پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے آبائی ضلع لاڑکانہ میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں ۔ لاڑکانہ کے گوٹھ علی آباد میں ہونے والے اس جلسہ عام پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں ۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ بعض حلقے عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کا سب سے مقبول رہنما قرار دے رہے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط قلعہ میں داخل ہو کر پیپلز پارٹی کو للکار رہے ہیں ۔ اسی جلسہ سے اس بات کا تعین ہو گا کہ تحریک انصاف سندھ میں مزید پیش قدمی کس طرح کرے گی ۔ اگرچہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ عمران خان لاڑکانہ میں لوگوں کی ایک متاثر کن تعداد جمع کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کو یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ لاڑکانہ ہے ۔ عمران خان کی طرف سے پیپلز پارٹی کے مضبوط سیاسی قلعہ پر حملہ آور ہونے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس قلعہ کو فتح کر سکیں گے اور اس کے بعد سندھ کے دیگر علاقوں میں پیش قدمی کر سکیںگے ؟ جلسے منعقد کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور خاص طور پر ان حالات میں ،جب پیپلز پارٹی سمیت بعض سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خوف سے جلسے منعقد نہ کر سکتی ہوں اور میدان خالی ہو لیکن سندھ میں سیاسی فتوحات کے لیے مضبوط نظریاتی ہتھیاروں سے لیس ہونا بہت ضروری ہے ، جو عمران خان کے پاس نہیں ہیں کیونکہ سندھ سیاسی طور پر بہت حساس صوبہ ہے ۔ آج جب لاڑکانہ میں عمران خان جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہوں گے تو انہیں ایک بات کا خاص طور پر شدت کے ساتھ احساس پیدا ہو گا ، جو کسی اور جگہ اتنی شدت کے ساتھ پیدا نہیں ہوا ہو گا ۔ وہ بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان میں کیا فرق ہے ؟ یہ لاڑکانہ کی سرزمین ہے ۔ لاڑکانہ کے جنوب میں 13 کلو میٹر کے فاصلے پر علی آباد میں عمران خان کا جلسہ ہے اور لاڑکانہ کے شمال میں تقریباً اتنے ہی فاصلے پر گڑھی خدا بخش ہے ، جو وادی سندھ کی مزاحمتی تحریک کا قلعہ ہے ۔ اسی لاڑکانہ کی سرزمین پر عمران خان کو تقریر کرتے ہوئے لفظوں کے انتخاب میںشاید پہلی مرتبہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنی تقریر میں کیا باتیں کریںگے ، جو سندھ کے لوگوں کو متاثر کر سکیں ۔ عمران خان کی پارٹی کے انتخابی منشور میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ منشور میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ملک میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنائے جائیں گے اور وہ تقریباً اپنی ہر تقریر میں یہ بات دہراتے بھی رہے ہیں ۔ سندھ کے لوگ ان دونوں ایشوز پر بہت حساس ہیں ۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں ان دونوں ایشوز پر اگر تسلی بخش وضاحت نہ کی تو ان کی باتیں سندھ کے لوگوں کو متاثر نہیں کر سکیں گی۔ اگلے روز سندھ اسمبلی نے عمران خان کے خلاف اتفاق رائے سے قرار داد منظور کی ہے ۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے سندھ کے عوام کو ’’ غلام ‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی توہین کی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کردہ اس قرار داد کی ایم کیو ایم ، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی حمایت کی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے لاڑکانہ میں جلسہ سے پہلے سندھ اسمبلی کی اس قرار داد کے کوئی سیاسی مقاصد ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے یہ غلط بات کی کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کو غلام بنا رکھا ہے اور وہ انہیں آزاد کرانے آ رہے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں یہی فرق ہے ، جو لاڑکانہ کی سرزمین پر زیادہ نمایاں ہو کر لوگوں کو نظر آئے گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے شعور پر مکمل ایمان رکھتے تھے اور وہ عوام کو ہی اپنا رہبر مانتے تھے ۔ وہ ہر علاقے کی تاریخی عظمت اور اعلیٰ اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کرتے تھے ۔ عمران خان آج تک یہی بات نہیں سمجھ سکے ۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی قومی اور عوامی جمہوری تحریک کا کبھی حصہ نہیں رہے ۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ سندھ سمیت پورے پاکستان کے عوام نے آمریت ، ظلم اور استحصال کے خلاف کس قدر مزاحمت کی اور کتنی قربانیاں دیں ۔چونکہ وہ ان تحریکوں کا کبھی حصہ نہیں رہے لہذا انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ نہ صرف سیاسی نظریات سے عاری ہیں بلکہ تعصبات یا مخصوص مائنڈ سیٹ کا شکار ہیں ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جب بھی سندھ میں آتے ہیں ، وہ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ ’’ میں سندھ کو ڈاکوئوں سے نجات دلاؤں گا ‘‘ ۔ وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے سندھ ڈاکوئوں کا ہی صوبہ ہے ۔ اب عمران خان نے یہ نیا نعرہ لگایا ہے کہ ’’میںسندھ کو غلامی سے نجات دلاؤں گا ‘‘ ۔ان لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ سندھ نے بڑے بڑے آمروں سے ٹکر لی اور جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ۔ غلامانہ ذہنیت کے لوگ ایسا نہیں کر سکتے ہیں ۔ سندھی ایک حریت پسند قوم ہے اور اس کی مزاحمت کی عظیم الشان تاریخ ہے ، جس کا اعادہ یہاں ممکن نہیں ہے ۔ عمران خان کو اگر یہ بات سمجھنی ہو تو صرف جلسہ سے پہلے دو باتوں پر ضرور غور کر لیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم اور انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے ان کی پارٹی کے منشور سے تحریک انصاف سندھ کے لوگ بھی متفق نہیں ہیں ۔