جنوبی ایشیا دنیا کے ان خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں غربت انتہا پر ہے ۔ دنیا کی تقریباً 23 فیصد آبادی اس خطے میں مقیم ہے۔ اس خطے میں مختلف مذاہب کے مانے والےرہتے ہیں۔ آج جنوبی ایشیا کے 8ممالک میں سے 4مسلم ممالک جن میں پاکستان، افغانستان، مالدیپ اوربنگلہ دیش شامل ہیں ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔جنوبی ایشیا کی سیاست کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے تقریباً تمام سیاسی مسائل کی وجہ بھارت ہے۔ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ پانی کی تقسیم کا مسئلہ جبکہ افغانستان میں بھارتی دخل اندازی اور کلبھوشن یادیو کا شاخسانہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بھارت خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جبکہ بھارت کے اندرونی حالات یہ ہیں کہ اس کی 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 70فیصد بھارتیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آدھی آبادی متوازن غذا کھانے سے محروم ہے۔ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا میں دو ایسے ممالک ہیں جن کے آپس کے دوستانہ تعلقات خطے کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اعتماد کا فقدان، چار جنگیں، ہندتوا پالیسی کا تسلسل، مسئلہ کشمیر، دہشت گردی اور بھارت کی چودھراہٹ پر مبنی پالیسیاں نہ صرف پاک بھارت دوستانہ تعلقات کی راہ میں حائل ہیں بلکہ خطے کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہیں۔
جنوبی ایشیا کی سیاست کے دو اہم ممالک امریکہ اور چین ہیں گو کہ یہ دونوں ممالک جنوبی ایشیا میں موجود نہیں۔ امریکہ بھارت کے ذریعے اس خطے میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ چین پاکستان کو ایک قابل اعتماد اتحادی سمجھتے ہوئے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان بھی اس کے ساتھ اتحاد کو اپنی دفاعی اور معاشی تحفظ کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ بھارت امریکہ نیوکلیئر معاہدہ اور پاک چائنا اکنامک کاریڈور اس خطے کی سیاست کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ افغانستان میں چینی اور امریکی مفادات کچھ ایشوز پر تو یکجا ہیں اور کچھ مسائل پرآپس میں نہیں ملتے۔ جہاں تک امن کی بات ہے تو امریکہ اور چین ایک پرامن افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ چین کی افغانستان کی ترقی کے لئے انوسٹمنٹ بھی امریکہ کے لئے کوئی پریشانی کا باعث نہیں کیونکہ سرمایہ کاری سے ہی امن قائم ہوسکتا ہے۔ مگربھارت اور امریکہ کی افغانستان میں غیر معینہ مدت تک موجودگی چین اور پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ چین اور بھارت کی بحر ہند پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش بھی اپنے عروج پر ہے۔ چین بحر ہند پر اپنی انرجی سپلائی لائن کے تحفظ کا خواہاں ہے جو پرشین (Persian) گلف سے بذریعہ ملیکا اسٹریٹ سے نارتھ ایسٹ ایشیا تک جاتی ہے جبکہ بھارت چین کی سرگرمیوں کو بحر ہند پر اپنی جارہ داری قائم کرنے کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اسٹرٹیجک کمپیٹیشن ہونے کے باوجود چین اوربھارت کی باہمی تجارت 71 بلین ڈالر ہو چکی ہے۔ پاکستان کے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کو بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ درست ہے کہ چین پاکستان کا دیرینہ ساتھی ہے اور 46بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ کے ذریعے وہ پاکستان کو اس کے پائوں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام، انرجی کا بحران، کرپشن، دہشت گردی پاک چین معاہدوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ان مسائل کا حکومت کو کوئی حل تلاش کرنا۔ دوسری طرف پاک امریکہ تعلقات پچھلی کئی دہائیوں سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں اور پاکستان اپنے ان تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کہ امریکہ کام نکل جانے کے بعد پاکستان کو بے یارومددگار چھوڑ دیتا ہے۔ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔ ISAF کی افغانستان سے واپسی اورریسلیوٹ سپورٹ مشن کے تحت 13 ہزار فوجی جو کہ افغانستان میں موجود رہیں گے تاکہ افغان سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں سے لڑنے کی ٹریننگ دی جاسکےنے بھی امریکہ کی نظر میں پاکستان کی افادیت کم کردی ہے۔ امریکہ کا یہ دعوی کہ وہ 2001ء سے اب تک 26بلین ڈالر امریکی ایڈ پاکستان کو دے چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 110 بلین ڈالر سے خرچ ہوچکے ہیں جس کے مقابلے میں یہ ایڈ بہت کم ہے۔ ان تمام رنجشوں کے باوجود ایک بات واضح ہے کہ ایک آزاد پرامن ایٹمی پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے۔ دنیا ٹریڈ اور انفارمیشن تک رسائی کی وجہ سے گلوبل ویلج تو بن چکی ہے۔ معاشی مفادات کے ثمرات سے ترقی یافتہ ممالک کی ریاستیں فوائد اٹھا رہی ہیں مگر جنوبی ایشیا گلوبل ویلج کم ٹرائبل ویلج زیادہ لگتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل کے حل کے بہت سارے کارڈز ایسی بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ شیئر کر چکے ہیں کہ اب انکی شمولیت کے بغیر پاک بھارت مسائل کا دیرینہ اور مستقل حل نظر نہیں آتا۔
بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایک ایٹمی پاکستان بھارت کے ساتھ امن سے رہنے کو تو راضی ہوسکتا ہے مگر بھارت کی بالادستی قبول نہیں کرسکتا۔ خطے کی مشترکہ دشمن غربت، دہشت گردی، مہلک بیماریاں اور شرح ناخواندگی ہے۔ قدرت کا اصول ہے کہ مشترکہ دشمن کا مقابلہ یکجا ہو کر کیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی ترقی اور امن کے لئے قابل، معاملہ فہم لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔
.