پاکستان بنا تو اس ملک کا کوئی نظام نہ تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی اس مسلم ریاست کا سیاسی نظام تخلیق ہونا تھا۔ سماجی اور اقتصادی نظام تشکیل کیا جانا تھا۔ قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان قتل کر دیئے گئے۔ پہلی آئینی اسمبلی توڑ دی گئی۔ 1956، 1962 اور 1973کے آئین بتدریج معطل ہوئے۔ قائداعظم کے اقوال اتحاد، تنظیم اور یقین محکم دھندلا گئے اور اس نو زائیدہ مملکت کو بار بار سیاسی اور سماجی اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں کوئی سیاسی نظام نہ بن سکا۔ البتہ سروسز کا نظام ایک محکم نظام تھا جوہی چلتا رہا ۔ ان سروسز کی تربیت برطانوی طرز حکومت پر کی گئی تھی جو ایلیٹ (Elite)ہی تھے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت اور تجربے کی بنا پر ان سروسز کے افراد اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشاق تھے۔ لہٰذا اس نظام کے فروغ کے لئے اس وقت سیاسی نظام کی نسبت یہی لوگ غنیمت تھے ۔ وقتاً فوقتاً یہ لوگ مختلف سیاسی ادوار میں بھی کردار ادا کرتے رہے۔
ایک خلامنجملہ :اس ملک میں تعلیم یافتہ ، تجربہ کار اور مستعد سیاستدانوں کا فقدان رہا۔ اس لئے مملکت میں کوئی واضح نظام قائم نہ ہو سکا۔ سیاست اور سروسز میں انڈین سول سروس کے افسران جنہیں بعد میں سول سروس آف پاکستان اور اب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے نام سے جانا جاتا ہےمختلف ادوار میں اعلیٰ قسم کے منتظم تھے ۔ اکاوٗنٹس ،پولیس اور فوج بھی ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے دھارے میں بہتے رہے ۔ ہردور میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی پالیسیاں بنانے میں ان کا کردار بدستور رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سروسز کے کچھ افراد سیاست میں بھی ملوث ہو گئے۔ آئین کی معطلی اور آئینی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے میں ان کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کردار رہا۔ شعوری سیاسی نظام نہ ہونے سے اکاونٹ سروس اور فوج کے کچھ افراد بھی سروسز کی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے سیاست میں وارد ہوگئے۔
سروسز کو بہر حال سیاسی نظام کے تحت ہی خدمات انجام دینا ہوتی ہیں۔ ان سروسز کا تعین کرنے کے لئے کوئی سیاسی نظام تھا یا نہیں یہ موضوع ا بھی زیرِ بحث نہیں ۔ لیکن قابلِ غور یہ بات ہے کہ کچھ افراد اپنی حدوں سے تجاوز کرتے گئے۔ احتساب کے خوف سے بے نیاز یہ افراد اپنے فرائض کی انجام دہی کے بجائے رشوت خوری اور اقربا پروری میں ملوث ہوگئے۔ طاقت کے نشے اور خود سری میں عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے خواہاں رہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ افسران کم تجربہ کار اور مناسب تعلیم و تربیت سے بھی عاری تھے۔
دھیرے دھیرے اہل اور ناتجربہ کار افسران ناپید ہو تے گئے۔ نئی مملکت کی وجہ سے جلد جلد ترقیاں ہوئیں ۔ کم اہلیت، کم علمیت اور نا تجربہ کار افسران درپے رہے۔ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ان میں سے اکثر و بیشتر تعلیم، اہلیت اور دیگر تقاضوں کے اس معیار پر پورا نہیں اترتے تھے جو پاکستان سے پہلے بھرتی کے لئے رائج تھا۔ مزید برآں سینٹرل سروس میں علاقائی بنیادوں پر بھرتیاں کی جانے لگیں۔ ڈومیسائل کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے جن کے لئے اعلیٰ اہلیت اور اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے ایسے افراد کو دیئے گئے جن میں صلاحیت کم اور ریجنل ازم زیادہ تھا۔ دوسری طرف تعلیم یافتہ اور اہل افراد اعلیٰ عہدے حاصل نہیں کرپاتے تھے یا پھر انہیں ایسی ملازمتیں پیش کی جاتیں جو ان کی علمیت ، قابلیت اور تجربے سے مماثلت نہیں رکھتی تھیں اس صورتِ حال سے با صلاحیت اور تعلیم یافتہ افراد کا استحصال ہوا اور سروسز کا معیار کم ۔خامیاں:سوال یہ بھی ہے کہ آیا سینٹرل سپیر یئر سروس کا نظام جو ورثے میں ملا، وہ غلط تھا یا اسے غلط انداز سے چلایا گیا جس وجہ سے مسائل نے جنم لیا۔ عموماً نئی مملکت میں شروع سے ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے کافی سوچ بچار کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نظام کی ترقی کے لئے مختلف حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن بالعموم ہوش کے بجائے جوش کا مظاہرہ کیا گیا۔ حقائق پرکان نہ دھرے گئے۔ ملک میں عوامی خدمات کے لئے سیاسی نظام کی خامیوں اور جذباتیت کی وجہ سے سینٹرل سپیر یئر سروسز کے نظام کو ناقص قرار دیدیا گیا۔ بہرحال نظام میں نقص نہ تھا۔ لیکن ان مخصوص حالات میں قابل عمل نہ ہو سکا۔بہرحال سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایلیٹ سروس کی ضرورت ہے؟ اور اگر ضرورت ہے تو کیا ’’اسپیشلائزیشن‘‘ـ سے حاصل کی جاسکتی ہے یعنی افسر بالعموم نچلی سطح پر بھرتی ہو اور تعلیم و تربیت اور تجربے کی بنا پر بتدریج اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا سلیکشن سے جو کم عمری میں ہی تجربے سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی معیار ، قابلیت اور منجملہ صلاحیتوں پر مبنی ہو جس سے موزوں امیدوار منظر عام پر آئیں ۔مسلمہ یہ بھی ہے کہ ایک مضبوط سیاسی نظام ، اچھے نظم و نسق اور جواب دہی کے تصور کے بغیر کوئی سسٹم کارگر نہیں ہوسکتا۔ قطع نظر کہ ایلیٹ سروس کی تشکیل کیسے ہو مسلمہ امر ہے کہ حکومت کی پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کیلئے ایلیٹ سروس کی اہمیت کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔ اس کی اہمیت ایسے حالات میں خصوصاً اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ملک اندرونی اور بیرونی مسائل کے باوجود اقتصادی ترقی کی راہ پرگامزن ہو۔ ترقی یافتہ معاشرہ ہو یا ترقی پذیر معاشرہ ایلیٹ سروس اہم ہے۔ لہٰذا اس سروس کی اہمیت پرکوئی اختلاف نہیں ۔ اگر اختلاف ہے تو صرف اس امر پر کہ اس ایلیٹ سروس کی کس طرح تشکیل کی جائے۔ اسے بہتر کیسے بنایا اور استوار کیسے کیا جائے تاکہ ملک کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی نظام کی بدلتی ہوئی ضروریات پوری ہوں۔ عر صہ دراز سے یہ معاملہ حل نہیں ہوا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اب اس کا مستقل حل تلاش کرلینا چاہئے۔ انتظامی اور سیاسی و سماجی امور کے لئے جلد گرفت اور بروقت فیصلے کی ضرورت ہے:
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو