آب زم زم ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ معجزانہ پانی ہے۔ بیت اللہ اور حرم شریف میں اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں میں سے بڑی نشانی ہے۔ یہ وہ مبارک پانی ہے جو برکتوں والے خطے میں جدا الانبیا خلیل اور ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اسماعیل علیہ السلام کو پیاس سے سیراب کرنے کیلئے جبریل آمین کے واسطہ سے ظاہر ہوا۔ اسی پانی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’یر مکاء‘‘ یعنی زمین پر سب سے بہترین پانی زم زم ہے۔ اسی مبارک پانی کے ساتھ نبی اکرمؐ کا قلب اطہر دھویا گیا، کیونکہ آپؐ کی شان ہی ایسی ہے کہ آپ کا قلب مبارک سب سے زیادہ شرف والے پانی سے دھویا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پانی کی کئی منفرد خصوصیات اور عظیم برکتیں عطا فرمائی ہیں کہ ان کے متعلق آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک آب زم زم برکتوں والا ہے جوکہ یقیناً کھانا کھانے والے کا کھانا اور بیمار کے لیے شفا ہے۔‘‘ ایک اور ارشاد کے مطابق آب زم زم اس مقصد کے لیے جس کے ارادہ سے پیا جائے اس پانی میں آپؐ نے ارشاد لعاب مبارک ڈالا تو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوگیا۔ آپؐ نے اس سے وضو کرنے کو سنت اور سیراب ہوکر پینے کو ایمان کی علامت بتایا۔ نیز اس کو بطور ہدیہ دوسروں کو پلانا اور زاد راہ کے طور پر دوسرے ممالک میں لے کر جانا سنت ہے۔ یہ پانی جنت کے چشموں میں سے ہے جوکہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ اس پانی کو عرصہ دراز سے مختلف مقاصد کے لیے پیا جاتا رہا ہے کسی نے علم کے لیے تو کسی نے عمل کے لیے، بعض نے استقامت کے لیے، بعض نے طلب اولاد کے لیے کسی نے بیماریوں سے شفا کے لیے اور کسی نے ایمان کی مضبوطی کے لیے، اس متبرک اور قدیم پانی کا مختصر سا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ جدا الانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ سیدہ ہاجرہ اور لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ الالسلام کو بے آب و گیالق و دق صحرا میں مختصر سے توشہ کے ساتھ اللہ کے حکم سے تنہا چھوڑ دیا۔ جب یہ توشہ ختم ہوگیا تو ماں اور بچہ بھوک اور پیاس سے بے چین ہونے لگے۔ ماں سے معصوم بچے کی پیاس کی تڑپ دیکھی نہ گئی اور ایک پہاڑی سے دوسری پر جن کے نام صفا اور مروہ ہیں سات مرتبہ دوڑیں۔ آخرکار اسماعیل علیہ السلام کی مبارک ایڑیاں رگڑنے سے اس مبارک پانی کا چشمہ ابل پڑا۔ سیدہ ہاجرہ نے اس کو روکنے کے لیے اس کے اردگرد ایک باڑ سی بنائی اور فرمایا زم زم۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ اگر ہاجرہؓ ایسا نہ کہتیں تو یہ پانی تمام دنیا کے اوپر پھیل جاتا۔ اسی دوران جرہم قبیلے کا ایک قافلہ وہاں سے گزارا اور پرندوں کو منڈلاتے دیکھ کر پانی کے چشمے تک آ پہنچے اور پھر آہستہ آہستہ وہیں آباد ہوگئے۔ قبیلہ جرہم کافی عرصہ وہاں آباد رہا اور وہ عرب سے سب سے زیادہ عزت دار قبیلہ تھا۔ مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے حرم شریف کی بے حرمتی کرنا شروع کردی اور کعبۃ اللہ کے مال میں خیانت کرنے لگے تو ان کی سزا کے طور پر آب زم زم خشک ہوکر ختم ہوگیا۔
جرہم قبیلے کے ایک شخص مضامین بن عمرو نے اپنے قبیلے سے خائف ہوکر بیت اللہ شریف میں موجود فارس کے بادشاہ ساسان کی طرف بطور ہدیہ دو سو نے کے ہرن اور قلعی تلواروں کو نکال کر رات کے اندھیرے میں زم زم کے کنویں کو گہرا کھود کر دفن کردیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خزاء کو جرہم پر مسلط کردیا۔ جرہم فنا ہوگئے اور خزاء متولی بنے اس عرصے میں زم زم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ یہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدائش کا وقت آگیا۔ وہ نبی جن کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے جو صاحب کوثر ہیں اور سیراب کردینے والے حوض کے مالک ہیں تو آپ کے ظہور کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو خواب کے ذریعے حکم فرمایا کہ وہ کنویں کی کھدائی کریں۔ حضرت عبدالمطلب نے نذر مانی کہ زم زم کی کھدائی مکمل ہوگئی تو وہ اپنا بیٹا قربان کریں گے۔ کھدائی کا کام مکمل ہونے کے بعد بیٹوں کی قربانی کی باری آئی تو قرعہ اندازی کی گئی۔ جس میں حضرت عبداللہ کا نام بار بار نکلتا۔ آخرکار سو اونٹوں کی قربانی کو حضرت عبداللہ کے عوض بطور فدیہ ادا کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام سے لے کر اس کھدائی کے درمیان پانچ ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے واللہ اعلم۔ اس پانی کا وجود زمین کے نیچے اس سے پہلے کا ہے۔ یہ چشمہ زم زم جنت کے چشموں میں سے ہے جسے زم زم کے کنویں کی جگہ لایا گیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے جبریل علیہ السلام نے اس کنویں کی جگہ ضرب ماری تو آب زم زم زمین پر ظاہر ہوگیا۔آب زم زم کا کنواں1814فٹ گہرا ہے۔ آٹھ ہزار لیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے24گھنٹوں میں موٹر کھینچتی ہے۔ صرف گیارہ منٹ میں کنواں دوبارہ بھر جاتا ہے 5ہزار سال سے نہ خشک ہوا ہے اور نہ ہی اس کا ذائقہ بدلا ہے۔ جاپان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر مسارو ایموٹو نے ریسرچ کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کرہ ارض کے کسی خطے سے لیے گئے پانی کے خواص زم زم سے کسی طرح بھی مشابہت نہیں رکھتے اور مزید یہ کہ زم زم کے خواص کے کسی بھی طرح تبدیل کرنا ناممکن ہے۔زم زم نہایت ہی بابرکت، پاکیزہ اور نفیس ترین پانی ہے اور بے شمار خصوصیات اور فضائل کا حامل ہونے کی بنا پر بہت سے ناموں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مختلف احادیث اور لغت میں سے تقریباً کئی ناموں سے زم زم سے منسوب کیا گیا ہے جن میں چند نام یوں ہیں۔ مبارکہ، برکت والا۔
2۔ بشری۔ سیدہ ہاجرہ کے لیے خوشخبری کیونکہ آپ پانی کی تلاش میں تھیں۔
3۔ حرمیہ۔ حرم شریف میں موجود ہونے یا اس کے معظم ہونے کی وجہ۔
دیگر ناموں میں، سالمیہ، لقایتہ الحاج، سیدہ، شراب و الابرار، شفاء سقم، طاہرہ، طعام طعم، قاضیہ، قافعہ وغیرہ۔
آب زم زم کو پینا سنت ہے۔ حجاج کیلئے طواف و سعی سے فارغ ہوکر پینا مستجب ہے اس کے پینے کے آداب یوں ہیں کہ پینے والا قبلہ رخ منہ کرے اور تین سانسوں میں ہر بار بسم اللہ کہہ کر پینا اور ختم کرکے الحمدللہ کہنا، دائیں ہاتھ سے پینا اور خوب سیر ہوکر پینا۔ زم زم پیتے وقت اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگنی چاہیے۔ چونکہ زم زم پیتے وقت دعا کرنا قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔ زم زم پیتے وقت جامع ترین دعا جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے کہ ’’اے اللہ تعالیٰ بے شک میں تجھ سے نفع بخش علم، کشادہ رزق اور ہر بیماری کی شفا مانگتا ہوں۔‘‘ زم زم کو کھڑے ہوکر پینا سنت ہے۔ آب زم زم کی برکتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ نومولود بچے کو آب زم زم اور کھجور کے ساتھ گھٹی دنیا مستجب ہے۔ تاکہ یہ طیب اور طائر پانی بچے کی پہلی غذا بنے۔ بزرگان دین اور سلف صالحین کا ہمیشہ یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ اس مقدس پانی کو خیر و برکات کے حصول کیلئے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے حتیٰ کہ اس پانی سے روشنائی بناتے اور اس سے قرآن و حدیث کی کتابت کرتے، بیماریوں کے علاج کے طور پر شفا حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے۔ آب زم زم کی تحقیر کرنا منع ہے اس کو صرف پاک و طیب چیزوں میں استعمال کرنا چاہیے۔ زم زم کی محبت سچے مومنوں کے دلوں میں رہتی ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے گھر کا اور حرم کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا ساتھ اس کا ذکر کرکے ان کی روحیں سرشار ہوتی ہیں اور وہ بے اختیار اس کی مدح سرائی اور نغمہ سرائی کرتے ہیں۔ علامہ برہان زمزی، ابراہیم بن علی نے حدیث شریف کی تصمین کرتے ہوئے کہا کہآب زم زم میں مخلوق کیلئے غذائیت ہے۔ اسی طرح بیماریوں اور تکلیفوں کیلئے دوا ہے۔
.