• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں جلسہ عام منعقد کرکےدکھا دیا ہے ۔جلسے میں لوگوں کی تعداد متاثر کن تھی۔ اس جلسے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ لاڑکانہ شہر سے باہرایک دیہی علاقے میں تھا،جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں تھی۔ وہاں جو لوگ بھی پہنچے، وہ جلسے میں شرکت کرنے کیلئے ہی گئے تھے ۔ جلسے میں شریک لوگوں کا تحریک انصاف کے رہنماؤں کی تقریروں پر ردعمل بھی اچھا تھا ۔ یہ تحریک انصاف کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ وہ صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جلسے کیوں منعقد کر رہی ہے ۔ لاڑکانہ میں جلسہ کے بعد اس اعتراض میں کوئی وزن نہیں رہا ۔لاڑکانہ کے جلسے سے عمران خان نے گزشتہ تین ماہ کے دوران ملک کے طول و عرض میں درجنوں انتہائی بڑے جلسے کئے اور ان کا ہر جلسہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا ۔
آج پاکستان کی سیاست ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے ، جہاں پاکستان اور پاکستانی قوم کو بڑے اہم فیصلے کرناہیں ۔ بد قسمتی سے پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ، جس میں سیاست اور جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد پاکستان بنانے والی مسلم لیگ کے ان رہنماؤں کو ایک ایک کرکے سیاست سےالگ کردیا گیاجنہوں نے تحریک آزادی میں اپنا تن،من، دھن قربان کردیا ۔ 1958ء سےپاکستانی قوم اپنے قائد کی تلاش میں ہے اگرچہ سیاسی قائدین بھی موجود تھے لیکن سیاسی خلاء بھی موجود تھا۔اس کی وجہ سے پاکستان میں کوئی متفقہ آئین نہ بن سکا ، ادارے قائم نہ ہو سکے اور یہ بھی تعین نہ ہو سکا کہ پاکستان میں کون سا نظام حکومت ہو گا ۔ ان حالات میں تقریباً ایک عشرے بعدپہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک قیادت ابھری، جس کے پاس ایک وژن تھا۔ بھٹو بہت پڑھے لکھے سیاست دان تھے۔ ان کی شخصیت کرشماتی تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کر سکتے تھے اور انہیں یہ فن بھی آتا تھا کہ لوگوں سے مکالمہ کس طرح کرنا ہے۔ انہیں شہید کر دیا گیا ۔ اس کے بعد پاکستان نے طویل ترین اور بدترین آمریت کا دور دیکھا۔ ضیاء الحق دور میں پاکستان ایک بار پھر پسماندہ اقوام کی صف میں چلا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کو اس صف سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن انہیں بھی شہید کر دیا گیا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد وہ سیاست دان سامنے آئے،جن کا نہ اس ملک کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی نے سیاسی قربانیاں دیں ۔ ہر چند کے حکومتیں بھی چلتی رہیں لیکن دسمبر 2007ء سے پیدا ہونے والا سیاسی خلاءآج تک موجود ہے لیکن سیاست کی جدلیاتی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ خلاء زیادہ دیر تک نہیں رہتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ آج جو سیاسی خلاء موجود ہے ، اسے کون پر کرتا ہے ۔ اس ملک کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں 1988ء سے اب تک کسی نہ کسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رہی ہیں لیکن انہوں نے کچھ ڈلیورنہیں کیا ہے ۔ جمہوریت مدت پوری کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عوام کو ڈلیور کرنے کا نام ہے۔ مئی 2008ء کے عام انتخابات میں تین اہم عوامل موجود تھے ۔ ایک تو جنرل پرویز مشرف کے خلاف لوگوں کا غصہ تھا اور دوسرا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے لوگ بہت غم زدہ تھے ۔ جمہوریت کیلئے جدوجہد میں لوگوں کی قربانیاں بھی تھیں ۔ انہیں عوامل کی وجہ سے دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ ملا لیکن سارے سیاست دان 2008ء کے بعد بننے والی حکومتوں میں پرکھے گئے ۔ انکے پاس نہ تو کوئی وژن تھا ، نہ ہی بدلتے ہوئے عالمی حالات کا ادراک تھا، انہوں نے نہ تو کوئی ڈلیوری کیا اور نہ ہی ان میں پاکستان کی خدمت کا جذبہ تھا۔کرپشن،اقربا پروری اور لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کئے گئے ، جن کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کردیا ۔
پچھلی دفعہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے کچھ ڈلیور کیا تھا ، اسلئے پنجاب کے ووٹ سے مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب کی حکومت ملی ۔ سندھ میں دیگر سیاسی جماعتوں کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی تیاری نہیں تھی صرف MQMکی تھی لیکن وہ شہری سندھ تک محدود تھی وہاں پھر اس کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ خیبر پختونخوا موجودہ صورت حال کو سمجھتے کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ 2002ء میں وہاں کے لوگوں نے علماء کرام کو ووٹ دیا ۔ وہ ڈلیور نہ کر سکے تو انہوں نے 2008ء کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کو اورپیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ۔ وہ بھی ڈلیور نہ کر سکی تو 2013ء کے عام انتخابات میں لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ اب اگر تحریک انصاف بھی ڈلیور نہ کر سکی تو خیبر پختونخوا کے عوام کا فیصلہ کچھ اور ہو گا۔
عوام کو جب بھی ووٹ دینے کا موقع ملا ، انہوں نے صحیح فیصلہ کیا ۔ انہوں نے دستیاب حالات میں ’’ کم تر برائی ‘‘ کا انتخاب کیا ۔ انہوں نے ایک ایک کرکے سب کو آزما لیا ہے ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنے قیام کے وقت سے 2013ء تک اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی مگر اس نے اپنی حکومتوں کے دوران عوام کی توقعات پوری نہیں کیں ۔ انکی ہر حکومت گورننس کے لحاظ سے بد سے بدتر رہی۔پیپلز پارٹی نے اپنا ’’ Perception ‘‘ بہتر کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) عوام میں جلسے نہیں کر سکتے۔ نواز حکومت تو ’’ نان اسٹارٹر ‘‘ ہے ۔ اس میں وقت پر کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔اگر وہ عمران خان کے مطالبے پر چار نشستوں پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا لیتی تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی ۔ آج کی صورت حال کیا ہے ، اسے سمجھنا چاہئے ۔ بر صغیر کی حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں سب سے زیادہ جگہ عمران خان کے لئے ہوتی ہے ۔ وہ کرشماتی شخصیت ہیں ۔ شوکت خانم اسپتال اور ڈی آئی خان کی یونیورسٹی انکی قائدانہ مینجمنٹ اور بے لوث خدمت کی مثالیں ہیں۔ وہ عوام کو اپنے گرد جمع بھی کر سکتے ہیں ۔ وہ ہمارے قومی ہیرو بھی رہے ہیں ۔ وہ اب سب سے زیادہ طاقت ور سیاسی شخصیت کے طور پر بھی ابھر رہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا اپنا ووٹ بینک ہے اورسندھ کے دیہی علاقوں میں کسی دوسری جماعت نے آنے کی کوشش نہیں کی ہے لیکن عمران خان نے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں دوسرے امکانات کے بارے میں سوچ پیداکر دی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ابتداء میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی اور تبدیلی کی علامت تھی اور پاکستان میں سیاسی اورمعاشرتی تبدیلی لائی ۔ بدقسمتی سے بھٹو کے بعد اس پارٹی کا جھکاؤ اسٹیبلشمنٹ کی طرف بڑھتا گیا ۔2007ءکے بعد تو پیپلز پارٹی نے مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی پر حکومت کی۔ مسلم لیگ (ن) بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی حامی رہی ہے۔ پاکستان کے لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنا چاہتے ہیں ۔ عمران خان تبدیلی کی علامت کے طور پر ابھر رہے ہیں اور انہوں نے یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑ سکتے ہیں ۔ وہ ایک متبادل لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آچکے ہیں اور تحریک انصاف تبدیلی کی علامت۔ لاڑکانہ کا جلسہ بہت بڑا اور اچھا جلسہ تھا۔ اس جلسہ میں انھوں نے ان تمام منفی باتوں کا جواب دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان کو سندھ کے لوگوں سے مخاطب ہونے کیلئے سندھ کو سمجھنا ہو گا ۔ سندھ کی سیاسی حرکیات بہت مختلف ہے ۔ اسکا تجزیہ کرنا ہوگا۔ سندھ کو بھی اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک قائد کی تلاش ہے۔آج بھی بھٹو اور بے نظیر شہید کا سیاسی ورثہ موجود ہے مگر اب اسکی وارث سندھی قوم ہے اور پاکستانی قوم ہے۔ بھٹو خاندان تبدیلی اور ’ اسٹیٹس کو ‘‘سے لڑنے کا نام ہے مفاہمت کے نام پر لوٹ مار‘ اقرباپروری اور سندھی قوم کو قومی مسائل سے دور رکھنے کا نام نہیں۔ عمران خان کو اپنے پروگرام میں سماجی اصلاحات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ ان کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں ان کی مخالفت میں ہیں ۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ پرانے زمانے میں دھول دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا تھا کہ دور سے آنے والا قافلہ کتنا بڑا ہے ۔ اس وقت تمام سیاسی لیڈر ناکام ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان حالات سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
تازہ ترین