مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ہمارے سکول میں سب سے نمایاں جگہ پر لکھا ہوا تھا’’اگر آپ کی دولت چلی گئی تو سمجھیںآپ کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اگر آپ کی صحت چلی گئی تو سمجھیں کہ آپ کا کچھ نقصان ہوا ہے اور اگر آپ کی عزّت چلی گئی تو جان لیں کہ آپ کا سب کچھ ضائع ہوگیا‘‘۔ ٭ایکٹرسوں کی طرح عزّت کی بھی کئی اقسام ہیں اور مالک ہر بندے کو اس کے ظرف اور ضرورت کے مطابق ’’عزّت‘‘بھی بانٹ دیتا ہے۔ بولڈ سین یعنی فحش سین کرنے والی ایک ایکٹرس کا آئیٹم سونگ ہٹ ہوا تو روزنامہ ’’بازاری خبریں‘‘کا نمائندہ انٹرویو کیلئے پہنچ گیا، وہاں ہفت روزہ ’’تھرتھلّی‘‘کا نمائندہ پہلے ہی انٹرویولے رہا تھا۔ دونوں نے ایک ہی سوال کیا کہ ’’آپ اتنی شہرت ملنے پر کیسا محسوس کررہی ہیں‘‘کہنے لگی ’’اوپر والے کا بڑاکرم ہے جس نے اتنی عزّت دی ہے‘‘۔٭کوٹھے کی ایک ڈانسر سے ہفت روزہ ’’نیا سکینڈل‘‘کے چیف ایڈیٹر نے جب خصوصی ملاقات کے دوران پوچھا کہ آپ کے ڈانس دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیںاب جبکہ آپ اس محلے کی نمبر ایک رقاصہ بن چکی ہیں تو فلموں میں جانے کا کب ارادہ ہے؟ ڈانسر نے ترنت جواب دیا ’’اﷲنے ایتھے ای بڑی عزّت دتی اے اوس گند اِچ کی پیَناں اے‘‘(اﷲ نے یہیں بڑی عزّت دی ہے اُس گند میں کیا پڑنا ہے)۔٭بہت سوں نے دیکھا اور سنا کہ ایک نوجوان بازار میں بھاگ رہا تھا کسی واقف کار نے روک کر پوچھا کہ بھئی کیوں بھاگ رہے ہو خیریت تو ہے؟ کہنے لگا ’’ہمارے مخالف ہیں ناں گجر! انہوں نے پچھلے چوک میں ہمیں گھیر لیا ابّا جی کو تو وہ لٹا کر جوتے مار رہے ہیں مگر میں عزّت بچا کر بھاگ آیا ہوں‘‘۔ پوچھنے والے سے رہا نہ گیا اور اس نے کہا ’’لعنت ہے تم پر اور تمہاری عزّت پر باپ کو مارکھاتا چھوڑ کر بھاگ آئے ہو ایسی عزّت سے تو بے عزّتی بہتر تھی‘‘۔ ٭چوہدری صاحب کالج میں ہم سے دوسال سینئر تھے۔ اس وقت بھی سیاست کے کیڑے تھے۔ ان کی زندگی کا آخری مقصد اسمبلی کا ممبر بننا تھا۔ پنجاب اسمبلی بلڈنگ کے پاس سے گذرتے تو قریب جاکر ہاتھ لگا کر چھوتے اور حسرت سے کہتے کبھی تو قدرت ہماری بھی اَینٹری ڈالے گی۔ مخلص اور ملنسار ہونے کے باعث علاقے میں جلد ہی مقبول ہوگئے۔ ان کا مخالف پچھلی بار بھی ایم پی اے تھا اس نے اپنی ممبری کو صرف اپنی اور اپنے خاندان کی معاشی ترقی کیلئے استعمال کیا تھا اس لئے لوگ اس سے متنفر ہوگئے اور چوہدری صاحب جیت گئے۔ چوہدری صاحب ایم پی اے تو بن گئے مگر حکومت دوسری پارٹی کی بنی اور چوہدری صاحب کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ پہلے چند مہینے تو جیت کی خوشی میں گذر گئے۔ ووٹر مبارکبادیں دینے آتے رہے مگر جب لوگ اپنے کام لے کر آنا شروع ہوئے تو چوہدری صاحب کو سب دروازے بند ملے۔ سرکاری افسر بھی سردمہری کا مظاہرہ کرتے اور پولس پٹوار بھی اہمیت نہ دیتی۔ چوہدری صاحب پریشان ہوگئے۔ انہیں طعنے ملنے لگے کہ ’’تواڈی ممبری تے پانڈو کی دا مقبرہ اے جیہڑہ نہ کسے دا سوار سکے نہ وگاڑ سکے‘‘(آپ کی ممبری تو پانڈوکی کا مقبرہ ہے جہاں سے نہ کسی کو فیض ملتا ہے نہ نقصان پہنچتا ہے)۔سال ڈیڑھ سال تو جیسے تیسے گذر گیا لیکن اس کے بعد اپوزیشن کی ممبری انہیں بوجھ سی لگنے لگی۔ ایک دن چوہدری کے مشیرِاعلیٰ مرزادلبرحسین نے بھی کہہ دیا کہ چوہدری صاحب کیا فائدہ ایسی ممبری کا۔ کوئی کام نہیں ہوتا اب تو ہمارا ووٹر بیزاراور سپورٹر شرمسار ہے۔ چوہدری صاحب نے اتفاق کرتے ہوئے کہا ٹھیک کہتے ہو، حال یہ ہے کہ میرا اپنا بیٹا بیروزگارہے، سالابیکارہے، بیوی برسرِ پیکار ہے اور ہمارا اپنا____نہ پٹواری ہے نہ تھانیدار ہے۔ اس کے بعد کورکمیٹی کی میٹنگ بلائی گئی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ علاقے کے مفاداور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے حکومت کو مضبوط کرناضروری ہے اور وہ صرف حکومتی پارٹی میں شامل ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد کیلئے حکومت سے رابطے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ ایک وزیر سے رابطہ ہوا اس نے آنے کی حامی بھر لی بعد میں پتہ چلا کہ اس نے فیس زیادہ طلب کر لی تھی جس کا چوہدری صاحب بندوبست نہ کرسکے۔ پھر ایک اور وزیر کو بلا کر جلسہ کرنے کا پروگرام بنالیا گیا۔ مقامی سکول کے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر سے تقریر لکھوائی گئی۔ مجھے فون کرکے چوہدری صاحب نے کہا کہ اس اہم موقع پر تقریر میں شامل کرنے کیلئے علامہ اقبالؒ کے چند شعر لکھ کر بھجوا دیں۔ میں نے کہا آپ کی تقریب جس نوعیت کی ہے اس کیلئے علامہ اقبالؒ کے نہیں رانا اقبال کے شعر ہی چل سکیں گے بہتر ہے رانا اقبال چنیوٹی کا کوئی ماہیا سنادیں۔ بہر حال جلسہ ہوا، ڈھول بجے، دیگیں پکیں، مہانوں کی خوب تواضع ہوئی۔ ایک جرگہ مقامی تھانے کے SHOکی طرف خصوصی دعوت نامہ دے کر بھیجا گیا وفد نے مدعو کرتے ہوئے کہا ’’جناب عالیٰ !وزیر کو بلانا تو مجبوری ہے اصل مہمانِ خصوصی تو آپ ہی ہونگے‘‘۔ SHO میزبانوں کی کوشش کے باوجود نہ آسکا البتہ چھوٹا تھانیدار سیکیورٹی کیلئے آگیا۔ جس کی خاطر مدارت سب سے زیادہ ہوئی۔ چوہدری صاحب جس پارٹی کے ٹکٹ پر جیتے تھے اس پارٹی کے کچھ ورکر رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے پہنچ گئے اور انہوں نے پنڈال کے باہر’’بے ضمیر، بے ضمیر‘‘کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ پولیس نے انہیں بھگانے کی کوشش کی مگر یہ کوشش ناکام ہوئی اور معزز مہمانوں کی تقاریر کے دوران بھی وہ بے ضمیر کے نعرے لگاتے رہے۔ چوہدری کے والد صاحب کا دودھ کا کاروبار تھا۔ اس نسبت سے مظاہرین نے ایک بینر پر لکھ دیا ___ ـ’’باپ شِیر فروش___ بیٹا ضمیر فروش‘‘۔ جلسے کے اختتام پر پُر تکلف کھانے کا بندوبست تھا۔ آدھی درجن چکن روسٹ پیٹ میں دھکیلنے کے بعد حلوہ کھاتے ہوئے ایک خصوصی سپورٹر گوگا بٹ نے چوہدری صاحب کو جلسے کی کامیابی پر دلی مبارکباد دیتے ہوئے کہا’چوہدری صاحب مبارکاں ہون حکومت دا حصّہ بن گئے او‘ (چوہدری صاحب مبارک ہو اب آپ حکومت کا حصّہ بن گئے ہیں)۔ اس پر چوہدری صاحب نے انگلی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’’شکر ہے اُوپر والے نے ہمیشہ مجھے بڑی عزّت دی ہے‘‘۔ چوہدری صاحب کے خیال میں ان کی عزّت میں اضافہ ہوا جبکہ نعرے لگانے والوں کا خیال اس کے برعکس تھا۔٭ایس ایچ او ادریس پہلوان اپنے کوارٹر میں بیٹھا بار بار پہلو بدل رہاتھا کہ اس کا کارِ خاص جیدا حوالدار کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر ادریس پہلوان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ جیدے نے لفافہ ایس ایچ او کو دیتے ہوئے کہا ’’جناب مقتول کے والد نے کہا ہے سارے رنگڑ پرچے میں ڈال دو پیسے اور بھی دے دیں گے‘‘۔ ادریس پہلوان نے پیسے گن کر واپس لفافے میں ڈالتے ہوئے کہا یا ربّا شکر ہے تیرا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی پیسوں کا بندوبست کیسے ہوگا۔ قتل کا یہ کیس آگیا تو عزّت رہ گئی ہے ورنہ پَلّے کیا رہ جاتا؟ یاربّا بڑی عزّت رکھی آ‘‘۔ جیدے نے تفصیل جاننا چاہی تو ایس ایچ او نے بتایا ’’صاحب کا بیٹا باہر پڑھتا ہے نا‘‘۔ جیدے نے پوچھا،ڈپٹی صاحب کا؟ نہیں بھئی صاحب کا۔ یعنی ایس ایس پی صاحب کا بیٹا انگلینڈ میں پڑھتا ہے اس کی فیس بھیجنے کی کل آخری تاریخ ہے اور یہ کام صاحب نے میرے ذمّے لگایا تھا۔ پیسوں کا بندوبست نہ ہوتا تو صاحب کے سامنے کیا منہ لے کر جاتا۔ بڑی بے عزّتی ہوتی۔ شکُر ہے اﷲ نے عزّت رکھ لی ہے‘‘۔٭ملک صاحب ایک سرکاری محکمے کے اعلیٰ افسرتھے اوپر کی کمائی کے مواقع بھی بہت تھے اور ملک صاحب نے ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی تھی۔ پکڑے جانے کا انہیں کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ بے شمار افسران سے زیادہ لوٹ مارکررہے تھے اور انتہائی معزّز سمجھے جاتے تھے ان کے بچّوں کی شادیوں پر ملک کے وی وی آئی پیز سمیت ہزاروں لوگ آتے تھے ، لہٰذا ڈرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر کسی روز ایک طاقتور ادارے کے کسی افسر نے ملک صاحب کو کوئی سفارش کی جو اتفاق سے ملک صاحب نہ مان سکے ورنہ ملک صاحب نے کبھی ناں نہیں کی تھی۔ طاقتور ادارے کے افسر نے اسے اپنی توہین سمجھا کچھ عرصہ بعد وہ ایک اہم ادارے کا سربراہ بن گیا اور ملک صاحب کرپشن کیس میں دھر لئے گئے اور گرفتار ہوگئے۔ کیس بنانے والا انتقام لیناچاہتا تھا لیکن ملک صاحب کے خلاف کیس بالکل صحیح تھا۔ ملک صاحب نے چوٹی کا وکیل کیا۔ نچلی عدالتوں نے تو اتنے مشہور کیس کے ملزم کی ضمانت پر رہا کرنے کی ہمّت نہ کی مگر بڑی عدالت سے ان کی ضمانت ہوگئی۔ جیل سے نکلے تو عزیزوں اور دوستوں کا ایک ہجوم ان کا استقبال کرنے کیلئے پہنچا ہوا تھا۔ ملک صاحب کو پھولوں سے لاددیا گیا۔ دوستوں نے مبارکباددی تو ملک صاحب نے کہا کہ سرکاری وکیل نے تو بڑا زور لگایا تھا لیکن اﷲ عزّت دینے والا ہے۔ ایک بے تکلف دوست نے کہا ’’یارا تین مہینے میں ہی باہر آگئے ہو اﷲ نے بڑی عزّت دے دی۔ وکٹری کا نشان بنا کر بازوباہر نکالومیڈیا والے بھی آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑاشور مچایاہواتھا‘‘‘ اور پھر ملک صاحب نے انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا اور بازوباہر نکال کر فتح یابی کا اعلان کردیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر جیل ہی کے ایک پرانے سپاہی خیردین کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’لَخ لعنت اے تیرے تے شرم سے منہ نیچے رکھو۔ رشوت کے کیس میں ضمانت ہوئی ہے کوئی کشمیر فتح کرکے تو نہیں جارہے ہو!! ‘‘لیکن ملک صاحب ایسے تجزیہ نگاروں اور اینکروں سے بے نیاز تھے اور ’’عزّت‘‘ملنے پر بہت نازاں تھے___جو قوم ایسے ’’باعزّت‘‘افراد کو عزّت دے گی___دنیا میں اسے کون عزّت دے گا۔