پاکستان تحریک انصاف نے لاڑکانہ میں بھی اپنا جلسہ کرنے کا شوق پورا کرلیا ہے ۔ تحریک انصاف کے لوگ اس جلسے کے انعقاد کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن وہ اس جلسے کے دوسرے پہلوؤں پربھی ضرورغور کر لیں ۔ لاڑکانہ سیاست کی درسگاہ ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو لاڑکانہ کے جلسے سے ہی کچھ سیکھنا چاہئے ۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ جلسے میں لوگوں کی متاثر کن تعداد موجود نہیں تھی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جلسے کے شرکاء اور جلسے کے مقررین کے درمیان اجنبیت موجود تھی۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے کسی بھی رہنما کی تقریروں کا لوگوں تک ابلاغ ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ لوگوں نے ان رہنماؤں کی تقریروں پر صرف اس وقت ردعمل ظاہرکیا ، جب شاہ محمود قریشی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان کے لئے عظیم خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس وقت مجمع میں زبردست تالیاں بجائی گئیں ۔ جلسے کے شرکاء نے اس وقت بھی زبردست ’’ رسپانس ‘‘ دیا ، جب عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت مقررین نے یہ کہا کہ سندھ کی مرضی کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا اور سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ بات کرکے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی پارٹی کے منشور کی خلاف ورزی کی ۔ انہوں نے محسوس کر لیا ہوگا کہ سندھ کے عوام کا سیاسی شعور بہت بلند ہے اور ان کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں ۔ جلسے کے شرکاء کے اجتماعی ردعمل سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور ان کے درمیان کوئی مضبوط سیاسی رشتہ نہیں تھا۔
سندھ کے عوام اپنے جوہر میں محبت کرنے والے اور پرامن لوگ ہیں لیکن وہ بہت حد تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی ہیں ۔ انہوں نے پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اوربہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ ان کا سیاسی شعور بہت پختہ اور بہت بلند ہے ۔ ان میں شناخت کا بحران نہیں ہے ۔ ان کی اجتماعی دانش کو ایک کسوٹی تصور کیا جا سکتا ہے۔سندھ کے لوگ جسے اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ سمجھتے ہیں، وہ ایجنٹ ہی ہوتا ہے اور وہ جسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتے ہیں، وہ واقعی بہادرہوتا ہے اور عوام کی توقعات پر پورا اترتا ہے۔ عمران خان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سندھ سمیت پاکستان کی مظلوم قومیتوں کو نہ توسمجھ سکے ہیں اور نہ ہی ان کے سیاسی شعور تک ان کی پہنچ ہے۔عمران خان نے لاڑکانہ کے جلسے سے پہلے بھی ایک غلط بات کہی تھی اور انتہائی افسوس ناک امریہ ہے کہ انہوں نے جلسے میں بھی یہ بات دہرائی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی آدمی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی اپروچ سیاسی ہے ۔ وہ صرف اس زعم میں ہیں کہ وہ جو بات کہتے ہیں ، اسی پر ڈٹے رہتے ہیں لیکن ڈٹے رہنے کی یہ عادت کرکٹ کے کھیل میں یا کسی کارپوریٹ کمپنی یا فوجی ادارے کی ملازمت میں تو اچھی بات تصورہوتی ہو گی لیکن سیاست میں یہ بہت بڑی خامی ہے ۔ لوگ اپنی توہین برداشت نہیں کرتے ہیں ۔ عمران خان نے جلسے سے پہلے یہ کہا تھا کہ سندھ کے لوگوں کو ’’ غلام ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ اس پر سندھ اسمبلی نے اتفاق رائے سے عمران خان کے خلاف تحریک مذمت منظور کی تھی ۔ اس تحریک مذمت میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سندھ کے لوگوں کو غلام کہہ کر ان کی توہین کی ہے۔ لاڑکانہ کے جلسے میں لوگ یہ توقع کررہے تھے کہ عمران خان اپنے اس بیان کی وضاحت کریں گے ،جس سے لوگوں کو اطمینان ہو گا ۔ عمران خان نے جلسے میں اس بیان کی وضاحت تو ضرور کی لیکن ’’ عذر گناہ بد تر از گناہ ‘‘ کے مصداق انہوں نے معاملات کو اور خراب کردیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی اس وضاحت پر سندھ میں بہت زیادہ ردعمل ہو گا ۔ عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مجھے فخر ہے کہ سندھ اسمبلی نے میرے خلاف قرار داد منظور کی۔ سندھ کے لوگوں کو حقوق نہیں دیئے گئے ۔ حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں ، غلاموں کے نہیں ۔ لہٰذا میں نے سندھ کے لوگوں کو غلام کہہ کر کوئی غلط بات نہیں کی ۔‘‘ یہ وضاحت انتہائی افسوس ناک ہے ۔ عمران خان نے پہلے سندھ کے لوگوں کو غلام قرار دیا اور بعد میں اپنی وضاحت میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ انسان بھی نہیں ہیں ۔ جو لیڈر اپنے آپ کو قومی لیڈر کہتا ہو اور تبدیلی کے لئے نکلا ہو ، اس کی زبان سے ایسے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں ۔ ویسے بھی عمران خان نے تو سیاست میں گالم گلوچ اور الزامات کی نئی روایات ڈالی ہیں ، جنہیں لوگوں میں پذیرائی نہیں ملے گی ۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے تو حد کردی ۔ انہوں نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایسی بات کہی ، جو یہاں نہیں لکھی جا سکتی ۔ اس پر سیاست دان ردعمل ظاہر کریں تو وہ مناسب ہو گا ۔ عمران خان کا لاڑکانہ کا جلسہ کسی بھی طرح کامیاب قرارنہیں دیا جا سکتا ۔ اس جلسے کے منفی اثرات ابھی ظاہر ہوں گے ۔ سندھ خصوصاً لاڑکانہ میں آنے کے لئے بہت زیادہ سیاسی شعور اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی تو پیپلز پارٹی میں رہے ہیں اور انہوں نے جمہوری جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں،انہیں تو اس طرح کی باتیں نہیں کرنا چاہئیں تھیں ۔ عمران خان کسی سیاسی جماعت میں نہیں رہے اور نہ ہی پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد میں شامل رہے ہیں ۔ ان کا کوئی سیاسی مطالعہ بھی نہیں ہے اور انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ سیاست میں زبان کون سی استعمال کی جاتی ہے ، شاہ محمود قریشی کو تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تھا ۔ لاڑکانہ کے جلسے سے انہیں سیاسی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ نقصان ہو گا ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو بہت پہلے سے یہ سمجھ گئی تھیں کہ عمران خان کی زبان سے سیاست دانوں کو گالیاں کیوں دلوائی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے بہت پہلے متنبہ کردیا تھا کہ بعض قوتیں پاکستان کے سیاست دانوں کو بدنام کر کے اپنے عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے بار بار اپیل کی تھی کہ سیاسی قوتوں کے خلاف اس مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ متحد ہوجائیں ۔ سندھ کے عوام نے رواداری میں کسی نہ کسی کے کہنے پر جلسہ میں شرکت ضرورکی لیکن وہ عمران خان کی باتوں سے لاتعلق نظر آئے ۔ عمران خان جن کو غلام کہتے ہیں ، ان کا سیاسی شعور بہت بلند ہے ۔