یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب سندھ میں تھر کے لوگوں کو تب معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوا ہے، جب تھر کے کسی دور دراز کے گائوں سے ٹیچر تبادلہ ہوکر سندھ کے کسی دوردراز ضلع میں بھیجا جاتا تھا اور سندھ کے جیکب آباد یا دادو وغیرہ جیسے دور دراز ضلع سے کوئی ٹیچر تبدیل ہوکر تھرپارکر کے نگر پارکر آتا تھا۔ مطلب یہ کہ نئی آنیوالی حکومتوں کے سیاسی انتقام کا پہلا نشانہ تھر کا ٹیچر ہوتا تھا جو یا تو آنیوالے نئے حکمرانوں کی مخالف پارٹی سے ہوتا تھا یا مخالف پارٹی کی جانیوالی حکومت کی بھرتی ہوا کرتا تھا۔ تو تھر کے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ ’’ہائو بیلی ( ہاں دوست) لگتا ہے ملک کا وزیر اعظم تبدیل ہوگیا ہے‘‘ ۔ سندھ میں ٹیچر بھی گویا ایک سیاسی یونٹ ہوا کرتا تھا جس پر وڈیرہ سیاست کا دور ومدار تھا ۔ شاید اب بھی ہو۔ کیونکہ یہ ٹیچر ہی تھا جو انتخابات میں پولنگ عملے کا رکن بن کر وڈیروں کیلئے ڈبے بھرتا تھا۔ وڈیروں کا بغیر تنخواہ منشی اورکامدار بھی یہی ٹیچر ہوتا تھا ۔ اس لئے وڈیروں کا آدمی ہونے کی وجہ سے اس ٹیچر پر بچے پڑھانے کی ڈیوٹی معاف ہوتی تھی۔ سندھ میں آج بھی کئی علاقوں میں ٹیچر وڈیروں کا منشی بنا ہوا ہے اور اسکول یا تو بند ہی ہیں یا پھر وڈیروں کے گودام اور اوطاقوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جہاں سات ہزار سے زیادہ اسکول بند ہوں اورہزاروں اساتذہ برسوں سے ’’گھوسڑو ماسٹر‘‘ (غیر حاضر ٹیچر) بنے ہوں وہاں تعلیم کی تباہی سندھ کا مقدر ہے۔ گھوسٹ اسکول اورگھوسٹ ٹیچر جن کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ان سے علیحدہ ہیں۔ سندھ کی اتنی تباہی نہ احمد شاہ ابدالی اور نادرشاہ کے گھوڑوں نے کی نہ ہی جنرل ضیاءالحق یا کسی بھی آمرانہ دور یا خارجی مداخلت نے ،جتنی تباہی تعلیم کے میدان میں سندھی وڈیرے اور اس کی وڈیرانہ سیاست اور گھوسڑو ماسٹر نے کی ہے۔ایسے غیر حاضر اساتدہ پرائمری اسکول سے لیکر کالج اور یونیورسٹی سطح تک ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب سرکاری پیلے اسکولوں اور پبلک ایجوکیشن کی شعبے میں ہوا ہے جہاں غریب اور نچلے اور نچلے متوسط یا متوسط طبقے کے بچوں بچیوں کو تعلیم حاصل کرنا تھی۔ کرنا ہوتی ہے۔
سندھی وڈیرے کی سیاست کا اہم پرزہ پولیس اور پٹواری کے بعد ماسٹر ہی ہوتاہے۔ سندھ میں وڈیرہ سیاستدانوں کی سفارشی بھرتیاں ہزاروں ٹیچر ہیں جو ان کے ووٹراور ورکر ہوتے ہیں۔ یا خاص آدمی یاخاص آدمیوں کے خاصخیلی ہوتے ہيں۔ اب وڈیروں کے منشیوں اورسندھ میں اساتذہ کے کئی بچے پڑھ لکھ کر پولیس افسر بنے ہیں انہوں نے اور کچھ سندھ کے لوگوں کیلئے یا امن امان کیلئےتو نہیں کیا البتہ پیپلزپارٹی سمیت سیاسی وڈیروں کو انتخابات جتوائے ہيں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دوسری بار پیپلزپارٹی کو زیادہ تر ووٹ اس کی اپنی عالم آشکار حکومتی کارگردگی پر نہیں بلکہ سندھ کے ضلعوں میں ڈی پی اوز کی مہربانی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں جب ارباب رحیم سندھ میں وزیر تھے تو وہ صوبائی وزیر اعلیٰ سے ایم کیو ایم کے وزیر تعلیم کی طرف سے تھر میں ٹیچروں کے تبادلوں اور ترقیوں پرناراض ہوگئے تھے۔ یہ تبھی نواز شریف کے ہی پچھلے دور حکومت میں انیس سو نوے میں ہوا جب سندھ میں فوجی آپریشن کے دوران سندھ میں فوج نے تھر میں صرف تین سو سے زائد ایسے غائب یا گھوسٹ ٹیچر دریافت کئے جن کا تعلق سندھ میں تب حکومت کی اتحادی فنکشنل مسلم لیگ سے تھا اورسندھ میں حکومت اس وقت پڑھے لکھے وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاہ کی تھی ۔ ان تین سو غیباتی یعنی گھوسٹ ٹيچروں میں ایسے بھی تھے جو صرف انگوٹھا لگانا جانتے تھے لیکن پیر کے مرید تھے۔
حال ہی میں ایک موقر روزنامے نے انکشاف کیا ہے کہ صرف سندھ کےدادو ضلع میں سات ہزار ایسے غائب اساتذہ ہیں جو اسکولوں سے غیر حاضر ہیں اور مشرق وسطیٰ و دیگر غیر ممالک میں تشریف رکھتے ہیں لیکن ان کی تنخواہیں جعلی دستخطوں سے محکمہ تعلیم کے عملداروں کی ملی بھگت سے جاری و ساری ہيں جو ہر ماہ باقاعدہ وصول کی جاتی ہیں۔
سندھ میں حکومتیں پیپلزپارٹی کی تھیں کہ مسلم لیگ کی لیکن وڈیروں نے پھر وہ دیہی تھے کہ شہری تعلیم کی ایسی تباہی کی کہ اب آئندہ کئی دہائیوں تک جہالت اور ظلم کی تاریکی سندھ پر چھائی رہے گی۔ خود کراچی کے سرکاری شعبے میں اب تعلیم کا حال دیکھئے جو انیس سو پچاسی سے قبل ملک میں تعلیم کا دارالحکومت کہلاتا تھا۔
پیپلزپارٹی کے وڈیرانہ ادوار میں تو یکے بعد دیگرے سندھ کے وڈیروں کو وزیر تعلیم بنایا گیا۔ درمحمد اوستو، عبد السلام تھہیم ، پیر مظہرالحق اور اب عاقل لاڑکانہ کے بنیادی وڈیرے نثاراحمد کھوڑو۔ اگرچہ بظاہر ان میں بذات خود پڑھے لکھے متوسط لوگ بھی تھے لیکن ذہنیت تو پھر بھی وڈیرانہ تھی نہ۔ جب میرے ایک دوست نے جس کا تعلق دادو ضلع سے باہر سے تھا پیر مظہر سے ملاقات کے دوران ان کی اوطاق پر بھری کچہری (سندھی مجلس ) میں دادو کی ترقی نہ ہونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے قدرے ناراضگی سے جواب میں ان کو گھیرے بیٹھے مقامی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں یہ جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں انہوں نے مجھ سے کبھی ایسا سوال نہیں کیا اور نہ ہی دادو کی ترقی کی مانگ کی ہے۔ پیر مظہر الحق کے زمانے میں جو تعلیم کی تباہی اب سندھ میں ضرب المثل بن چکی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلی کی بیٹی سیکرٹری جو کہ تعلیم کی تباہی میں فریق نہیں بننا چاہتی تھی اسے بھی وزیر کے ساتھ چپقلش میں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ اب ان کی جگہ آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں اور ظاہر ہے کہ صوبائی وزیر سے زیادہ طاقتور ہيں۔ جو کہ بہرحال غائب اساتذہ کو واپس کسی صورت اپنی ڈیوٹیوں پر لانے میں اور بند اسکول کھولنے میں سنجیدہ نظر آتے ہيں۔سندھ میں تعلیم کی تباہی میں ان پڑھ یا نیم پڑھ وڈیروں کے ساتھ بڑا ہاتھ پڑھے لکھے لوگوں کا بھی ہے۔ وہ سب پڑھے لکھے لوگ جو پڑھ لکھ کر بڑے عہدوں پر پہنچے سب سے پہلے کام یہ کیا کہ ان کے شہر اور گائوں جو تعلیم کی وجہ سے مشہور تھے وہ بوجہ چھوڑ کر چلے گئے جس کی سب سے بڑی مثالیں شکارپور اور دادو کا پاٹ شہر ہیں۔ میں ان کو بے وفا اولاد کا شہر کہتا ہوں۔ اب شکارپور کا ہی حال دیکھئے۔ سندھ میں سندھیوں کے سب سے بڑے ہمدر بیوروکریٹ کہلانے والے جناب عثمان علی عیسانی کا اپنا آبائی گائوں ڈکھن دیکھئے جو جرائم کے حوالے سے سندھ کے وائلڈ ویسٹ سمجھے جانے والے ضلع شکارپور(جس کا شہر کبھی سندھ کا پیرس اور تعلیم کےحوالے سے علی گڑھ کہلاتا تھا) کے گائوں ڈکھن کو دیکھئےجوچوروں ڈاکوئوں اورپتھاریداروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پسماندگی میں وہی حال جو سابق صدر اسحٰق کے گائوں اسمٰعیل خیل کا ہے۔
سندھ کو تباہ کرنے کیلئے تعلیم کی تباہی ضروری تھی اسی لئے سب سے بڑی شروعات ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں ہو چکی تھی جب سندھ میں طلبہ یونینوں پر بندش لگی اور سندھ کی یونیورسٹیوں کو تالے اور دیواریں تب تک ایجنسیوں کے مکمل پروردہ طالب علم رہنما اور ڈاکو سندھ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں نہیں لائے گئے۔ کئی سال سندھ کے تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا۔لیکن سندھ کی نئی نسلوں کے مستقبل کی تالہ بندی تب سے ہوئی جب سندھ کے اسکول بند، وڈیروں کی اوطاقوں اورگوداموں میں تبدیل کئے گئے ہيں ہزاروں ٹیچر تنخواہیں تو لے رہے ہيں لیکن بچوں کو پڑھانے اسکولوں کو کبھی نہيں گئے یا شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسے گھوسڑو یا غیر حاضر اساتذہ نے اپنی دیگر مصروفیات نکالی ہوئی ہیں ۔ سندھ کے محکمہ تعلیم کی طرف سے سوشل میڈیا اور سندھ کی تباہی پر تشویش رکھنے والے حلقوں کی طرف سے زبردست دبائو کے نتیجے میں، اور عوامی جمہوری پارٹی کے سندھ تعلیمی لانگ مارچ کی کوششوں میں سندھ کے محکمہ تعلیم کو غیر حاضر اساتذہ یا گھوسڑو ماسٹروں کی ایک فہرست جاری کرنا پڑی جس میں پرائمری ٹیچر سے لیکر جے ایس ٹی ایچ ایس ٹی اور کالج لیکچراروں اور پرفیسروں کے نام شامل ہيں جن میں سے کئی میڈیا اور معروف غیر سرکاری تنظیموں کے بڑے چھوٹے عہدوں پر موجود ہیں لیکن سندھ میں اپنی ڈیوٹی کو تعلیمی اداروں سے غیر حاضر ہیں۔ یا شاذو نادر ہی دیکھے گئے ہیں۔ کئی تو با اثر سندھی میڈیا کے اداراتی عہدوں پر ہیں تو کئی الیکٹرانک سندھی اور اردو الیکٹرانک چینلز پر تو کئی غیر سرکاری تنظمیوں میں۔ تو کئی سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار۔اب سوشل میڈیا پر سندھ کے کن باشعور لوگوں نے سندھ کے ان گھوسڑو ماسٹروں کے خلاف ایک زبردست مہم چلا رکھی ہے جو سندھ کی تعلیم کی تباہی جو اب بہت ہوچکی کو روکنا چاہتے ہیں، ان کو دھمکیاں بھی ملی ہيں لیکن وہ اس انا ہزارے ٹائپ کام میں جتے ہوئے ہیں۔ یہ تعلیم کے حوالے سے سندھ کا سوشل میڈیا کااصلی دھرنا ہے جسے کئ سوشل میڈیا عرب اسپرنگ سے تعبیر کر رہے ہيں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے حکمراں دیہی اور شہری وڈیروں کے کانوں پر کب جوں رینگتی ہے جو محکمہ تعلیم کی جونکوں کی مدد اور ملی بھگت سے ہر سال سندھ میں تعلیم کی مد میں نصف کھرب روپے ہڑپ کرجاتے ہيں۔ ورلڈ بینک اور یو ایس ایڈ سمیت عالمی امداد اس سے الگ ہے۔ غیرحاضر اساتذہ اور غیباتی یعنی گھوسٹ اسکول اور ٹیچر سب برابر کے ساجھے دار ہیں۔