پچھلے چند ماہ سے عمران خان کے دھرنوں اور جلسوں نے نہ صرف میڈیا بلکہ پورے ملک کو ہی ہاتھی کی ٹانگ کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ ملک گیر بوریت اور بدمزگی کا عالم دیکھئے کہ ان چند مہینوں میں نہ تو کوئی ڈھنگ کی سٹوری بریک ہوئی نہ واقعہ پیش آیا۔ بس سابق کرکٹر کی یا وہ گویاں تھیں اور ان کی بھرپور میڈیا کوریج۔ چنانچہ عزیزان من،ہم نے بھی عہد کر رکھا تھا کہ جب تک دھرنے اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے اور جب تک چند بھٹکے ہوئے ٹی وی اینکر راہ راست پر نہیں آجاتے، ہم کالم نہیں لکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے چودہ اگست سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کہا اپنے شو خبرناک میں ہی کہا اور کالم نویسی سے پرہیز ہی برتا۔ حالانکہ ترک تحریر کا یہ حادثہ اس وقت رونما ہوا جب ہم اپنے سفر نامہ آسٹریلیا کی فقط دو یا تین قسطیں ہی سپرد قلم کر پائے تھے۔ آسٹریلیا کے حوالے سے ابھی اور بہت کچھ کہنا باقی تھا مگر ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو حیرت انگیز ہیجان پیدا کیا گیا اس نے ہم سے لکھنے کی ہی نہیں سوچنے کی خو بھی چھین لی۔
خیر، آج چونکہ عمران خان قوال و ہمنوا کی قوالی بوریت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ چکی ہے بلکہ اس حد تک ’’بے ضرر‘‘ ہو چکی ہے کہ اب تو اس سے بوریت بھی نہیں ہوتی اور ایک مخولیہ سا آیٹم محسوس ہوتی ہے، ہم نے ایک بار پھر کالم کا قصد کرلیا ہے۔ عمران خان کے بارے میں ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جس دن سے بحر سیاست میں کودا ہے، اسے ’’ہیلوسی نیشن ‘‘ (Hallucination) کا عارضہ لاحق ہے۔ وہ بیچارہ پہلے ہی اپنے آپ کو پیدائشی وزیراعظم سمجھتا تھا، اوپر سے چند ریٹائر شدہ ’’سفاک ساتھیوں‘‘ نے اسے اتنی ’’پھوک‘‘ دی کہ یہ معصوم اپنے آپ کو ایک یونانی دیوتا بھی سمجھنے لگا۔ اس کا انداز تخاطب کسی قریب مرگ رومن سیزر کے بگڑے ہوئے اکلوتے وارث کا سا ہوگیا۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس ناسمجھ نے ہر ہر شخص کو للکارا اور سیاسی بدتہذیبی کی ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔
بہرحال، جب خام خیالی کی گھنگور گھٹائیں چھٹنے لگیں اور چالیس دن کا یہ خواب خرگوش ختم ہونے لگا تو پھر مزید حماقتوں کی بارش ہونے لگی۔ اب موصوف سڑکیں، بازار، کاروبار اور ملک دیگر اشیا بند کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
انہیں ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ ریٹائر شدہ سفاک ساتھیوں نے ایک اچھے خاصے کپتان کو چغد بنا کر رکھ دیا ہے۔ بنی گالہ کے پرآسائش محل میں رہنے والے اس نام نہاد انقلابی کا خواب تو خیر کب کا ٹوٹ چکا ہے مگر اس نے آنکھیں ابھی تک نہیں کھولیں۔ اس مسکین کا خیال ہے کہ شاید یہ سہانا سپنا کسی نئی شکل میں بار دیگر شروع ہو جائے۔ہمارے ایک بزرگ دوست نے گزشتہ روز فون پر کہا کہ اگر تمہارا دل خوب ہنسنے کو چاہئے تو عمران خان کے ’’دوستان ش‘‘ کی شکلیں ملاحظہ کرو، تمہیں بہت ہنسی آئے گی۔ استفسار کرنے پر حضرت صاحب نے بتایا کہ وہ شاہ محمودقریشی، شیخ رشید، شیریں مزاری اور شفقت محمود کو عمران کے ’’دوستان ش‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ٹی وی پر اسلام آباد جلسے کی براہ راست کوریج دیکھی تو اچانک نظران ’’دوستان ش‘‘ پر بھی جا پڑی۔ سب گہری سوچوں میں گم تھے۔ کیمرے کی آنکھ بھی اس قدر ظالم ہے کہ بار بار ان احباب کے کلوز اپ چلا کہ دعوت فکر دیئے جارہی تھی۔ ’’دوستان ش‘‘ کی ششدر شکلیں دیکھ کر ہمیں ہنسی تو نہیں آئی البتہ عبرت ضرور ہوئی۔ کہاں یہ امیدواران اقتدار کل تک اپنے آپ کو حکمران سمجھ رہے تھے اور کہاں آج ان سب کی شکلیں ان بے بس باراتیوں جیسی نظر آتی ہیں جن کا دولہا ون ڈش کی خلاف ورزی کرتے ہوئے والد صاحب سمیت اندر ہو چکا ہو۔ہماری دعا ہے کہ کپتان آنکھیں کھولے نہ کھولے، کم از کم تھوڑا بہت سوچنا ضرور شروع کردے اور اگر سوچ کا سلسلہ شروع ہو ہی جائے تو پھر ان باتوں پر بھی تھوڑا بہت غور ضرور کرلے، کیا اس کے بعض ’’دوستوں‘‘ نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اسے ٹشو پیپر یا شاید اس سے بھی بدتر چیز کے طور پر استعمال نہیں کیا؟ ارے بھائی مقصد تو ’’خاندان شریفاں‘‘ کو نکیل ڈالنا تھا، وہ ڈال دی گئی۔ ا ٓئندہ کے لئے تنبیہہ کرنا تھی سو کردی گئی۔ تم پتہ نہیں کیا سمجھ بیٹھے تھے۔تمہارا امیج اب اسقدر برباد ہوچکا ہے کہ وہ تمام قوتیں جو پچھلے تین چار ماہ سے تمہاری غیر سنجیدہ بلکہ بچگانہ حرکتوں کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ اب ایک طویل عرصہ تک تم سے مایوس ہی رہیں گی۔کیا شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے رفقائے کار کو اپنے کنٹینر پر سوار کر کے تم واقعی انقلاب برپا کرنے والے تھے؟ آخر انقلاب سے تمہاری مراد کیا ہے؟
آجکل انٹرنیٹ پر شہرت دوام حاصل کرنے والی تمہاری انتہائی قابل اعتراض گفتگو اور بعض اہم شخصیات کے لئے تمہارے کافی بڑے سائز کے منہ سے نکلنے والے نازیبا فقرے سن کر آخر کون تمہارے سر پر اقتدار کے ہما کو بیٹھنے دے گا، ذرا سوچئے!!اب آخر میں دو چار باتیں خاندان شریفاں سے متعلق بھی۔ اس خاندان کی حکومت بے عملی اور بدعملی کی بہترین مثال ہے۔ اسلام آباد والے بھائی صاحب نہ تو حرکت کرتے ہیں اور نہ ہی ہمت۔ جبکہ پنجاب میں روز افزوں اس حکومت کا بیڑہ غرق ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگر بد حکومتی کا عالم یہی رہا تو یہ احباب اپنے ہی وزن سے زمین پر جا گریں گے اور اس نیک کام کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو کسی عمران خان کی ضرورت نہیں پڑے گی ہیں جی؟؟