• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موخذاہ ہونے سے ایک دن پہلے امریکی صدر نکسن نے کہا کہ ’’میں نے خود کو نیچے گرالیا تھا ۔ اب استعفیٰ دے کر میں خود ہی اپنا موخذاہ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ایک کال گرل سے تعلق ثابت ہونے پر برطانوی جنگی امور کے وزیر بریگیڈ ئیر جان پرفیو مو سیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے ۔کلنٹن نے ایک جھوٹ بولا ،صدارت تو بچ گئی مگر جرمانہ بھی ہوا اور وکالت کا لائسنس بھی جاتا رہا۔پارٹی میں اختلافات زیادہ ہوئے تو آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر نے وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی صدارت بھی چھوڑ دی۔بیرون ملک فوجی تعیناتیوں کے حوالے سے ایک غلط بیان پر جرمنی کے صدر ہورسٹ کولر کو صدارت چھوڑناپڑی۔ ضابطے کی کچھ بے قاعدگیوں پر فرانس کے صدر یارک شیراک کو سزا ہو گئی ۔چند اطلاعات اور معلومات غلط ثابت ہونے پر سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے استعفیٰ دیدیا۔کویتی وزیراعظم شیخ ناہ الحمد نے کرپشن کے الزامات لگنے پر کابینہ سمیت اقتدار چھوڑ دیا اور جاپانی وزیراعظم کاؤٹوکن صرف اس وجہ سے مستعفی ہوگئے کہ سونامی اور جوہری حادثے پر وہ بروقت اقدامات نہیں اٹھا سکے ۔اب اپنے ہاں دیکھ لیں۔ بلوچستان اورکراچی میں آئے روز ہوتے قتل ِعام پر آج تک نہ توکسی بڑے کو سزا ہوئی اور نہ کسی نے عہدہ چھوڑا۔چولستان میں پانی کو مخلوقِ خدا ترستی رہی اور تھر میں آج بھی بچے بھوکے مر رہے ہیں مگر نہ تو کوئی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ کوئی پکڑا جاسکا۔تین سالوں میں تین سیلاب ،ہزاروں ڈوب گئے مگر ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ کس کی پلاننگ ناقص تھی اور کون بروقت اقدامات نہ کرسکا۔ دن دہاڑے ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے 14لوگ مار دیئے ،وزیراعظم ہاؤس سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر 3لوگ قتل ہوگئے مگر کہیں سے بھی کوئی استعفیٰ نہ آیا۔اوپر سے نیچے تک کیسے کیسے جھوٹ بولے جاچکے مگر کوئی ایک بھی نہ پکڑا گیا۔فرائض میں غفلت، اختیارات کا ناجائز استعمال، قانون شکنی اور کرپشن ،یہ سب کرکے بھی سب کے سب بچ نکلتے ہیں ۔ نہ سزا کا ڈر نہ جیل جانے کا خطرہ ۔ جمہوریت ہونی چاہئے ،مگر ایسی استحصالی جمہوریت نہیں،جمہوریت رہنی چاہئے مگر بانجھ جمہوریت نہیں ، مجھے بھی جمہوریت چاہئے مگر وہ جمہوریت نہیں جو بڑوں کیلئے ڈھال بنی رہے اور جسے 98فیصد عوام سےکوئی سروکار نہ ہو ، وہ جمہوریت نہیں کہ جس میں قربانی کا بکرا ہمیشہ غریبوں کو ہی بننا پڑے، وہ جمہوریت نہیں کہ جس میں عام آدمی کیلئےکفن دفن بھی پہنچ سے باہر ہو جائے اور وہ جمہوریت نہیں کہ جس میں گزشتہ 67سالوں سے روٹی،کپڑا اورمکان میں ہی پھنسی یہ قوم اگلے 67سال بھی ترقی وخوشحالی کے اسی زیروپوائنٹ پر بھٹکتی رہے ۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں دو فیصد طبقہ تو روزانہ صبح وشام اپنی توندیں کم کرنے کیلئے نکلتا ہے جبکہ 98فیصد لوگ سارا سارا دن خوار ہو کر بھی اپنا اور ا پنے بچوں کا پیٹ ہی نہیں بھرپاتے ۔ مرَے بغیر جنت جانے کے ہم سب خواہشمندوں، کچھ کئے بنا جنت میں رسولﷺ کا پڑوس چاہنے والوں اور وہ جن کے گزشتہ 6دہائیوں سے پیٹ بھرے اور نہ آنکھیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ’’ رسولﷺ خدا کے اس دنیا سے رحلت فرمانے سے ایک دن پہلے جب اپنے غلام آزاد کر دیئے ،اپنے ہتھیار ہبہ فرماچکے اور اپنی کل جمع پونجی سات دینار صدقہ کر چکے تو اُس وقت آپﷺ کے گھر کی حالت یہ تھی کہ شام کو چراغ چلانے کیلئے حضرت عائشہؓ نے تیل پڑوسن سے ادھار لیا اور آپﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس 75کلو جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی‘‘۔ اور پھر ان سب کیلئے جن کی جائیدادیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، جنہوں نے اپنی دولت کے حساب کتاب کیلئے کمپنیاں بنا رکھی ہیں اور ماہانہ لاکھوں اور کروڑوں میں پڑ جانے والے سب وزیروں،مشیروں اور بیوروکریٹس کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلفیہ بننے کے بعد اپنی تنخواہ کے حوالے سے فرمایا ’’مدینہ میں ایک مزدور کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ہے اتنی ہی میری تنخواہ مقرر کر دی جائے۔ایک صحابی بولے ’’اس میں آپؓ کا گزارہ کیسے ہوگا ‘‘۔ آپ ؓ نے کہا ۔’’میرا گزارہ اُسی طرح ہوگا جس طرح مزدور کا ہوتا ہے اوراگر میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی اجرت بڑھا دوں گا‘‘ ۔ زیادہ دور نہ جائیں پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی اقتدار میں آنے سے پہلے اور وزارت عظمی چھوڑنے کے بعد بسوں پر سفر کرتے ،عام اور سستے ہوٹلوں میں رہتے اور ریڑھیوں سے کھانا کھاتے ۔وزارت عظمیٰ سے استعفے کے بعد جب وزیراعظم ہاؤس سے نکلے تو مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ ان کا سامان کہاں بھجوایا جائے کیونکہ (اس وقت کے دارالحکومت) پورے کراچی میں ان کا اپنا کوئی ٹھکانہ تک نہیں تھا ۔آخر ان کا سامان ان کے ایک دوست کے گھر بھجوادیا گیا۔پھر جب وہ بیروت میں فوت ہوئے تو لواحقین کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ان کی میت منگوائی جاسکے۔امیر ہونا کوئی بری بات نہیں اور دولتمندوں کا سیاست کرنا کوئی برائی نہیں ۔میں تو صرف آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آج بسوں میں سفر کرنے ،عام ہوٹلوں میں رہنے اور ریڑھیوں سے کھانا کھانے والا کوئی شخص وزیراعظم یا وزیر چھوڑیں صرف قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی بن سکتا ہے۔اگر آپ بھی میری طرح یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر خدا کیلئے باہر نکلیں ۔اپنے ملک کیلئے ،اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے کچھ کرلیں۔آپ کو عمران خان کا چہرہ پسند نہیں۔ آپ اُس کی سیاست سے متفق نہیں ،آپ کو اُس کے طریقہ کار سے اختلاف ہے تو کوئی بات نہیں،آپ اپنے ملک کیلئے ،اپنے غریبوں اور محروموں کیلئے اوراپنے بچوں کیلئے اُس کا ساتھ دیں ۔آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی اولاد بھی بلاول ،مونس اور حمزہ جیسی محفوظ اور خوشحال زندگی بسر کرے۔یہ ملک آپ کا بھی اتنا ہی ہے کہ جتنا ان کا ہے ۔آج اپنی سیاست داؤ پر لگا کر اور پرآسائش زندگی چھوڑ کر مارا مارا پھرتا کپتان غلط نہیں کہتا کہ’’ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے بڑی ہوتی ہے‘‘ ۔غلام کبھی بڑا کام نہیں کر سکتا، اگر انسان ہار نہ مانے تو کچھ بھی ناممکن نہیں، سچ کا ساتھ دو ،مَیں مَیں کا بت توڑو اور اپنے خوف پر قابو پاؤ‘‘۔ یقین جانیے ان حالات اور اس ماحول میں یہ کپتان ہی ہے جو ابھی تک کھڑا ہوا ہے ،بول رہا ہے ورنہ کوئی اورہوتا تو یا توکب کا خرید لیا جاتا یاڈرادھمکا کر بھگا دیا جاتا ۔ اپنی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر آگے بڑھیں اور اس نظام کو بہتر بنائیں ورنہ میرے اور آپ کے بچے گھٹ گھٹ کر مر جائیں گے اور اگر آپ کی پسند ناپسند آپ کو کپتان کا ساتھ دینے سے روکتی ہے تو جہاں ہیں ،وہیں رہ کر اپنا کردار ادا کریں یہ وقت گھر بیٹھنے اور خالی تبصرے کرنے کا نہیں ہے کیونکہ سفر کٹھن اور طویل ہے جبکہ منزل دور ۔ ایک بار سلطان محمود غزنوی نے اپنے چہیتے غلام ایاز سے کہا کہ کوئی ایسا جملہ سناؤ جو اگر میں خوشی میں بولوں تو اداس ہو جاؤں اور اگر غم میں سوچوں تو خوش ہو جاؤں ۔ایاز بولا ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا ‘‘ آج اقتدار اور اختیار کے گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ، تلوار سے تیز زبانوں والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئےکہ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا ‘‘ ہر شام کنٹینر پر مغز کھپائی کرتے ،طرح طرح کے الزامات سہتے اور اپنوں کے چھوڑ جانے کی خبریں سنتے عمران خان کیلئے بھی ہمت نہیں ہارنی ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔ اور عذاب در عذاب سہتی قوم کیلئے بھی کہ مایوس نہیں ہونا۔’’یہ وقت بھی گزر جائیگا‘‘۔
تازہ ترین