یک زمانہ تھا کہ ہم کافی تگڑے شکاری ہوا کرتے تھے۔ ہمارا نشانہ رائفل اور شاٹ گن دونوں کے ساتھ ہی بہت اچھا ہوا کرتا تھا مگر پھر ایک دور ایسا آیا کہ ہم نے شکار بالکل ہی چھوڑ دیا، البتہ بندوق کے ساتھ محبت بدستور جاری رہی اور ہم نت نئی رائفلیں اور شاٹ گنز اکٹھی کرتے رہے حتیٰ کہ پستولوں کی کلیکشن بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی اور ہم نے فارم ہائوس پر ایک عدد فائرنگ رینج بھی بناڈالی جس میں ہم نشانہ بازی کرتے رہتے، تاہم آخری بار شکار ہم نے لگ بھگ بائیس سال پہلے کھیلا تھا۔یہ محض اتفاق تھا کہ ٹھیک بائیس برس بعد ہمارے پیارے دوست رضا علی گیلانی،جسے ہمارا دوست بنے ابھی بمشکل پانچ سال گزرے ہوں گے ،کا ایک پراسرار سا ایس ایم ایس آیا۔ کہنے لگے کہ ہمارے ایک مشترکہ دوست میاں عاصم نے تیتر کے شکار کا اہتمام کیا ہے اگر آپ بھی شکار میں دلچسپی رکھتے ہوں تو بندوق اٹھائیے اور چلے آئیے۔ ہمیں حیرت صرف اس بات پر تھی کہ بائیس سال بعد ہمیں شکار پر چلنے کے لئے کہا بھی تو ایک ایسے شخص نے جیسے معلوم ہی نہ تھا کہ ہم اپنا سارا بچپن اور نصف جوانی اسی شوق کی نذر کر چکے تھے اور پھر بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر ہم نے اسے اپنی طرف سے ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا تھا۔رضا علی گیلانی حجرہ شاہ مقیم سے ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد اب ایک بار پھر وزارت کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ اس جواں سال اور باہمت شخص نے اپنے والد پیر افضال شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کی گدی کو خوب سنبھالا ہے۔ اسی کی کاوشوں نے علاقے کے سب سے کہنہ مشق سیاستدان اور ہمارے عزیز از جان بزرگ دوست میاں منظور احمد وٹو کو سیاسی طور پر تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ وٹو صاحب کی سیاست جتنی ڈانواںڈول آج دکھائی دیتی ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ضلع اوکاڑہ کے سیاسی تجزیہ کار اس کا کریڈٹ رضا علی گیلانی اور اس کے شاہ مقیم گروپ کو دیتے ہیں بہرحال وٹو صاحب کی سیاست ایک بار پھر سر اٹھارہی ہے اور اگر نواز لیگ نے علاقے میں ڈیویلپمنٹ کا کام اپنی اسی بھدّی رفتار سے جاری رکھا تو تحریک انصاف کی بظاہر کٹنے والی پتنگ پیپلز پارٹی لوٹ لے گی اور اس کا بڑا فائدہ میاں منظور احمد وٹو اٹھا سکتے ہیں۔شکار پر چلنے کی حامی بھرتے ہی ہم نے تیاری شروع کردی کہ اپنے شکاری کیرئیر کو لگا بائیس سالہ زنگ اتار سکیں۔ صبح و شام سکیٹ شوٹنگ ہونے لگی۔ پرانی بندوقیں فارغ کرکے انتہائی جدید اسلحہ خریدا گیا اور تو اور اپنے شو میں بھی حسب توفیق شکار اور بندوق کی فضلیت بیان کرنے لگے ۔سکیٹ شوٹنگ میں ہم اس قدر طاق ہوچکے تھے کہ سو میں سے تقریباً پچانوے فائر نشانے پر لگنے لگے۔ بھاگ دوڑ اور تیراکی میں بھی اضافہ کردیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا زنگ اترنے لگا اور اندر سے ایک اجلا اجلا سا چاق و چوبند شکاری باہر آنے لگا۔ہمیں معلوم تھا کہ ہماری شکار پارٹی میں ایک دوست قبلہ سجادشاہ صاحب بھی ہیں جن سے بلاشبہ پوری کائنات کے تیتر اور بٹیر پناہ مانگتے ہیں۔ پیری فقیری چونکہ خاندانی معاملہ ہے اس لئے ہمیں اب شک ہونے لگا کہ آپ اڑتے پرندے کو فائر سے نہیں بلکہ دم درود سے ہی گرالیتے ہیں کہ فائر اس قدر تیر بہدف ہو ہی نہیں سکتا۔ اب تک ہم ان کے اس قدر معترف ہوچکے ہیں کہ ان سے شکاری مشوروں کے ساتھ ساتھ عنقریب تعویذ دھاگہ بھی لینے لگیں گے۔ بندوق اٹھانے اور فائر کرنے کا اس قدر حسین انداز ہم نے کلنٹ ا یسٹ وڈ کی فلموں میں بھی نہیں دیکھا۔ اسی شکار پارٹی میں ہمارے پیارے دوست اقبال حسن شاہ صاحب بھی شامل ہیں جن کا باورچی جنوبی ایشیاء کا سب سے لذیذ انڈوں کا حلوہ تیار کرتا ہے۔ سکیٹ شوٹنگ کی مشق کرتے ہوئے ہمیں یقین ہوتا جارہا تھا کہ پنجاب کے ہر اس ضلعے میں جہاں شکار کی ممانعت نہیں ہے، تیتر اور بٹیر ہماری بندوق کے سائے سے بھی ڈرنے لگیں گے۔ شکار گاہ پہنچے تو ہم نے دل ہی دل میں تہیہ کرلیا کہ چونکہ فی شکاری فقط چھ پرندے شکار کرنے کی اجاز ت ہوتی ہے اس لئے ہم ابتدائی نصف گھنٹے میں ہی اپنا ہدف مکمل کرکے ندی کے نیلگوں پانی میں پیر ڈبو کر اپنے دیگر پیٹی بھائیوں کو شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا دیکھیں گے۔ہمارا میزبان میاں عاصم جو کہ خود بہت عمدہ شکاری ہے۔ آج صرف مہمانداری کررہا تھا ورنہ اس کی بٹیر دشمنی بھی خاصی مشہور ہے۔ پانچ شکاریوں کا پرا یعنی قطار بنا کر ہمیں پوانٹر کتوں اور چار ڈھنڈورچیوں کے ساتھ جھاڑیوں میں جھونک دیا گیا۔ پہلے منٹ کے اندر اندر چار فائر ہوئے۔ ماسوائے ہمارے، ہر شکاری کے سامنے تیر فلیش کیا اور اپنے انجام کو پہنچا، تاہم ہمارے سامنے چونکہ کچھ بھی نہ آیا تھا اس لئے ہم فقط دوسروں کی قسمت پر ہی رشک کرتے آگے بڑھتے گئے۔ چند منٹ بعد پھر یہی کچھ ہوا اور ہم بھی پھر سے وہی کچھ کرنے لگے جو ہم نے چند منٹ پہلے کیا تھا۔اس کے بعد کافی دیر تک بندوقیں خاموش رہیں۔ ہماری چھٹی حس جو ایسے موقعوں پر نہایت بیہودگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً ہر بات ہی غلط سلط بتاتی ہے،جھاڑیوں کے ایک جھنڈ کی طرف ا شارہ کرنے لگی کہ اس جھنڈ میں بہت کچھ موجود ہے۔ جھاڑیوں کے عقب میں ایک طویل سرسراہٹ بھی ہوئی اور لمحہ بھر کے لئے محسوس ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ تیتراس جھاڑی سلسلے میں چھپے بیٹھے ہیں۔اگلے ہی لمحے انتہائی خطرناک سائز کے درجن بھر سور نکل کر ایک طرف کو ہولئے۔ ہماری بندوقوں میں جس نمبر کے کارتوس تھے ان سے ان کمبختوں کو گدگدی بھی نہیں ہوسکتی تھی ،چنانچہ عافیت چپ سادھے رکھنے میں ہی جانی اور اپنی چھٹی حس کو کوستے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے۔ایک بار پھر بندوقیں گرجیں، ایک گڑھا نما گھاٹی سے تقریباً پچاس تیتر ایک ساتھ بلند ہوئے۔ یہ واردات بھی ہم سے تقریباً ایک فرلانگ دور ہوئی اور ایک بار پھر ہم ہاتھ ، ماتھا و دیگر مقامات ملتے رہ گئے۔ یاس اور ناامیدی کی تصویر بنے ہم شکار پارٹی سے کافی حد تک کٹ چکے تھے۔ اچانک ایک بٹیر شومئی قسمت سے بلند ہوا اور ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتا ایک طرف کو ہولیا ،گویا اسے بھی یقین تھا کہ ہم آج شکار کی غرض سے نہیں بلکہ آلو کی فصل پر سپرے کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں۔ خیر اس نابکار کو نہایت آسانی کے ساتھ پھڑکایا اور اگلی جھاڑیوں میں جا گھسے۔ ایک بھاری بھرکم تیتر ہم نے ایک جھاڑی سے سرک کر دوسری میں گھستا دیکھ لیا تھا۔ ادھر ادھر نگاہ ڈال کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ قبلہ سجاد شاہ صاحب اس وقت ہم سے کافی فاصلے پر تھے۔ اب صر ف ہم تھے یا وہ مکار تیتر جو اپنے تئیں یہی سمجھ رہا تھا کہ ہم نے اسے جھاڑی عبور کرتے نہیں دیکھا۔ فرط مسرت سے ہمیں وہ چوٹ بھی یاد نہ رہی جو ہم نے دس منٹ پہلے ایک جھاڑی میں پیر الجھنے کی وجہ سے سینے اور منہ کے بل گر کر کھائی تھی۔ تیتر کے کچے اور گرم گوشت کی باس نتھنوں میں محسوس کرکے اور ایک وحشیانہ سے اطمینان کے ساتھ جھاڑی کی مشرقی جانب کھڑے انگشت شہادت کے ساتھ اپنی تنی ہوئی بندوق کی لبلبی سہلاتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ اگر تیتر جھاڑی کی مغربی جانب سے نکل بھاگا تو پھر بھی ہمارے پاس تین چار سیکنڈ ہوں گے کہ اسے پیچھے سے شوٹ کرسکیں۔اتنے میں وہی ہوا جس کا ہمیں اندازہ پہلے سے ہی ہوچکا تھا اور ہم جس کے لئے تیار بھی تھے۔ تیتر جھاڑی کی مغربی جانب سے نکل کر تیزی کے ساتھ بلند ہوا۔ ہم نے بندوق سیدھی کی اور ایک دھماکہ ہوا۔ ہم حیران تھے کہ ہم نے تو ابھی فائر کیا ہی نہیں اور آس پاس کوئی شکاری بھی موجود نہیں، تو پھر یہ دھماکہ کیسے ہوا۔ ہم چکر کاٹ کر جھاڑی کی دوسری جانب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارا دوست سردار شہریار موکل جس کا آج کی شکار پارٹی میں نام و نشان تک نہیں تھا، نجانے کہاں سے آن ٹپکا اور تیتر کو مار گرانے کے بعد کسی ماہر مرغی فروش کی طرح اس کے وزن کا اندازہ کررہا تھا۔ کہنے لگا ’’آفتاب بھائی دیکھیں میں نے ٹوٹی ہوئی بندوق سے اسے شکار کیا ہے‘‘۔’’وہ تو ٹھیک ہے شہریار‘‘ ہم نے حیرت اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا،’’مگر تم اترے کس درخت سے ہو، تمہارا تو آج کے شکار میں کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا‘‘۔ہمارے میزبان کی دلی خواہش تھی کہ ہم جاتے جاتے کم از کم ایک تیتر ضرور مار لیں گے مگر ہمیں بہرصورت لاہور پہنچ کر رات گیارہ بجے اپنا لائیو شو کرناتھا۔ ہمارے ایک اور عزیز از جان دوست اور ماہر شکاری سید بلال شاہ مصطفیٰ آبادی کا قول ہے کہ’’اگر آپ سارا دن شکار کی تلاش میں جنگل کی خاک پھانکتے رہیں اور تب بھی شکار نہ ملے تو بجائے مایوس ہونے کے، اگلے شکار کی تیاری کریں اور ہرگز ہرگز افسردہ نہ ہوں‘‘ تاہم ہماری افسردگی کی وجہ شکار کا ہمارے سامنے نہ آنا ہرگز نہیں تھا بلکہ ہم دکھی تھے تو فقط اس بات پر کہ اس علاقے کے تیتر آخر ہم سے ہی کیوں پردہ کرتے رہے۔ دوسروں کے سامنے تو کمبخت پھدک پھدک کر آتے جارہے تھے۔ ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرح ان تیتروں کے بھی کسی نے ہمارے خلاف کان بھرے ہوں گے ورنہ اتنی بے رخی کا مظاہرہ تو ایمپائر نے بھی عمران خان کے ساتھ نہیں کیا جتنی نواز شریف اور چند بے مروت قسم کے تیتر ہمارے ساتھ کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں کچھ کرنا پڑے گا، ہیں جی!