• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی ریاست مشی گن میں ایک شہر ڈیٹرائٹ ہے۔ کبھی یہ شہر بہت شاداب و آباد ہوا کرتا تھا- ایک ترقی یافتہ شہر جو موٹر کاروں کی صنعت کی وجہ سے ایک عالم میں شہرت رکھتا تھا اور نیویارک اور شکاگو جیسے بڑے شہروں کے کاندھوں سے کاندھا ملائے ہوئے تھا۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں اس شہر کی آبادی انیس لاکھ نفوس کے قریب تھی۔ کیا کالے کیا گورے کیا عرب اور ایشیائی اس شہر کے باسی تھے۔ایک مشہور موٹر کار کمپنی کے کارخانے بھی اسی شہر میں تھے جس سے شہر میں بسلسلہ روزگار ہزاروں لاکھوں لوگ آکر آباد ہوئے تھے جنکی روٹی روزی موٹر کار صنعت سے جڑی تھی۔ مشہور امریکی گلوکار سیمی ڈیوس جونیئر نے اس شہر میں اپنا گانا "ہیلو ڈیٹرائٹ" گایا تھا جو آج بھی سنیں تو دل میں اتر جاتا ہے۔ کاریں جو امریکیوں کا جنون ہوتا ہے۔ پھر ایسا ہوا کہ عالمی موٹر کار کی صنعت میں مقابلے میں ڈیٹرائٹ فورڈ کمپنی کا زوال ہوا۔ جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہوا اور یہ شہر آبادی کے اعتبار سے کم ہوتے سات لاکھ کی آبادی تک جا پہنچا۔ شہر کا ابھی زوال نہیں ہوا تھا تو وہاںمیری ملاقات ایک پاکستانی چوہدری مزمل سے ہوئی جو محض پانچ سو ڈالر لیکر امریکہ میں اترا تھا اور پھر ایک دن شہر کی تمام کار پارکنگز کا مالک بنا۔ اب میں نے سنا کہ چوہدری مزمل فوجی آمر مشرف کے دور حکومت میں پنجاب کا وزیر بھی بنا تھا۔ اسی شہر میں ایک پاکستان ڈاکٹر آرائیں سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے پاکستانی سماج اور سیاست میں "دھوتی فیکٹر" کی اہمیت سمجھائی تھی۔۔ تب میں گيارہ ستمبر کے بعد امریکہ میں پاکستانیوں کے حالات پر ایک رپورٹ کے سلسلے میں آیا تھا جب پاکستانی دھڑا دھڑ ڈیٹرائٹ کی سرحد سے کینیڈا بھاگ رہے تھے جنکو مقامی چرچ نے پناہ دی ہوئی تھی۔ اسی شہر میں امریکی فنکارہ او رگلوکارہ میڈونا کا جنم ہوا تھا جو اتفاق ہے کہ نیویارک میں میرے ہی محلے میں پلی بڑھی تھی۔ لیکن دیکھتے دیکھتے ہی گیارہ برسوں میں یہ شہر امریکی فلم "سارے لوگ کہاں چلے گئے ہیں" (جس میں صرف عمارتیں باقی رہتی ہیں اور لوگ غائب) کی کہانی کی طرح اب بھوت شہر کا منظر پیش کرتا تھا۔بالکل ایسے جیسے اب پیپلزپارٹی کے موجودہ ادوار حکومت میں سندھ کے شہر۔
ایسے میں اس ویران شہر کے قریبی شہر "ڈیئربورن" میں شمالی امریکہ کے سندھیوں نے ایک مقامی ہوٹل میں اپنے سالانہ میلے منعقد کرنے کی ٹھانی جس میں ہم بھی نیویارک سے بذریعہ کار ڈیٹرائٹ پہنچے۔ "ہیلو ڈیٹرائٹ۔"جہاں جوق در جوق نہ فقط شمالی امریکہ سے لیکن سندھ سے بھی گمنام چاہے مشہور شخصیات آکر پہنچی تھیں۔ یہ شمالی امریکہ کے بسنے والے لوگوں کی تنظیم "سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ" یا "سانا" کا بتیسواں سالانہ کنونشن تھا۔ جسے میں نے ایک دفعہ "سندھیوں کا بڑا کھانا" کہا تھا۔
سانا کو قائم کرنے والی شمالی امریکہ میں سندھیوں کی ایک نسل تھی جو انیس سو ساٹھ ستر اور اسی کی دہائیوں میں آ کر آباد ہوئی تھی۔ لیکن وہ سندھ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ایک ناسٹلجیا کی صورت۔ ناسٹلجیا کا شاید کوئی بھی ترجمہ مکمل طرح نہیں ہوسکتا۔ مجھ جیسی سندھیوں کی نسلیں آج بھی اکثر ناسٹلجیا میں مبتلا ہیں۔ لیکن امریکہ میں سندھیوں کی نئی نسل جو اب بڑی ہورہی ہے جو اپنے والدین کے ساتھ سندھیوں کے امریکہ میں اس میلے میں بچپن سے آتی رہی ہے اور بچے سالہا سال آتے رہے ہیں اب سندھ اور سانا کے ساتھ اپنے ورثے اور وابستگی پر سوال کرنے لگے ہیں۔ اس دفعہ سنا کہ بتیسویں سالانہ کنونشن کی اکثر نشستوں کا موضوع بھی "سانا کا ماضی حال مستقبل" ہی تھا۔
سانا انیس سو چوراسی میں سندھ میں ایم آر ڈی تحریک کی پہلی ضیا آمریت مخالف تحریک کے بعد اور دوسری ایم آر ڈی تحریک سے چند سال قبل وجود میں آئی تھی جسکا اولین مقصد سندھ میں انسانی حقوق کی پامالی اور سندھی کلچر کے متعلق عالمی رائے عامہ ہموار کرنا اور سندھیوں میں "سندھیت" کے شعور کی آگاہی کا پرچارتھا۔ اس کے پہلے بانیوں میں ڈاکٹر فیروز احمد، الطاف میمن اور بعد میں پی پی پی کے سابق سینیٹر ڈاکٹر جاوید لغاری تھے۔ زیادہ تر اس میں تعداد ڈاکٹروں انجینئروں، آئی ٹی سے وابستہ کچھ لوگوں کی تھی لیکن اس میں ڈاکٹر فیروز احمد جیسے بائیں بازو کے منجھے ہوئے دانشور بھی شامل تھے۔ شنکر لکھوانی، نرنجن دودانی، خالد ہاشمانی، علی نواز میمن، انور میمن ترک برادران اعجاز ترک اور اشفاق ترک، ڈاکٹر گل آغا، ڈاکٹر مٹھل وقاصی، عزیز ناریجو،ظفر آغا،سلیمان لاکھو، ڈاکٹر محمود قلبانی، شیریں قلبانی، سعیدہ میمن، سابق معروف طالب علم رہنما اقبال ترین اور مہر حسین شاہ اور قافلہ بڑھتا گیا۔سانا کے سالانہ اجتماعات میں عبدالحفیظ پیرزادہ، سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور رانا بھگوان داس، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، رسول بخش پلیجو، سابق وزیر اعلی سندھ عبداللہ شاہ اور مسلم لیگ نواز کے احسن اقبال وغیرہ بھی خاص مہمان مقررین کے طور پر شریک ہو چکے ہیں۔ سانا کے سینئر اراکین کے ایک بند اجلاس میں ایک دفعہ بینظیر بھٹو بھی شریک ہوئی تھیں۔
آپ سانا سے کتنے بھی اختلافات رکھتے ہوں اور میرے بھی کئی اختلافات ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ سانا شمالی امریکہ میں سندھیوں کی واحد پاپولر تنظیم ہے جس نے امریکہ میں ایک چھت کے نیچے مختلف الخیال سندھیوں کو انکے خاندانوں بشمول عورتوں اور بچوں سمیت جمع کیا ہے۔ سانا کے کنوشن میں کئی سندھی وہ پھر شمالی امریکہ کے ہوں یا سندھ سمیت کسی بھی کونے کے آپس میں مل سکتے ہیں۔ اور بہت عرصے تک نہ ملنے والے بھی اسی پلیٹ فارم پر مل سکتے ہیں۔ سانا کے اکثر کرتا دھرتا سانا کو شمالی امریکہ میں رہنے والے سندھیوں کی ایک سماجی اور ثقافتی تنظیم کہتے ہیں حالانکہ یہ شروعاتی طور پر سندھ میں سیاسی حالات کے ردعمل میں زیادہ تر سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے ہی بنائی تھی جو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہ کر سندھیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ سانا میں ٹراما سرجنوں سے لیکر ٹیکسی ڈرائیوروں تک سب شامل ہیں۔ اور اسکے ارکان بن سکتے ہیں اور اسکے انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ موجودہ وقتوں ميں سانا نے سندھ میں تعلیم اور صحت کے میدان میں کئی پروجیکٹ شروع کر رکھے ہیں جن میں سندھ میں اسکولوں کو سانا کے تحت چلانا اور اپنانا بھی ہے۔ فی الوقت سانا سندھ میں برطانوی امپریل کالج سے ملحقہ ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنے میں مدد کرنے جارہی ہے۔
سندھی ادب کے واحد اور فقط یگانہ مزاح نگار اور انتہائی سنجیدہ ادیب حلیم بروہی نے کہا تھا جہاں دو سندھی ملتے ہیں وہاں تین موقف ہوتے ہیں۔ سانا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنے دور کے ایک سنگین بحران سے دوچار ہوئی جب اسکے تین اراکین نے ان پر اندرون خانہ جمہوریت کے فقدان، فنڈز میں خوردبرد اور انتخابی فہرستوں یا ممبرسازی میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور اسکے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ سانا کے تین روزہ کنونشن کے تیسرے روز جنرل باڈی کا اجلاس پولیس کی موجودگی میں ہوا۔
لیکن کنونشن کی آخری رات کھانا اور گانا دو ایسی چیزیں تھیں جہاں سانا کی موجودہ قیادت اور منحرفین کو آپس میں گلے لگتے دیکھا گیا۔ یعنی کہ بقول شخصے سندھی چاہے آپس میں کتنے بھی لڑے ہوئے ہوں لیکن اندر میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے زمانے میں سندھیت اور سندھی شناخت قائم رکھنے کے سوالات میں مصروف سانا کی جب موجودہ نسل نہیں رہے گی تو کیا انکی آئندہ نسل یہ ترکہ سبھالنے کیلئے آگے بڑھے گی کہ موجودہ نسل اس پر بھی متفکر نظر آتی ہے کہ انکے بچے انکے ساتھ گھروں پر سندھی بولنے کیلئے کیوں تیار نہیں نیز یہ بھی کہ اگلے دن انکے بچوں نے "نوجوانوں کی نشست میں اپنے ہی ماں باپ کوانگریزی میں سندھی کی کہاوتیں پوچھ کر لاجواب کردیا۔ نیز یہ بھی کہ یہ نہیں کہ وہ سندھی زبان کو برتنا نہیں چاہتے بلکہ ان کے بڑوں نے ان کیلئے ایسی سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کیں۔

.
تازہ ترین