ہم جسے کلائیمیکس سمجھتے ہیں وہ درا صل آغاز ہوتا ہے ۔کبھی کبھار اس آغاز تک پہنچنے میں اتنی تگ و دو کرنی پڑ جاتی ہے ،تھکن اتنی زیادہ ہو جاتی ہے ،مشکلات سے اتنا لڑ لیتے ہیں ،رکاوٹیں عبور کر کر کے سنبھلنے کی سکت ماند پڑ جاتی ہے ۔ارادے کو پختہ کرتے کرتے وہ عزم ختم ہوتا چلا جاتا ہے ۔جو حقیقی سفر میں کئی ہزار گنا زیادہ درکار ہوتا ہے ۔افسوس کہ اس راستے پر سفر کا آغاز کرتے وقت جو منزل کی جانب جاتا ہے عزم ،استقامت،حوصلہ ،جذبہ اور سب سے بڑھ کے صلاحیت اتنی کم ہوجاتی ہے کہ منزل دھندلی سی نظر آتی ہے اور پھر مکمل اندھیرا چھانے کا خدشہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے ۔ڈراموں فلموں کی ہیپی اینڈنگ میں لڑکا اور لڑکی مل تو جاتے ہیں دیکھنے والے خوش ہوجاتے ہیں کہ ان دونوں کی شادی ہو گئی لیکن اصل کہانی تو بعد میں شروع ہوتی ہے ۔مجھے چند دن پہلے ایک لڑکا اپنے والد کے ساتھ یونہی راستے میں ملا اس نے دو تین سال پہلے بی اے میں ٹاپ کیا تھا اسے گولڈ میڈل ،کیش انعام ملا ،بڑے بڑے چینلز میں اس پر پروگرام پیش کئے گئے وزیر اعلی پنجاب اس کے گھر گئے ،لیکن مجھے بے حد پریشانی ہوئی کہ اس کی خواہش تھی کہ اسے کوئی جاب مل جائے اس کے باپ کی التجائیں تھیں کہ کوئی ایسی نوکری ہی مل جائے جس سے یہ اپنا خرچ ہی پورا کرلے ۔اس نے بھی شاید آغاز کو کلائمیکس سمجھ لیا تھا ۔
عمران نے جتنی کوشش اس حکومت کو گرانے میں لگا دی ہے ۔دھرنا احتجاج کو تین ماہ سے زائد ہو گئے ۔دوسرے شہروں میں جلسے ایک سے ایک بڑھ کر ایک ہیں ۔کراچی ،لاہور ،میانوالی ،سرگودھا ،گجرات ،ملتا ن،ننکانہ جہاں بھی عمران جاتا ہے لوگ اسے سننے چلے آتے ہیں لوگ کئی مہینوں سے وہی باتیں سن رہے ہیں لیکن ہر جلسے میں وہ اس کی تقریر اتنے انہماک سے سنتے ہیں جیسے کوئی بریکنگ نیوز نشر ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کپتان کہیں تھک ہی نہ جائے ؟عمران نے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کیا ،اس نے کمزور پڑتے ارادوں کو پھر سے تقویت دی بار بار دی ۔وہ ٹوٹتے عزم کو پھر پختہ کرتا چلا جارہا ہے ۔
لیکن اہم یہ ہے کہ وہ ابھی آغاز کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ساری توانیاں جو اب تک استعمال ہو چکیں ۔اصلی سفر کے آغاز کو حاصل کرنے کے لئے ہیں ۔عمران کے بہت سے چاہنے والے جسے کلائمیکیس سمجھ بیٹھے ہیں وہ تو اس سفر کا آغاز ہے۔اس آغاز تک پہنچنے کے لئے اتنے مراحل طے کئے پتہ نہیں کتنے ابھی طے کرنا ہیں ۔گجرات میں چندے کی اپیل کی ۔اس سے پہلے جو لگا رہے تھے وہ تھک گئے ؟عمران میں بہت سی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں ۔اسے شاید بہت سے کمپرومائز کرنے پڑ رہے ہیں ۔کہیں وہ بھی روایتی سیاست دان بننے کی طرف تو نہیں بڑھ رہا ؟اس کے فالوورز میں بڑی تعداد تو انکی ہے جو اسٹیٹس کو کے خلاف ہیں ۔جو ملک میں اس تیسری قوت کو چاہتے ہیں جو پہلی دونوں سے بالکل مختلف ہو۔لیکن اگر عمران روایتی سیاست دان بن گیا تو اس کے چاہنے والوں میں کمی آجائے گی ۔آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ سیاست میں پانی کا بلبلہ ہیں ۔لیکن یہ سونامی ہے یا پانی کا بلبلہ اس کا انحصار خود عمران پر ہے ۔لوگوں نے ایک تحریک چلائی ۔عمران کے بہت سے چاہنے والے یہ کہتے ہیں کہ بہت لمبا ہو گیا اب بس کر دینا چاہئے ۔
لیکن دوسری طرف نواز شریف کے کچھ چاہنے والے بھی سمجھتے کہ صاف شفاف الیکشن ہو جائیں تو بھی نواز شریف کا شیر ہی جیتے گا ۔پٹر ولیم مصنوعات سستی ہوئیں چلیں سب نہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ عمران کی وجہ سے کم ہوئیں ۔حکومت نواز شریف کی ہو اور لوگ کریڈٹ دیں عمران کو۔۔یہ حکومت کو اچھا تو نہیں لگتا ہو گا ۔کوئی مانے یا نہ مانے عمران کے موقف میں جان ہے ۔اس نے دھاندلی کو ایشو بنا دیا ۔نواز شریف اگر مڈٹرم الیکشن کی طرف چلے جائیں اور جیت جائیں جس کے چانسسز بھی ہیں ۔تو ان کو پانچ کی بجائے ساڑھے سات سال کی ٹرم مل جائے گی ۔پھر اگلی باری آئے گی وہ جس کی بھی ہے اور اگلے پانچ سال ان کے لئے ویسے ہوں گے جیسے ان کی 97کے انتخابات کے بعد خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی اور اگر عمران جیت جائے تو وہ بھی مکمل تھکنے سے پہلے منزل کی طرف چلنا شروع کردے گا ۔سوچنا تو صرف پاکستان کا ہے ۔ایک بات طے ہے کہ عمران کا دھرنا اور جلسے ہار بھی جائیں نواز شریف کی جیت نہیں ہو گی کہ یہ تاثر جڑ پکڑ چکا کہ دھاندلی کا فیصلہ ضرور ہونا ہے ۔