفظ مہاجر پرطبع آزمائی کرنا ملی جلی سوچوں کو جنم دیتا ہے۔قارئین میں افراد پر نہیں سماجی حوالوں سے بننے والے فارمولوں اور ایشوز پر لکھتاہوں۔یہاں زیر بحث دو ایشوہیں مہاجراورصوبے۔ایم کیوایم نے مہاجر کی نسبت ہجرتِ رسولﷺ سے جوڑ کر خورشیدشاہ کو بیک فٹ پر کر دیا ہے جبکہ بھارت سے پاکستان آنیوالوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے یہ اب مہاجر نہیں پاکستانی ہیں۔کالم کی محدودیت کے پیشِ نظر میںاپنا نقطہ نظر وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے ہجرت زیر بحث ہے ۔ قارئین لفظ مہاجر کے معنی، مقصداورتمہید ہے ، جوفرد یا افراد جو اپنی مستقل اقامت گاہ سے بوجوہ نا سازگار حالات میں دوسرے شہر یا ملک میں پناہ کیلئے منتقل ہو جائیں، مگر انہیں یقین ہوحالات سازگار ہوتے ہی انہیں واپس اپنے گھروں کو جاناہے ۔ تاریخ گواہ ہےجوںہی حالات سازگار ہوئے مہاجر اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔بیسویں صدی میں سب سے بڑی ہجرت افغان مہاجرین کی ہے جو روسی حملے کی وجہ سے پاکستان آئے۔اس مہاجرت کے پیچھے سیاست اور ڈپلومیسی کتنی ہے وہ ایک الگ موضوع ہے مگر جو ہجرت کر کے آئے وہ کسی ڈپلومیسی کا حصہ نہ تھے خالصتاًمہاجر تھے ۔جوں ہی جن کیلئے حالات سازگار ہوئے وہ واپس چلے گئے اورجو پاکستان میں ہیں وہ بھی واپس چلے جائیں گے ۔بوسنیا سے پناہ کیلئے آئے مہاجرین و اپس گئے۔1979میں ایران میں حالات سازگار نہیں تھے تو لوگ وہاں سے بھی پناہ کیلئےپاکستان آئےاورحالات سازگار ہوتے ہی واپس چلے گئے۔آج کل شام کے شہری خانہ جنگی کی بدولت اردن اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہیںاور سازگار حالات کے منتظر ہیں،جونہی حالات سازگار ہوں وہ واپس چلے جائینگے۔ پیغمبر اسلام محمدﷺ کی ہدایت پر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر بعدسب واپس آ گئے۔سب سےبڑاحوالہ ہجرتِ رسولﷺ کا ایم کیو ایم دےرہی ہے۔مسلمان رسول اللہﷺ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے آئے مسجد نبوی تعمیر کی، اہل مدینہ سے مل کر جنگ بدر سے فتح مکہ تک مدینہ کا دفاع کیا مگر جونہی حالات سازگار ہوئے پوری قوت سے منجانب مکہ لوٹے اور اپنے کاروبار ،گھر جن پر غیر مسلموں نے قبضہ کر رکھا تھا واپس لئے اور اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی ۔مدینہ اور مکہ اور قرب و جوار کے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنائے۔ اسلامی ریاست کے اندر رہائش پذیر خواہ مدینہ میں ہوں یا مکہ میں سب ریاست کے شہری تھے اور اب کوئی مہاجر نہ تھا ۔مانا حضرت ابو بکر کے انتخاب تک انصار اور مہاجر کی شناخت موجود تھی مگر یہ شناخت بہت جلد تحلیل ہو گئی ۔قارئین اب آتے ہیں ہندوستان سے پاکستان کی سمت آنیوالے قافلوں کی طرف۔کیا یہ قافلے مہاجرت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں،میری رائے ہے نہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں نے پہلے تقسیم ہنداورتخلیقِ پاکستان کی جنگ لڑی تھی،کامیابی ملی تو یہ قافلے اپنے وطن میں مستقل آباد ہونےکیلئے آئےتھے،کبھی واپس جانے کیلئے نہیں۔نہ انہیںہندوستان میں سازگار حالات کا انتظار کرنا تھا نہ واپس جانا تھا پھر مہاجر کیسے ہوئے۔ میرے اپنے خاندان کے لوگ پنجاب ضلع گرداسپور سے لٹ پٹ کر پاکستان آئے مگر کسی نے واپس جانے کی بات نہ کی ۔ پنجاب میں بھی لوگوں نے شروع شروع میں ہمارے بزرگوں کو مہاجرکہا مگر پنجاب میں آباد ہونیوالے کسی نے بھی اس شناخت کو قبول نہ کیا ،جوں ہی پائوں جمے مہاجر کہنے والوں کی گردن دبوچنا شروع کر دی اور منہ بند کر دئے ۔آج پنجاب میں کوئی مہاجر نہیں سب پاکستانی ہیں تو پھرکراچی والے مہاجر کیوں اور کیسے ۔ کیا دنیا میں کہیں بھی مہاجرین کو پناہ دینے والی حکومتوںنے،کلیم مانگے جائیدادیںا لاٹ کیںمگرپاکستان میں کراچی سے خیبر تک ایسا ہوا اس لئے کہ یہ جائیدادیں ،زمین،ملک سفری صعوبتیں برداشت کرکے آنیوالوں کیلئے تھیں ،کوئی مہاجر نہیں تھا سب کواپنے وطن میں رہنا تھاکسی کو واپس نہیں جانا تھا ،وہ اپنوں کی لاشوں پر پائوں رکھ کر خون کے دریا پار کرکے اس لئے نہیں آئے تھے کوئی انہیںمہاجر کہے۔پوری دنیا سے یہودی ،اسرائیلی فلسطین میں آکرآباد ہوئے ہیں مگر کوئی ان میں سے خود کومہاجر نہیں کہتا،اسرائیلی ریاست کا شہری کہلاتاہے حالانکہ ان کی آباد کاری متنازعہ ہے۔الطاف بھائی آپ قومی لیول کے لیڈر ہیں پوری قوم کو لیڈ کیجئے۔سب پاکستانی ہیں کوئی مہاجر نہیں۔بلڈوزکر دیجئے اس سڑے ہوئے بد بو دار جاگیرداری استحصالی نظام کو جس میں 110روپے کا کلرک کرپشن سے پچاس ارب کا جاگیر دار بن کر کہتا پھرتا ہے پدرم سلطان بود ۔بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا ورنہ ۔اردو سپیکنگ بھائیوں سے بھی عرض ہے اردو کو معاف رکھئے یہ چند لاکھ لوگوںکی نہیں 18کروڑ پاکستانیوں کی زبان ہے،خیبر سے کراچی تک بولی سمجھی جاتی ہے تفتان اور استور میں بھی اسے سمجھتے بوجھتے ہیں یہ 18کروڑ پاکستانیوں کے درمیان بانڈ ہے رابطے کا ذریعہ۔محترم اگراردو پرکسی گروپ نے اپنی ملکیت جتادی تو پھر یہ سمٹ جائیگی اور پنجابی، سندھی،پشتو ،بروہی سامنے آ کھڑی ہونگی، 18کروڑ پاکستانیوں کا رابطہ ٹوٹ جا ئیگا ۔ایم کیو ایم نے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کامطالبہ کر دیا مگر بلاول کہتے ہیں مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں یعنی سندھ کی تقسیم قبول نہیں البتہ دیگر صوبوں کی تقسیم قبول ہے ۔دہرا معیار کیوں۔قادری صاحب کہتے ہیںتمام ڈویژن صوبے بنا دئے جائیں،۔ خوب اس طرح تمام جاگیردار ، سردار ،چوہدری،خان وزیر، وزیر اعلیٰ گورنر بن جائیں گے، ہوٹر والی کاروں کی امپورٹ بڑھ جائیگی۔ خو دکشیوں میں اضافہ ہو گا ،محروم اور محروم ہوںگے ۔ بہتر ہے صوبوں کی بجائے با اختیار ضلعی حکومتوں کا شفاف نظام لایا جائے ۔ پارلیمنٹ صرف قانون سازی کرے ،تعمیر و ترقی پر عمل درآمد ضلعی حکومتیں کریں۔ الطاف بھائی مل کر ایک قانون پاس کروا لیجئے ضلعی حکومتوں کے انتخاب میں پڑھے لکھے عام لوگ ہی حصہ لے سکیںگے مراعات یافتہ طبقات کی انٹری بند ہو گی ۔یقین مانیں سندھ کیا سارا پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائیگا ۔