• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے بہت سے حامی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عمراں خان کی اپنی شخصیت بے داغ اور شفاف ہے لیکن ان کے اردگرد جمع دوسرے لیڈر پرانے کھلاڑی ہیں۔ یہ کھلاڑی پاکستان کی روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں اور اگر اب تحریک انصاف حکومت میں آتی ہے تو ان کا کردار پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ پاکستان کی بد قسمتی ہی یہی رہی ہے کہ جب بھی کوئی قومی لیڈر ابھر کر سامنے آتا ہے تو اسے پرانے روایتی سیاسی لوگ گھیر لیتے ہیں اور ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔
تخلیق کے عمل میں ہی پاکستان کو اس المیے کا سامنا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح خود تو درمیانے طبقے کے روشن خیال وکیل تھے لیکن ان کے علاوہ مسلم لیگ کے رہنماؤں میں زیادہ تر جاگیردار اور زمیندار طبقے کے لوگ تھے۔ پنجاب کو ہی لیجئیے جہاں علامہ سر محمد اقبال اور چوہدری برکت علی کے علاوہ تمام بڑے رہنماجاگیردار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ جاگیردار پہلے یونینسٹ پارٹی کا حصہ تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ پاکستان کا بننا ناگزیر ہو گیا ہے تو یہ مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ کے اکثر ممبران بیک وقت یوننسٹ پارٹی کا بھی حصہ تھے۔ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مسلمان جاگیردار مسلم لیگ میں اس لئے بھی شامل ہوئے تھے کہ وہ نہرو کی کانگرس پارٹی کی زرعی اصلاحات سے خائف تھے۔ اور ہوا بھی یہی کہ ہندوستان میں چند ابتدائی سالوں میں ہی زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئیں اور سیاست میں درمیانے طبقے کو آگے بڑھنے کا راستہ مل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں لال بہادر شاستری سے لے کر نریندر مودی تک بننے والے زیادہ تر وزرائے اعظم کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے۔
پاکستان کے پہلے چند سالوں میں بالخصوص محمد علی جناح کی وفات کے بعد جاگیردار طبقے کا غلبہ تھا جو اپنی فکر میں بہت پسماندہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پسماندہ جاگیردار نوکر شاہی کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ سیاست کا کھیل نوکر شاہی سے تعلق رکھنے والے غلام محمد، چوہدری محمد علی اور اسکندرمرزا کے گرد گھومتا رہا۔مسلم لیگ کے ذہنی طور پر پس ماندہ رہنما محض تماشائی بن کر رہ گئے تھے۔ لیڈر شپ کے اسی خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا اور ایک دہائی تک غیر جمہوری انداز میں حکومت کرتے رہے۔
مسلم لیگ کے جاگیردار نہ صرف ریاست کو چلانے کی اہلیت سے قاصر تھے بلکہ ان کا آبادی کے لحاظ سے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ براہ راست تضاد تھا۔ پاکستان میں ہونے والے پہلے ہی الیکشن میں مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کا صفایا ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بڑی جاگیرداری تھی ہی نہیں جس کی وجہ سے سیاسی رہنمائی درمیانے طبقوں کے ہاتھ میں تھی۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی پارٹیاں زرعی اصلاحات پر مصر تھیں اور اگرشفاف الیکشن ہوجاتے تو مشرقی پاکستان کی پارٹیاں مرکز میں حکومت بناکر جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیتیں۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ ایوب خان کے 1958کے مارشل لا کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ 1959میں پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہونے تھے اور یہ صاف نظر آرہاتھا کہ مشرقی پاکستان کا جگتو فرنٹ واضح اکثریت لے کر مرکز میں حکومت بنا لے گا اور شاید زرعی اصلاحات نافذ کردے گا۔ چنانچہ اسے روکنے کے لئے مارشل لاء لگایا گیا جس سے مشرقی پاکستان میں شکایات بڑھنے لگیں۔ مشرقی پاکستان کے عوام کا مغربی پاکستان کے جاگیردارانہ نظام کے ساتھ تضاد بڑھتا گیا اور آخر کار شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے چھ نکات کی الیکشن میں جیت پر منتج ہوا اور پھر ملک دو لخت ہو گیا۔
مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی سیٹیں جیت کر حکومت میں آگئی۔ بھٹو بھی جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف نعرہ زن ہو کر جیتے تھے۔ ایوب خان کے زمانے میں زرعی شعبے میں پیدا ہونے والے وافر سرمایے کو صنعتوں کی طرف منتقل کیا گیا تھا جس سے ارتکاز دولت کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ حبیب جالب مرحوم کی مشہور نظم ــ’’بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشاد ، صدر ایوب زندہ باد‘‘ دولت کی اسی ناہموار تقسیم کے خلاف اظہار تھا۔ بھٹو کا اسلامی سوشلزم کا نعرہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا علامتی اظہار تھا۔ بھٹو کے زمانے میں چھوٹی صنعتوں کو تو قومی ملکیت میں لے لیا گیا لیکن زرعی اصلاحات پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
بھٹو کی 1970میں جیتنے والی پیپلزپارٹی میں پنجاب میں زیادہ تر تعداد درمیانے طبقے کے ممبران کی تھی۔ لیکن 1977کے الیکشن کے آنے تک پرانے جاگیرداروں کو ہی پارٹی ٹکٹ دئیے گئے تھے۔ اس پہلو سے بھٹو کے جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف نعرے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ اگرچہ بھٹو کی پانچ مرلہ اسکیم سے نچلے طبقے کے بہت سے عوام مستفیض ہوئے لیکن جاگیرداری اور سرمایہ داری پوری شان و شوکت سے قائم رہی۔باوجود اس کے عوام بھٹو سے اس لئے پیار کرتے تھے کہ اس نے انہیں عزت نفس کا احساس دلایا تھا اور غریب عوام کے حقوق کی بات کی تھی۔
ضیاء الحق کے زمانے میں روایتی حکمراں طبقات ہی غالب رہے لیکن اس دور میں شریف خاندان کا ابھار ظاہر کرتا ہے کہ اب صنعتکار اور تاجر طبقے پرانے جاگیرداروں کی جگہ لے رہے تھے۔ نواز شریف کے ایجنڈے پر زرعی اصلاحات یا دولت کی منصفانہ تقسیم جیسا کچھ نہیں تھا۔ اس کے بر عکس ان کا مرکز توجہ صنعتی اور ترقیاتی پروگرام تھے۔ عوام میں نواز شریف کا ترقیاتی ماڈل کافی مقبول ہوا اور وہ ملک کی دوسری بڑی پارٹی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ تین مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن وہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکے۔
لیکن اب لگتا ہے کہ نواز شریف کا ترقیاتی ماڈل ناکام ہو رہا ہے۔ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعتی ترقی جمود کا شکار ہو چکی ہے۔کرپشن کا دور دورہ ہے، ارتکاز دولت کی بنا پر غریب اور امیر میں فرق اپنی انتہائی سطح پر ہے اور وی آئی پی کلچر کی وبا پورے حکمراں طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ملک میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے اور عوام میں مایوسی کی فضا قائم ہے۔ ان حالات میں ایک نئی پارٹی یعنی تحریک انصاف کا ابھر کر سامنے آنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔
عمران خان نئے پیدا ہونے والے درمیانے طبقات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس طبقے کی نظر میں سب سے اہم کام ریاست کے اداروں کو عوام کی امنگوں کے تابع بنانا ہے۔ یہ طبقہ نواز شریف کے ترقیاتی ایجنڈے کو ناکافی تصور کرتا ہے کیونکہ اس طبقے کی ماہیت اور ترجیحات مختلف ہیں۔ عمران خان عوام کی مایوسی کی ترجمانی کرتے ہوئے مقبولیت کے زینے پر اوپر سے اوپر جارہے ہیں لیکن نہ تو ان کا کوئی ٹھوس پروگرام ہے اور نہ ہی ان کے پاس نواز شریف جیسا ترقیاتی کاموں کا تجربہ ہے۔ مزید برآں ان کے دائیں بائیں وہی جاگیردار اور سرمایہ دار کھڑے ہیں جو اکثر سیاسی و معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ قطع نظر عمران خان کی پارٹی کی کوتاہیوں کے تحریک انصاف جن نئے درمیانے طبقات کی نمائندگی کر رہی ہے وہ اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیں گے۔
تازہ ترین