افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان نے دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی سال کی تلخیوں، تعطل اور بداعتمادی کے بعد ایک مثبت تحرک پیدا کردیا ہے۔
دونوں فریقین نے طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے کابل میں نئی حکومت کی تشکیل سے میسر آنے والے موقع سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ تعلقات کی ازسر نو استواری خطے میں ایک اہم مرحلے پر ہوئی ہے کیونکہ افغانستان سے پیشتر مغربی لڑاکا افواج کا انخلاء ہونے والا ہے اور آئندہ ماہ میں کابل کو اہم اختیارات کی منتقلیوں پر گفت و شنید کرنی ہے۔15 نومبر کو وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے کہا کہ گزشتہ 3 روز میں جو بڑے بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں ان سے گزشتہ 13 سال کے تعلقات میں موجود رکاوٹوں کو عبور کرلیا گیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بیان معاشی تعاون کے تناظر میں دیا تاہم اس سے دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے پورے منظر نامے پر مذاکرات کا مثبت منشا بھی دکھائی دیا۔یہ دورہ نہ صرف فوجی و انٹیلی جنس تعاون کی بحالی کی علامت ہے بلکہ یہ مستقبل کی شراکت داری کا تصور بھی پیش کرتا ہے جو کئی ستونوں پر تعمیر ہوگی اور جسے مشترکہ معاشی مفادات سے قوت ملے گی۔
اس سے نہ صرف تعلقات میں معروف چیلنجز کم ہوں گے بلکہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کیلئے جس نئے عزم کا مظاہرہ کیا ہے اس سے دونوں ممالک ان چیلنجز پر قابو پانے کیلئے ایک بہتر باہمی ماحول بھی مل گیا ہے۔دورے کے تین پہلو بالخصوص قابل توجہ ہیں۔ اول، روابط کو دوبارہ استوار کرنے کی جامع اور وسیع نوعیت کی کوشش ماضی کے بالکل برخلاف ہے جب تعلقات کسی ایک یا دوسرے متنازع معاملے پر تعطل کا شکار ہوجاتے تھے۔ دوم، اچھی طرح تیار کردہ اور احتیاط سے ترتیب دیا گیا یہ دورہ تعلقات کی مختلف راہوں پر متعدد امور پر نتیجہ خیز رہا یا اصولی اتفاق رائے کا سبب بنا۔ یہ نتائج نیچے بیان کئے گئے ہیں۔ سوم، دورے سے قبل اور اس کے بعد کسی بھی فریق کی جانب سے کھلے عام شکوے شکایات کا اظہار نہیں کیا گیا جو ماضی کے دوروں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے جس سے ماحول ناخوشگوار ہوجاتا تھا۔اس دورے کو ارتقا پذیر تعلقات کی تین جہتوں میں پرکھا جا سکتا ہے: یعنی سلامتی، معاشی اور علاقائی معاشی تعاون۔سیکورٹی پہلو سے دورے میں علامتی اور حقیقی دونوں طرح کا مواد موجود تھا۔علامتی طور پر صدر غنی کا جی ایچ کیو کے دورے کے دوران یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھانا اور سلامتی امور پر تبادلہ خیال کرنا ماضی سے قطع تعلق کا اشارہ دیتا ہے۔حقیقی طور پر سلامتی امور میں پیش رفت کے کئی عناصر موجود تھے۔ اس پیش رفت کیلئے جس چیز نے راہ ہموار کی وہ صدر غنی کے دورے سے قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل اور شمالی وزیرستان میں پاکستانی حکام کی جانب سے شروع کیا گیا فوجی آپریشن تھا۔
دونوں فریقوں کی جانب سے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے اتفاق رائے نے اس وقت زیادہ عملی جامہ پہنا جب پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ جاری فوجی آپریشن میں عسکریت پسندوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھے گا اور جب افغانستان نے کنڑ میں پناہ لئے ہوئے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کلین اپ کرنے کی پیش کش کی۔
خاص طور پر افغان فریق نے فوجی افسران کو افغانستان میں تربیت دینے اور انہیں پاکستان میں فوجی اداروں میں بھیجنے کی اسلام آباد کی پیشکش بھی قبول کرلی۔ صدر اشرف غنی نے ایک افغان انفنٹری بریگیڈ کو مسلح کرنے کی پیش کش بھی قبول کرلی جو جنرل شریف نے اپنے دورہ کابل کے دوران کی تھی۔اسلام آباد کئی سال سے افغانستان کو اس کی سیکورٹی فورسز کو تربیت دینے میں مدد کی پیشکش کر رہا ہے۔ 2012ء میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس میں پاکستان نے افغان فوج کی تربیت اور صلاحیتوں میں اضافے کیلئے مالی وسائل فراہم کرنے کا بھی عزم کیا تھا۔ تاہم کرزئی حکومت نے اس حوالے سے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔اب صدر اشرف غنی نے پیش کش قبول کرلی ہے۔ دونوں فریقوں میں طریقہ کار اور تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ اس حوالے سے جلد ایک دفاعی وفد کا دورہ پاکستان متوقع ہے جو کابل کی ضروریات کا تخمینہ بیان کرے گا۔
سیکورٹی محاذ پر ایک اور پیش رفت وسیع انتظام کیلئے دو طرفہ ایس اوپیز کی پاکستانی پیشکش سے متعلق ہے۔ اسلام آباد بات چیت میں افغان فریق نے انہیں حتمی شکل دینے پر اپنی آمادگی ظاہر کی۔دو طرفہ ایس او پیز کا مقصد سہ فریقی ایس او پیز کی جگہ لینا ہے جو پاکستان، افغانستان اور ایساف کے درمیان اس وقت موجود ہیں اور وسیع رابطے کے اصولوں کی وضاحت کیلئے بطور قانونی فریم ورک کام کر رہی ہیں۔ پاکستان نے ان ایس او پیز پر کابل کو رضا مند کرنے کیلئے ایک سال تک کوششیں کیں لیکن کرزئی حکومت آگے نہ بڑھنے کیلئے بہانے کرتی رہی۔صدر غنی نے اسلام آباد آنے سے پہلے ہی سیکورٹی محاذ پر ایک اہم اشارہ دیدیا تھا۔ یہ اشارہ ان کے فیصلے کے بارے میں تھا کہ وہ اپنے پیش رو کی جانب سے بھارت سے کئے گئے اسلحہ سمجھوتے پر آگے نہیں بڑھیں گے۔ جس کے تحت دہلی نے روسی اسلحہ اور سازوسامان خرید کر کابل کو فراہم کرنا تھا۔بھارتی تجزیہ کاروں نے صدر غنی کے اس فیصلے کو پاکستان کے بنیادی خدشات کے حل اور اہم مفادات کی سمت اٹھایا گیا قدم قرار دیا ہے۔ ادھر اسلام آباد نے اسے صدر غنی کی حکومت کی خیر مقدمی کوشش قرار دیا ہے تاکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتر توازن قائم کیا جاسکے۔اگر سیکورٹی ڈائیلاگ سے کئی نتائج حاصل ہوئے تو معاشی ٹریک پر رابطہ جس کا آغاز وزرائے خزانہ کی ملاقاتوں سے ہوا، تجارت اور معاشی تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے متعدد فیصلوں کا سبب بنے گا۔
اسلام آباد نے افغان فریق کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو حل کرنے اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے عمل کو ہموار بنانے کیلئے رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھرپور رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کسٹم کلیئرنس طریقہ کار کو آسان بنانے کا معاہدہ اور اشیاء کی تیز رفتار نقل و حمل کیلئے پورٹ قاسم اور گوادر میں مختص کردہ مراکز کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اپنی طرف سے صدر غنی نے افغانستان کے ذریعے تاجکستان تک تجارتی رسائی دینے کی پاکستانی درخواست قبول کرلی جو اس سے قبل ان کے پیش رو نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔تاہم اقتصادی بات چیت ٹرانزٹ ٹریڈ سے بہت زیادہ آگے چلی گئی۔ صدر غنی اپنے ہمراہ نہ صرف بہت بڑا کاروباری وفد لائے تھے بلکہ ان کے پاس کئی آئیڈیاز بھی تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان معیشت کو کس طرح پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ان میں پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے افغانستان میں خصوصی اقتصادی زونز کا قیام اور مشترکہ پیداوار بالخصوص ٹیکسٹائل میں تعاون کی پیش کش بھی شامل تھی۔دونوں ممالک نے سالانہ دو طرفہ تجارت کو دگنا کرتے ہوئے آئندہ دو سال میں 5 ارب ڈالر تک لے جانے اور اس کے فروغ کیلئے مشترکہ کاروباری کونسل کے قیام پر اتفاق کیا۔ انہوں نے ترجیحی تجارتی معاہدے کیلئے بات چیت شروع کرنے کا بھی عزم کیا۔اس طرح علاقائی اقتصادی تعاون اور کنیکٹیوٹی کے حوالے سے اتفاق ہوا کہ سڑکوں اور ریل لنکس کو بہتر بنایا جائے گا اور اہم ٹرانس ریجنل توانائی منصوبوں بشمول کاسا 1000 بجلی کی لائن اور تاپی گیس پائپ لائن پر کوششوں کو تیز کیا جائے گا۔
صدر غنی نے کہا کہ دونوں فریقین نے ایک ایسے مشترکہ تصور پر اتفاق کیا ہے جس میں پاکستان اور افغانستان ایشیا ء کے قلب کا کردار ادا کریں گے اور جنوبی ایشیا کے وسطی ایشیا سے ملاپ کو یقینی بنائیں گے۔امن و مفاہمت کے اہم معاملے پر وزیراعظم نواز شریف نے علی الاعلان بین الافغان مصالحتی عمل کیلئے پاکستان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ عمل مکمل طور پر افغان زیر قیادت اور افغان زیر ملکیت ہونا چاہئے۔ اشرف غنی نے مصالحت پر پیش رفت کیلئے بے تابی کا اظہار کیا۔ اس بات کا اندازہ اس وقت سے ہی ہوگیا تھا جب انہوں نے بحیثیت صدر اپنے سب سے پہلے عوامی خطاب میں اسے اپنی ترجیح قرار دیا تھا۔بات چیت کے دوران یہ بات طے پائی کہ ان کی حکومت امن عمل کیلئے پہلے ایک حکمت عملی اور طریق کار وضع کرے گی اور پاکستان و دیگر سے اس کو فروغ دینے یا اس میں مدد کرنے کی دیگر درخواست کرنے سے قبل ایک ٹیم کا تقرر کرے گی۔
مجموعی طور پر یہ دورہ پاکستان افغانستان تعلقات میں ایک نئے اور مختلف مرحلے کا امید افزا ء آغاز ثابت ہوا تاہم اس مثبت تحرک سے استفادہ کرنے کیلئے آئندہ ماہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔مستقبل کے تعلقات میں ممکنہ طور پر دیگر متغیرات بھی کردار ادا کرینگے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ افغانستان میں اندرونی تحرک کیا شکل اختیار کرے گا خاص طور پر قومی اتحادی حکومت کے استحکام اور پائیداری کے حوالے سے ایک اہم تغیر یہ بھی ہوگا کہ افغان طالبان غنی عبداللہ حکومت سے متعلق کیا موقف اختیار کریں گے جب وہ امن مذاکرات کا منصوبہ پیش کرے گی اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ مذاکراتی میز پر کس طرح کی مراعات پیش کی جائیں گی۔ایک اور اہم تغیر دیگر علاقائی و غیر علاقائی طاقتوں کا کردار اور اقدامات ہوں گے اور یہ کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے کیا انداز اختیار کرتی ہیں۔ لیکن سردست اسلام آباد اور کابل میں زیادہ سے زیادہ اعتماد قائم کرنے کے لئے دونوں مثبت ماحول اور جوہر موجود ہیں جن کا مقصد بقول وزیراعظم نواز شریف ایک مضبوط، جامع اور پائیدار شراکت داری کا حصول ہے۔