• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں نوجوان اور بچے اٹھائے جانے اور لاشیں گرائے جانے کا موسم ہے۔ حالیہ تیس دنوں میں سندھ نے سات لاشیں اٹھائی ہیں۔ اعتدال پسند اور سندھ کے حقوق پر ایوانوں اور میدانوں میں بولنے والے مولانا اور سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو سے لیکر غائب شدہ چھ سندھی قوم پرستوںتک۔گولیوں سے چھلنی جسم ۔ کہ بقول سندھی شاعر حلیم باغی کے کہ’’موسم گل نہ کلیاں لایا بہار لائی بیٹوں کی لاشیں‘‘۔ شاید حقوق مانگنے والوں کو بحیرہ عرب میں پھینکے جانے کا فیصلہ انتہائی اوپری سطح پرہوا ہے کہ مقامی کمانڈروں کا فیصلہ ہے جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ سندھ کو بلوچستان بنایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو کہ جن کا جنازہ شاید بینظیربھٹو کے جنازے سے بھی بڑا تھا لیکن نام نہاد قومی میڈیا میں اس کا ذکر تک نہ ہوا۔ یہ عجیب مولانا تھے جو کہتے تھے کہ سندھ سے محبت ان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ پھر وہ کالا باغ ڈیم ہو، کہ سندھ کے کوئلے تیل گیس کی رائلٹی ہو کہ سندھ میں پیپلزپارٹی زرداری حکومت کی نا اہلی اورخراب کارگردگی کہ نوجوان سندھی قوم پرستوںکی لاشیں پھینکے جانا،یا وزیرپانی و بجلی عابد شیر علی کی طرف سے سندھیوں کو مبینہ طور پر چور کہنا ہو ڈاکٹر خالد محمود سومرو سینیٹ ہو کہ منبر کہ مدرسہ وہ سندھ کے حقوق پر اعداد وشمار کے ساتھ سندھ کے ایک وکیل کی طرح گرجتے برستے سنائی اور دکھائی دیتےتھے۔ وہ مذہبی انتہاپسندی کے دور میں ایک انتہائی معتدل مزاج عالم تھے۔
وہ عام سندھ کے حقوق کی آگاہی رکھنے والوں یا عام لوگوں میں ایک سے پاپولر لیڈر تھے۔ سندھ سےپاپولر لیڈر کہ جو وقت کے جھوٹے یزدانوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے آئے ہیں۔ ذو الفقار علی بھٹو، فاضل راہو، بشیر قریشی اور اب خالد محمود سومرو۔ ان کی سیاست اور ان کی مذہبی سیاسی پارٹی جے یو آئی کی پالیسیوں سے سخت اختلاف رکھے جا سکتے ہیں لیکن اس پر کسی کا کوئی مدعا نہیں تھا کہ وہ سندھ کے حقوق کے بڑے چیمپئن نہ تھے۔ وہ ہر دلعزیز انسان سیاستدان تھے۔ اسی لئے تو لاڑکانہ شہر سے بینظیر بھٹو کے حلقے سے ان کے خلاف دو مرتبہ انتخابات لڑنے والے خالد محمود سومرو کے گزشتہ تین عام انتخابات کے دوران ہر دفعہ حاصل ہونے والے ووٹوں میں اضافہ ہوا تھا۔ سندھ کو اپنی جاگیر سمجھنے والے جاگیردار بھٹوئوں کے مقابلے میں وہ شاید شیخ عبدالمجید سندھی ثابت ہوجاتے کہ (جس پھکڑ لیکن مرد قلندر نے سر شاہنواز بھٹو کے مقابلے میں انتخابات جیت کر ان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ کردیا تھا) قتل کردیئے گئے۔ ان کو قتل کس نے کروایا؟ ایجنسیوں نے، فرقہ وارنہ تنظیموں نے یا شدت پسندوں نے کہ سیاسی طاقتور شخصیت نے کچھ کہنا بعید از وقت ہوگا۔ لیکن یہ طے ہے کہ سندھ کے وسائل پر پڑنے والے تاریخی ڈاکوں پر اٹھنے والی ایک تاریخی آواز بند ہوگئی۔
بچپن سے لے کر ایک پرجوش مقرر کی طرح جمعیت طلبہ اسلام کے دنوں سے ابھر کر آنے والے اس نوجوان ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا ملک میں جنرل ضیاءالحق کے دنوں میں تحریک بحالی جمہوریت میں اگلے مورچوں پر رہنے والا کردار تھا۔ جرأت اور باطل کے خلاف لڑنے والی ان کی یہ میراث انہیں اپنے اسلاف سے ملی تھی جو کہ سلفی انتہاپسندی کے برعکس سندھ اور ہند میں جمعیت علمائے ہند اور پرانے دیوبند کے علمائے حق کا تاریخی خاصا رہا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا قاسم نانوتوی اور خود مولانا ابو الکلام آزاد کہ جن کا مرشد صوفی سرمد شہید تھا۔ اسی طرح امام انقلاب کہلانے والے مولانا عبیداللہ سندھی۔ سندھو ساگر نربدا فکر کے داعی۔ مولانا عبیداللہ سندھی کہ جن کی تحریریں و تقریریں جو کہ ہر مذہبی و سیاسی انتہاپسندی کے مقابلے میں ایک نعم البدل بیانیہ ہے۔ جنہوں نے کہا تھا کہ جب تک برطانوی سامراج برصغیر میں حاکم ہے آپ کی کوئی عبادت قابل قبول نہیں کہ اصل عبادت وطن کی آزادی کی جدوجہد ہے۔ ایک غلامی پسند مولوی سے حریت پسند دہریہ اچھا۔ اسی لئے سندھ کا مولوی ماضی قریب تک انتہاپسند شاذ و نادر ہی بنا تھا۔ بھینڈو، امروٹ، ہالیجی، کراچی کھڈہ میں مولانا صادق کے مدرسے برطانوی سامراج مخالف مدرسے رہے۔ یہ وسیع المشرب مولوی و علمائے حق تھے۔ یہ کاکوری، انڈمان جزائر اور میرٹھ و کابل تک گئے تھے۔ یعنی کہ:
ہے مشق سخن جاری
چکی کی مشقت بھی
یہ کلکتے سے چارسدہ تک تھے۔ یہ گاندھی کے ساتھ خلافت تحریک میں بھی تھے تو ریشمی رومال تحریک میں بھی تو سندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو کے ساتھ بھی۔
عدم تشدد کے پختون پیغام بر خان غفار خان باچا خان کے ساتھ خدائی خدمتگار بھی تھے۔ ان میں احراری بھی تھے جن میں شورش کاشمیری اور نوابزادہ نصراللہ باقی ماندہ پاکستان میں ترتیب وار تحاریک بحالی جمہوریت اور تحریک آزادی اظہار و صحافت کے حوالے سے بڑے تاریخی کردار ہیں۔
اسی لئے یہ فطری بات تھی کہ اپنے جوہر میں سیکولر دوست ہونے کی وجہ سے مفتی محمود کی جے یو آئی ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے دنوں میں نیپ جیسی سیکولر قوم پرست اور بائیں بازو کی پارٹی کی زبردست اتحادی اور سندھ اور بلوچستان میں حکومتوں میں نیپ کے ساتھ ساجھے دار بھی تھی۔ پختونخوا میں اگر نیپ کے گورنر ارباب سکندر خان خلیل تھے (بدقسمتی سے بعد میں ان کو قتل کردیا گیا )تو وزیر اعلیٰ مفتی محمود۔ ضیاء الحق کے کے دور میں جے یو آئی اور خاص طور پر سندھ میں اس کا کردار اگلے مورچوں پر تھا۔ قاری شیر افضل، تاج محمد ناہیوں، مولانا جاوید نعمانی، ڈاکٹر خالد محمود سومرو، اور شاہ محمود امروٹی جو ایم آر ڈی سندھ کے کنوینر اور جام ساقی کیس میں ان کے دفاع کے گواہ بھی تھے۔ جنوبی پنجاب میں دین پور کے مولانا سراج دین پوری(دین پور میں ہی مولانا عبیداللہ سندھی کا مدفن بھی ہے)
سندھ نے کیسے کیسے نہ سیکولر دوست یا سیکولر مولوی پیدا کئے۔ حکیم محمد معاذ (کہ نوابشاہ میں مبینہ طور پر جن کے گھر میں آصف علی زرداری کی پیدائش ہوئی)، مولوی نذیر حسین جتوئی، عزیز اللہ جروار اور مولانا عبدالحق ربانی یا شیعہ عالم و حکیم نذیر حسین حیدری ۔ ان میں سے کئی لوگ حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک سے وابستہ تھے۔ خود ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے والد لاڑکانہ میں عاقل گائوں میں ایوب کھوڑو جیسے طاقتور سیاستدان اور جاگیردار سے ٹکر لے بیٹھے جس کےنتیجے میں انہیں اپنا گائوں چھوڑنا پڑا ۔
ان تمام اسلاف، آدرشوں اور ماحول نے خالد محمود سومرو کی پرورش کی تھی۔ انہیں جمعیت میں ایک سندھی قوم پرست کی طرح برتا جاتا کہ انکی سوچ جمعیت سے زیادہ اس کے سابق علماء اور ساتھیوں سندھ ساگر پارٹی کے لوگوں سے ملتی جلتی تھی۔ سندھ ساگر پارٹی سابق جمعیت علمائے سندھ جو کہ جے یو آئی کے ان اصحاب نے بنائی تھی جن کے جے یو آئی کی پختون غلبہ رکھنے والی قیادت اور سندھ کے مسائل پر غیر سنجیدگی پر اختلافات ہوئے تھے اور بھٹو کے زمانے میں انہوں نے جمعیت سے الگ ہو کر جمعیت علمائے سندھ بنائی تھی۔ حافظ اسماعیل، میرے دوست اور صوفی درویش حافظ صدیق، مولوی اسماعیل میمن، مولانا اللہ ورایو بروہی اور عزیز اللہ بوہیو اور مولوی عبیداللہ بھٹو جیسے عالم ان کے سرکردہ تھے۔ ان علماء نے پہلی دفعہ کہا کہ قومیت کی بات کرنا کوئی کفر نہیں۔ بلکہ مولانا اللہ ورایو بروہی نے ’’پیغمبر اور قومیت‘‘ کتاب لکھ کر سندھ کے مذہبی سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی۔ اسی کو پھر اردو بولنے والی آبادی میں الطاف حسین ہی لے آیا جب اس نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے نظریاتی چنگل سے اردو بولنے والوں کو آزاد کرواکر بتایا کہ قوم پرستی کوئی کفر نہیں ہوتی۔
خالد محمود سومرو نے بھی سندھ کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھا اور شاید اس کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ جو انہوں نے اور سندھ کے ان چھ سندھی قوم پرستوں نے چکائی جو اپنی غلط یا برابر سیاست (کہ سارے کے سارے تو انتہاپسند نہیں تھے کوئی تو صرف چائے پینے پر اٹھائے گئے یا فیس بک پر چیٹ کرنے پر، احتجاجی جلسوں جلوسوں میں شرکت کرنے) کی وجہ سے غائب کر کر قتل کردئیے گئے۔سندھ میں مارشل لا بھی نہیں پھر بھی بعض ادارے موت کے فرشتے بنے ہوئے ہیں وہ جج جیوری بھی ہیں اور سرسری سزائے موت دیکر خود جلاد بھی بنے ہوئے ہیں۔
اسمبلیاں ، عدالتیں، وزیر اعظم وزیر اعلیٰ، سب ان کے آگے ادنی ہیں۔ سارے غدار ہیں محب الوطن یہ ہیں جو ریاست دشمنوں کے خلاف غیر اعلانیہ قتال فی سبیل اللہ کے نام پر کروڑوں کے کھیل میں مصروف ہیں۔ شاید قتل اورغائب ہونیوالوں کے لیڈر بھی اسی کھیل میں مصروف لاشے گرتے ہیں شہید ملتے ہیں ،سیاست چمکتی ہے۔ شاید اتنے لاشے سندھ کو ضیاء الحق نے نہیں بھیجے تھے ۔ لیکن بندے اس طرح غائب اور قتل پھر بھی نہیں ہوتے تھے۔ چوبیس سالہ سرویچ پیرزادو، آصف پنوہر، وحید لاشاری، فہیم بھٹو، جاوید لانگاہ ، پریل شاہ، اور تاحال غائب اللہ ودھایو مہر اور معصوم کملیش میگھواڑمہران انجنیئرنگ کا اسٹوڈنٹ غریب تر خاندان کہ جس کی ماں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہیں :
جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اجڑتے ہیں
کیسا حوصلہ ہوگا ان غریب مائوں میں
آنسوئوں میں کٹ کٹ کر خواب کتنے گرتے ہیں
ایک جوان کی میت آر ہی ہے گائوں میں۔
اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی آخری تقریر ان لوگوں کے غائـب کر کے قتل کئے جانیوالی’’کل اینڈ ڈمپ ‘‘ پالیسی کے خلاف تھی۔ مجھے اقوام متحدہ کے سامنے گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے سندھی قوم پرست نے کہا:
وہ شدت پسند جوسر کاٹ کر ان کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے ان کے لئےنرم گوشہ اور سندھ کے قوم پرستوں کے خلاف یہ قتال فی سبیل اللہ!
تازہ ترین