میں نوجوانی میں باکسر ہوا کرتا تھا ’’فلائنگ ویٹ‘‘ 112 پائونڈ وزن میں کھیلتا تھا بلا کا پھرتیلا ڈویژن، ڈسٹرکٹ سے ہوتا ہوا ملکی سطح تک کھیلا تھا۔ میرا آخری مقابلہ پاکستان ’’کلر ہولڈر‘‘سے ہوا تھا۔ باکسنگ عجیب کھیل ہے۔ پریکٹس کے دوران بینچ پر بیٹھ کر مدمقابل سے مکے کھانا کوئی آسان کام ہے، میں چونکہ اپنے وزن میں اور ساتھی کھلاڑیوں میں ناقابل شکست کھلاڑی تھا اس لئے کوچ مجھ پر بھروسہ کرتا تھا وزن کم کرنا ہو تو بغیر نگرانی کے آزاد چھوڑ دیا کرتا تھا جس روز میرا پاکستان کلر ہولڈر سے مقابلہ تھا اس روز میرا وزن دو پائونڈ زیادہ تھا جوکم کرنے کیلئے اپنے کیمپ سے نکلا تو دریائے سندھ اٹک خورد کے قریب مُلاح منصور کی پہاڑیوں پرچڑھتا ہوا مغرب کی طرف جااتراسڑک پار کرکے، دریائے سندھ میں نہانے کے ارادے سے ڈھلوان میں اتر رہا تھا کہ قلعہ اٹک کے شمال مشرق میں جی ٹی روڈ کے قریب دریا کےساتھ چند چھوٹی چھوٹی اورایک قدرے بڑی قبر دیکھی جن پر محض دریائی پتھرڈھیرکیے ہوئےتھے۔بڑی قبر کے سرہانے ایک چراغ بھی پڑا تھا میں دریا میں اترنے کی بجائے قبروں کی طرف چلا گیا۔ فاتحہ پڑھی اورچار آنے کا سکہ چراغ والی قبر پر رکھ دیا جو کیمپ سے چلتے وقت ٹریک سوٹ کی جیب میں اس ارادے سے رکھ لیا تھا کہ راستے میںکسی چھپر ہوٹل پر چائے پی لوں گا۔ یہ 1968ء کی بات ہے ان دنوں چائے کاکپ چار آنے کا ہوا کرتا تھا۔ خیر جب میں قبر سے ہٹ کر جوگر پہننے لگا تو دیکھا وہی چونی میرے جوتے میں پڑی ہے تجسس بڑھا دوبارہ چونی جا کر مزار پر رکھی واپس آیا تو چونی پھر جوگر میں تھی۔ قریب قریب کوئی شخص تھا نہیں جس سے معلومات لیتا۔ تھوڑے فاصلے پرجی ٹی روڈ کسٹم والوں کی چیک پوسٹ کے قریب ایک ریستوران تھا وہاں جاکر چائے پی لوگوں سے اس قبر کے بارے میں معلومات لیں تو پتہ چلا اس خاندان کے کچھ لوگ ملاح منصور گائوں میں رہتے تھے وہاں پہنچا تو اتنا پتہ چل سکا کہ ان کا نام ’’جی بابا‘‘ ہے چار سو سال پہلے یہاں آئے تھے خیر اس روز میں اپنا وزن کم نہ کرسکا اور شام کو میڈیکل کے مرحلے سے گزرا تو وزن 2 پائونڈ زیادہ تھا۔ کوچ نے سزا یہ دی کہ مجھے فلائنگ ویٹ کی بجائے 118 Bantam Weight پائونڈ والے پاکستان کلر ہولڈر کے مقابلے میں رنگ میں اتار دیا یوں تیسرے رائونڈ میں مقابلہ ہار گیا پھر میں نے باکسنگ تو چھوڑ دی مگر جی بابا کی تلاش نہ چھوڑی۔ میںاگلے روز پشاور کے نزدیک چمکنی گائوں جا پہنچا جہاں ’’جی بابا کے خلیفہ محمد عمر چمکنی نقشبندی کا مزار ہے۔ یوں پھر مجھ میں تحقیق اور تلاش ابھری مطالعے کی طرف راغب ہوا نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کی توفیق ملی جی بابا کے بارے میں محمد عمر چمکنی کی کتاب خزینۃ الاسرار میں درج ہیں جس کا ایک نسخہ پشتو اکیڈمی کابل اور دوسرا پنجاب یونیورسٹی لاہور کسی لائبریری میں محفوظ ہے۔
حضرت جی بابا کا نام شیخ محمد یحیٰی تھا آپ کی ولادت 1631ء میں سرہند شریف ہندوستان میں ہوئی تھی ۔ والدکا نام پیرداد تھا۔ چغتائی مغل قبیلے سے تعلق تھا۔آپ کے اجداد ماوراءالنہر وسط ایشیاء سے ہجرت کرکے سرہند آبسے تھے۔ جی بابا نے ابتدائی چند برس اٹک میں صوفی محمدصالح کی مسجد میں گزارے پھر نقشبندی سلسلے میں حضرت شیخ سعدی لاہوری سے بیعت ہوئے۔ اٹک سے لاہور جب کبھی اپنے مرشد سے ملنے جلنے جایاکرتے تو پیدل جاتے ان کا وہ سفر 14 دنوںپر محیط ہوا کرتا تھا۔جی بابا نے ایک کتاب بھی لکھی تھی ’’کتاب المسائل‘‘ جس کا ایک نسخہ نوادرات اٹک میں محفوظ ہوا کرتا تھا۔ آج کل جی بابا کا بہت بڑا مزار ہے دومنزلہ وسیع مسجد بھی پشاور کی ایک مخیر شخصیت نے بنوا دی ہے۔ سالانہ عرس ہوتا ہے بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ پاکستان بھر سے لوگ آتے ہیں۔ اس میلے کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس میں کتابوں کا اسٹال بھی لگتا ہے، کتابیں چونکہ میری کمزوری ہیں اس بہانے جی بابا کے مزار پر حاضری بھی ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھار ایک آدھ ضرورت کی کتاب بھی مل جاتی ہے۔
میرے پاس دوستوں کی کتابیں بھی آئی ہوئی ہیں جن میں راولپنڈی میں قیام پذیر ملک کے معروف شاعر نسیم سحر کا مجموعہ کلام ’’ خواب سب سے الگ‘‘ اور نعت نگینے جبکہ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم جو ایف سی کالج لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیںجو نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی تازہ تنقید کی کتاب’’تعبیر حق‘‘ اور آزاد کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان جو ایڈیشنل آئی جی پنجاب بھی رہےجنھوں نے پیشہ وارنہ امتحانات کے لئے NIPA کورس بھی کیا اور امریکہ کی ممتاز درسگاہ ہاورڈ یونیورسٹی بھی گئے اور 1982ء میں سی ایس ایس کے مرحلے سے گزر کر پولیس گروپ میں ملازمت کا آغاز کیا تھا انہوں نے اپنی دو کتابیں بھیجی ہیں۔ Anti-Corruption اور Benevolent Policing نوجوان پولیس افسروں کے لئے یہ کتابیں انتہائی مفید اور چراغ راہ ہیں۔
’’سچ کا سفر‘‘ ہمارے محترم دوست فرخ سہیل گوئندی نے لاہور سے اسے شائع کیا ہے۔ انگریزی ایڈیشن بھارت سے Truth always prevails کے نام سے چھپا کتاب کے مصنف پاکستان کے ممتاز تاجر جنا ب صدر الدین ہاشوانی ہیں جنہیں گھر میں پیار سے صدرو کہا جاتا ہے۔ ہاشو گروپ کے صدر الدین ہاشوانی پاکستان میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کی چین کے مالک ہیں کاٹن کنگ بھی رہے رائس کنگ بھی کہلائے۔ گلی ڈنڈا بھی کھیلا اور فاسٹ بائولر بھی رہے۔ بچپن میں ماں نے جوتے پالش کرنے اور اپنے کپڑے خود استری کرنے کی جو تربیت دی تھی اس پر آج بھی کاربند ہیں۔ اپنے ہزاروں ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی اپنے جوتے پالش کرتے ہیں۔ والدہ کے نام سے زیور حسن ہاشوانی پانچ تاروں والا ایک ہوٹل گوادر میں اس لئے بنا دیا ہے کہ والدہ کا تعلق بلوچستان کے علاقے قلات سے تھا۔ گزشتہ سے پیوستہ اتوار اسلام آباد میں ’’سچ کا سفر‘‘ کی تعارفی تقریب تھی جہاں تاحدنظر جرنیل، دانشور، سیاستدان، تاجر اور ملکی اور غیر ملکی سفارت کار موجود تھے۔ سچ کا سفر پون صدی کی تاریخ ہے انکشافات ہیں قیام پاکستان سے نومبر 2014ء تک جو کچھ صدر الدین ہاشوانی کو یاد تھا کتاب میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ ہاشوانی صاحب کو گلہ ہے کہ وہ زیارت میں قائد اعظم کی ریزیڈنسی کو رضاکارانہ تعمیر کرانا چاہتے تھے۔ بیوروکریسی نے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی، ٹی وی چینل کے لئے درخواست دی منظور نہ ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی ساری انڈسٹری قومیالی تھی اور ضیاء الحق اپنے دور میں بھٹو سے ان کے مراسم کا کھوج لگاتے رہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ تھا، جنرل جہانگیر کرامت نے اپنے خطاب میں کہا تھا ہاشوانی ملکی تاریخ کے پوشیدہ گوشوں کے امین ہیں، سچ کا سفر پر سابق عالی مرتبت آصف علی زرداری نے ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا ہے، سچ کیا ہے ابھی سفر میں ہے۔
ہمارے ایک دوست جناب کرامت بخاری جو معروف شاعر قلمکار اور نقادہیں اور محکمہ آڈٹ اینڈ اکائونٹس میں 20 ویں گریڈمیں سالہا سال سے چلے آرہے ہیں ان کے جونیئر 22ویںگریڈ میں چلے گئے مگر دیانت وطن دوستی نے انہیں مسلسل سفر میں رکھا ہوا ہے ہمارے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
’’مجھ پر آپ سمیت دیگر لکھنے والوں نے بھی مہربانی فرمائی مگر ارباب اختیار کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مہربانی نہیں ہوئی۔ مجھے تین بار ترقی سے محروم رکھا گیا ایک سال میں آٹھ بار تبادلہ کیا ملتان لاہور، اسلام آباد اور کراچی، عدالت گیا فیصلہ حق میں ہوا مگر عمل درآمد نہ ہوا۔ وزیر اعظم اور صدر محترم سے اپیل کی جواب نہ آیا، 28 کالم نگاروں نے مجھ پر لکھا مگر پرنالہ ابھی وہیں ہے۔ 13 کتابوں کا مصنف ہوں بہاولپور یونیورسٹی، ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور علامہ اقبال یونیورسٹی نے مجھ پر پی ایچ ڈی، ایم فل اور ایم اے کے مقالات لکھوائے صاحب احساس ہوں، اپنے کام میں یکتا ہوں۔ محب وطن ہوں پھر کیا ہے کہ نظرانداز ہورہا ہوں کیا بطور OSD ہی ریٹائر کردیا جائوں گا؟ جناب کرامت بخاری کا قصہ بھی سچ ہے مگر سفر میں ہے بخاری صاحب کو فارسی سفر کے ساتھ ساتھ انگریزی والا Suffer بھی کرنا پڑ رہا ہے، کافی مہینے جب تنخواہ نہ دی گئی تو وہ ہائیکورٹ چلے گئے اس طرح کرکے وہ اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔