امریکی وزیر دفاع چک ہیگل سے داعش سے نمٹنے کی ناکامی کی پاداش میں استعفیٰ لے لیا گیا ہے جلد ہی انہیں پینٹاگان کی سربراہی سے بھی سبکدوش کردیا جائیگا ۔لاہور میں نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر داعش کے پمفلٹس کی تقسیم کی خبریں بھی آئی ہیں جس کے سربراہ ابوبکر بغدادی امریکی ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے مگر جانبر ہوگئے۔ وہ شام و عراق سے آگے ساری مسلم دنیا کی خلافت کے مدعی بن بیٹھے ہیں اور انہوں نے خلافت کے 7 سکوں کے اجراء کا اعلان بھی کردیا ہے جن میں سے 2 سونے کے3 چاندی کےاور2تانبے کے ہوں گے۔ ایجنسیوں کی اطلاع کے مطابق پاکستان میں بھی داعش کی بھرتی جاری ہے، تعداد کی اطلاعات متضاد ہیں۔ برما بنگلہ دیش بھارتی مسلمانوں کی بھی شمولیت کی اطلاعات ہیں۔ القائدہ آئی ایس کی پیش رو ہے یا نہیں مگر نظریاتی طور پردونوں میں یکسانیت ہے ۔ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف دونوں لڑتی رہی ہیں مگر اپنی اپنی شناخت اور امتیاز کے ساتھ ۔ ان دونوں کے مقاصد کیا ہیں؟
بظاہر تو مغرب کی مخالفت ہے مگرخبریوں،تھنکرز اور تجزیہ نگاروں کی ایک بہت بڑی تعداد جو گہرائی میں دیکھنے کی اہلیت اورصلاحیت رکھتی ہے کا کتھارسس ہے آئی ایس مغرب کا برین چائلڈ ہے۔ 2003میں سی آئی اے کی ہدایت پر ایم 6 نے اس بچے کی تنظیمی منصوبہ بندی اور پرورش کی۔ تنظیم کا مقصد سیال سونے سے بھرپور صحرا پر گرفت مضبوط کرنا ،اسرائیل کی توسیع پسندی کو تحفظ فراہم کرنا، عراق شام کی تقسیم اور مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ کھینچنا ہے۔ امریکہ کی جوائنٹ اسپیشل آپریشن یونیورسٹی نے اپنے مطالعاتی مقالے میں لکھا ہے امریکہ اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی بجائے دشمنوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور مشرق وسطیٰ میں دشمن کو دشمن سے لڑانے کا دلچسپ کھیل کھیل رہا ہے۔ فرانس کے سابق وزیر خارجہ رولینڈ ڈیو مسکس نے بھی تصدیق کی ہے کہ برطانیہ نے شام میں مداخلت کیلئے منصوبہ سازی کی تھی ۔ 2011میں مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی تبدیلی کی لہر جس کی رو میں حسنی مبارک سمیت بہت سے صدور بہہ گئے بشار الاسدکے مخالفین کو بھی امید پیدا ہوئی۔ برطانیہ جو پہلے ہی پلاننگ کرچکا تھا امریکہ سے مل کر SFA جو شامی صدر کے فوجی مخالفین پر مشتمل ہے کی پشت پناہی شروع کردی ۔ایس ایف اے میں اکثریت ان فوجیوں کی ہے جس کی کمان بریگیڈیئر جنرل عبدا للہ البشیرکررہے ہیں۔ برطانوی پلان کے مطابق صدام کی افواج کی جو امریکی افواج کے مقابلے میں منتشرہوگئی تھیں 250سے400 ڈالر تک بھرتی،تربیت کے بعد انہیں مجاہدین کے نام سےشامی صدر کے خلاف اتارا گیا۔ القاعدہ بھی النصر کے نام سے بشار الاسد کے خلاف میدان میں تھی اور کرد بھی ۔ اسلامی مجاہدین کی نئی شناخت آئی ایس ہے جس کے سربراہ ابوبکر بغدادی ہیں۔ روس نے شامی صدر کی حمایت میں جب واضح موقف اختیارکیا توامریکہ نے کیمیکل ہتھیاروں کے خاتمے کی شرط پر شامی صدر کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا وعدہ کرلیا۔ بدلتے حالات کے مطابق امریکہ نے اپنے مغربی دوستوں سے مل کر پلانB پر عمل درآمد شروع کردیا۔ آئی ایس نے شامی علاقوں،ریفائنریوں،بجلی گھروں اور دیگر قیمتی نوادارت پر قبضے کے بعد ملحقہ عراقی شہر موصل پر قبضہ کر لیا ۔عراقی افواج 4 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑکر بھاگ کھڑی ہوئیں اور آئی ایس نے عراق کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا جس میں ریفائینریاں بھی شامل تھیں جو عراقی فوج نے اب واپس لے لی ہیں۔اس وقت داعش کے قبضے میں برطانیہ کے برابر شام اور عراق کاعلاقہ ہے اوراب جنگ کردوں اور ابوبکر بغدادی کے درمیان ہے۔ شامی شہر کوبانی کا ایک ماہ سے ابوبکر بغدادی کی افواج نے محاصرہ کررکھا ہے ،نصف کوبانی ان کے قبضے میں اورنصف کردوں کے، امریکی فضائی حملوں کی وجہ سے بغدادی کے لڑاکا دستوں کےلئے مزید بڑھنا مشکل ہے۔ کوبانی پر قبضے سے داعش کی سرحدیں ترکی سے مل جاتی ہیں جو مبینہ طور پراس کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے ۔ آئی ایس کی تیل سمیت ساری غیر قانونی تجارت مبینہ طورپر ترکی کے راستے ہورہی ہےتنظیم سازی کرنا آسان ہوتا ہے مگر تنظیم کو مقاصد کے حصول تک کنٹرول میں رکھنا مشکل ترین۔افغانستان میں سی آئی اے نے سوویت یونین کے خلاف شمالی اتحاد کے نام سے تنظیم بنائی تھی مگر روسی افواج کی واپسی کے بعد یہ تنظیم امریکیوں کے کنٹرول میں نہیں رہی تھی ۔ ممکن ہے ابو بکر بغدادی کا ریاست ،خلافت اور سیلف فنانس کا دعویٰ شمالی اتحاد والی بغاوت ہو مگر مغرب نے اب بہت کچھ سیکھ رکھا ہے وہ کسی کو بھی کنٹرول سے باہر نہیں جانے دیں گے۔ امریکی آرمی چیف نے بغداد کا دورہ کیا واپسی پرانہوں نے سینیٹ کو عراق میں 80000 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا پلان پیش کیا ہے۔
کرد چیف آف اسٹاف نے بھی امریکی وزیرخارجہ کو بریف کیا ہے فضائی حملے اس وقت تک کامیاب نہیں ہونگے جب تک انہیں مضبوط زمینی افواج کا تعاون حاصل نہ ہو۔ کرد چیف کامقصد تو تھا کردوں کومضبوط کیا جائے مگر امریکہ اب کسی بھی گروپ کو خاص حد سے زیادہ مسلح نہیں کرے گا کیوں کہ خدشہ ہے کل یہی گروپ مغرب کے مقاصد میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرسکتا ہے ۔ امریکہ اپنی افواج کے ذریعے متحارب گروہوں کو میدان جنگ تک محدود رکھے گا اوربھیڑوں کےکمزور ہوکر بھیڑیئے کے پائوں میں گرنے کا انتظار کرے گا۔ خبریں یہ ہیں کہ ایران نے ا پنی افواج بھی بھیجی ہیں اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا بھی میدان میں کود گئی ہے۔ جنگ میں شمولیت سے ایران کی معیشت بھی کمزور ہو گی جو امریکی تعاون سے بہتر ہوئی ہے اورعسکری قوت بھی متاثر ہوگی ۔ ایران عراق شام میں مداخلت کریگا تو اس سے ایران کی حکومت غیرمستحکم ہو گی جو مغرب کے اوّلین مقاصد میں ہے ۔ ایران کا اب تیل تو بکے گا مگر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگ کی نذر ہو جائیگی۔ کرد اورآئی ایس کے زیر قبضہ ریفائنریوں کا تیل مبینہ طور پر ترکی کے راستے اسمگل ہورہا ہےجس کا سب سے بڑا مبینہ خریدار امریکہ ہے۔ ایرانی تیل کے مارکیٹ میں آنے سے تیل مزید سستا ہو گا جس کا فائدہ مغرب کو ہو گا ۔ جب متحارب فریق تھک جائیں گے تو پلان بی کے آخری حصے پر عمل درآمد کرتے ہوئے عراق شام اور ترکی کی تقسیم کی جائیگی۔ عراق کو شیعہ اور سنی عراق کے علاوہ کردستان میں تقسیم کیا جائے گا شام کے سنی علاقے جو سیریافری آرمی ، القاعدہ اور آئی ایس کے زیر قبضہ ہیں پر مشتمل نیا شام بنایا جاسکتا ہے ۔ ترکی شام اور عراق کے کرد علاقوں پر مشتمل کردستان بنا کر کردوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا جائے گا جس کے راستے میں تا حال ترکی حائل ہے۔ صدر بشارالاسد کے زیر حکومت 40%علاقے پر مشتمل شام اسرائیل کیلئے دھمکی نہیں رہے گا اور پیوٹن بھی ناراض نہیں ہوں گے۔ ترکی کو کردوں کو علاقہ بھی دیناہو گا اوراسد کی صدارت کو بھی قبول کرنا ہو گا۔ ایران پاکستان اختلافات کی بنیاد ڈالی جا چکی ہے جنہیں وسعت دی جائیگی ۔ایران مبینہ طورپر بھارت کیساتھ مل کر طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ بنے گا تیاری مکمل ہے ۔2015میں سردی ختم ہوتے ہی طالبان پہاڑوں سے نکل کر کابل کا رُخ کریں گے۔ خانہ جنگی ہو گی طالبان کے خلاف افغان افواج کی کمان بھارت کرے گا۔ امریکہ کے دس ہزار فوجی بھارت کی نگرانی کریں گے۔ پاکستان کو افغانستان میں نہ چاہتے ہوئے بھی پراکسی وار لڑنا ہو گی ۔ متحارب فریقوں میں سے کسی کی بھی فتح ہو وہ پاکستان کو پسند نہیں کرے گا مگر مجبوری ملاحظہ ہو کہ اس جنگ سے کنارہ کشی کا بھی آپشن نہیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے بھیڑیں ماریں گی،مریں گی۔ بھیڑئے گوشت کھائیں گے، قہقہے لگائیں گے اور افغانستان کو تقسیم کرنے کی پلاننگ پر عمل درآمد کریں گے۔