دلدوز مناظر کی ایک داستان تو تھر کے بدحال کسانوں، ہاریوں اور وہاں کے ان مفلوک الحال لوگوں کی ہے جنہیں ہر سال خشک سالی، قحط اور بھوک سے مرنے والے اپنے پالتو جانوروں اور بچوں کی لاشوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے والے ایسے لاکھوں، کروڑوں لوگ تیسری دنیا کے ملکوں میں رہتے ہیں لیکن’’ کچھ فرق تو ہے‘‘ تھر میں قحط اور اس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کے بارے میں وہاں کے حکمرانوں کا کہنا ہے کہ مخالفین الزام نہ لگایا کریں۔ شور نہ مچایا کریں ایسا ہر سال ہوتا ہے ہماری حکومت میں یہ کچھ نیا نہیں ہوا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور مٹھی میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے کئی کئی دنوں کے فاقوں اور بھوک و پیاس کے عالم میں نحیف بچوں کو جنم دینے والی مائیں اپنے بچوں کے رونے کی آوازبھی نہیں سن سکتیں حالانکہ یہ فطری بات ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی بچہ روتا ہے۔لیکن ان بچوں میں رونے کی سکت بھی نہیں ہوتی, ماں کے بطن میں غذا کی محرومی کے باعث ان بچوں کی ساخت اور چہرے کے نقوش بھی بدل جاتے ہیں،وہ خاموشی سے پیدا ہوتے ہیں اور خاموشی سے ہی مر جاتے ہیں اور ایک کہانی ہمارے پڑوسی ملک کی ہے ۔
ایک ایسے ملک کا وزیراعظم جو اپنی ابتدائی زندگی میں گھر کی کفالت کیلئے اپنے باپ کے ساتھ گائوں کے ریلوے ا سٹیشن پر چائے بیچا کرتا تھا۔ اس ملک کے ایک سابق کرکٹر اور رکن پارلیمنٹ نے اپنے ملک کے ایک ’’گائوں کو گود لے لیا ہے‘‘۔ جی ہاں پورے گائوں کو ۔یہ گائوں جو آندھرا پردیش کے ضلع بنگلور میں واقع ہے اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے اسکول اور اسپتال تو دور کی بات گھروں میں باورچی خانہ اور بیت الخلاء بھی نہیں ہے۔ یہ کہانی بھارتی اسٹار بیٹسمین سچن ٹنڈولکر کی ہے جنہوں نے کرکٹ سے نام بنایا اور اتنے ریکارڈ بنائے، اعزاز حاصل کئے جن کی کوئی کرکٹر خواہش ہی کرسکتا ہے۔ یا پھر خواب دیکھ سکتا ہے ایک سال قبل نومبر 2013ء میں کرکٹ سے سنیاس لینے کے بعد انہوں نے اپنی زیادہ توجہ راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے بے وسیلہ لوگوں کے اجتماعی سدھار اور ان کی مشکلیں ختم کرنے پر صرف کرنی شروع کردیں۔ راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے سچن ٹنڈولکر نے اس کام کا بیڑا اس انداز سے اٹھایا کہ مختلف گائوں، دیہات اور آبادیوں میں تھوڑی تھوڑی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت سے ملنے والے تمام ترقیاتی فنڈ اور پوری توجہ ایک گائوں پر صرف کر کے اسے مثالی بنا دیا جائے انہوں نے اس کام کا آغاز بھی قدرے مختلف انداز میں کیا۔ برسہا برس سے اپنے آبائو اجداد کے طور طریقے اپنائے ہوئے گائوں کے لوگوں کو جنہیں شراب اور تمباکو کی لت ورثے میں ملی تھی ان سے اپیل کی کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اس لعنت سے چھٹکارا پالیں بصورت دیگر سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے اس گائوں کے لوگوں سے کہا کہ میں نے بھارت کیلئے کرکٹ کھیلی، آپ لوگوں نے میرے لئے دعائیں کی ہیں اب میں آپ کا شکریہ آپ کے گائوں میں آپ کے لئے آسانیاں پیدا کر کے کروں گا۔ سچن ٹنڈولکر نے بھاری بجٹ کی ترقیاتی اسکیموں کا سنگ بنیاد رکھ کر گائوں کو گود لینے کیلئے آستینیں چڑھا لی ہیں،بس یہی فرق ہے کہ ایک طرف مٹھی کی سینکڑوں عورتوں کی گودیں ماں بننے کے بعد بھی خالی ہیں اور دوسری طرف کرکٹ کے ایک ہیرو اور راجیہ سبھا کے رکن نے پورے گائوں کو گود لے لیا ہے۔
اگر بات موازنے کی ہو تو ہم کسی بھی اچھے اور بڑے کام کرنے والے شخص کی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے پہلے اس کا رنگ ونسل مذہب عقیدہ اور حسب نسب دیکھتے ہیں پھر اس میں سےکسی بات کو بھی جواز بناکر اسے اس کی صلاحیتوں اور برتری کو محض اس لئے مسترد کردیتے ہیں کہ ہم میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنے کی جرأت نہیں ہوتی حسداوررشک کے جذبے میں بھی فرق ہوتا۔ حسد دوسرے کو ناکام دیکھنے کی خواہش اور ناکام کرنے کی کوشش کا نام ہے.... اور رشک دوسروں کی کامیابیوں اور کاوشوں کا اعتراف کرکے اس سے سیکھنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور سبقت لیجانے کی مثبت کوششوں کا۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسے مثبت کرداروں اور ہیروز کی کمی ہے شہروں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گائوں، قصبوں اور دیہاتوں میں ایسا ایسا گوہر نایاب موجود ہے۔ ایثار و قربانی کے جذبے کے ایسے ایسے پیکر،جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے ماسٹر ایوب جو اپنی سرکاری ملازمت سے فارغ ہو کر اسلام آباد کے ایک پارک میں ان بچوں کا اسکول سجاتے ہیں جو کوڑا چنتے ہیں۔ ٹریفک سگنلوں پر پھول اور مختلف قسم کی اشیا فروخت کرتے ہیں۔ ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے سرکاری پارک میں یہ خدمات 28سال سے انجام دے رہے ہیں کسی ستائش اور صلے کی تمنا کئے بغیر بلکہ اپنی تنخواہ سے بچوں کو کتابیں بھی لا کردیتے ہیں۔ ٹھٹھہ کی وہ دیہاتی عورتیں جو شمسی توانائی سے تیار کئے جانے والے لیمپ فروخت کر کے اپنے گائوں کو روشن کر رہی ہیں، حیدر آباد کی مون پرکاش جو سندھ کے ایک پسماندہ گائوں جھڈو مری میں جہاں سرے سے اسکول ہی نہیں ہے علم کی روشنی سے بچوں کے ذہن منور کرنے کے لئے کمر بستہ ہے۔ چترال کا نوجوان شاہ زمان اپنے علاقے کے ان معصوم بچوں کو جنہیں ان کے والدین بھی پڑھائی سے دور رکھنا چاہتے ہیں انہیں ڈھونڈ کر علم کی اہمیت سے آگاہ کررہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کرداروں کی کمی نہیں لیکن کچھ تو ایسے ہیں جو خاموشی سے عبادت کے انداز میں یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی جو حکومتی اداروں اور میڈیا کی توجہ کے مستحق ہیں لیکن ان تک رسائی نہیں حاصل کر پاتے۔
کراچی کے علاقے خدا کی بستی میں پروین نامی ایک خاتون ہیں جو وہاں کے لوگوں کو پانچ یا سات روپے میں کھانا فراہم کرتی ہیں اور اتنا سستا کھانا فراہم کرنے کے لئے انہیں سارے سامان کی خریداری سے اس کے مستحق لوگوں تک رسائی کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے ہوتے ہوں گے یہ وہ خود ہی جانتی ہوں گی وگرنہ ہوٹلوں میں تو اب سات روپے میں چائے کا کپ بھی نہیں ملتا۔ایک اوربھی خاتون تھیں شاید ان کا نام بھی پروین ہی تھا اور ان کا مشن بھی ایسے بچوں کو پڑھانا تھا جن کے والدین کے پاس بچوں کوپڑھانا تو دور کی بات انہیں پیٹ بھر کے کھلانے کے لئے بھی وسائل نہیں تھے۔ دونوں خواتین سے شناسائی کافی عرصہ قبل میڈیا کے حوالے سے ہی ہوئی تھی نجانے ان کا یہ مشن ابھی جاری ہے یا نہیں۔ بچوں کے عالمی دن کے موقعہ پر دنیا بھر میں تقاریب ہوئیں جن میں اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان سے متعلق امور کی آگہی پیدا کرنے کے حوالے سے شاندار اور انتہائی بامقصد تقاریر ہوئیں۔ بچوں کی پرورش تربیت اور ان کی جسمانی ونفسیاتی صحت کے بارے میں زبردست مقالے پڑھے گئے۔ اس طرح کی تقاریب 20نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے موقعہ پر پوری دنیا میں منائی جاتی ہیں۔ لیکن 20 نومبر کو ہی پاکستان میں تھر کے علاقے مٹھی میں تو پانچ بچے پیدا ہوتے ہی مر گئے تھے اور قحط سے مطلوبہ غذائی کمی کے باعث مرنے والے بچوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہوگئی تھی اور20نومبر کو ہی سرگودھا کے ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال میں مزید چار نومولود دم توڑ گئے تھے اس طرح وہاں مرنے والے نومولود بچوں کی تعداد 12ہوگئی تھی ان بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ اموات انکو بیٹروں میں کمی کے باعث ہوئی کیونکہ اسپتال میں نومولود بچوں کی تعداد 60تھی اور انکو بیٹروں کی تعداد صرف پانچ تھی اورسرگودھا میں یہ زچگی کے لئے واحد اسپتال تھا۔اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایسی کئی خبریں شامل تھیں جن میں بچوں سے جبری مشقت لئے جانے کی خبروں سے لیکر ان سے جنسی زیادتی کے واقعات بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ ہونے والی جبر، ناانصافیوں کے دل دہلادینے والی داستانیں تھی۔ 20نومبر تو سال میں ایک دن آتا ہے جب بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن وطن عزیز میں المیوں اور سانحات کے دن تو روز ہی منائے جاتے ہیں، اور نجانے کب تک منائے جاتے رہیں گے۔