ماروی کے دیس تھر کا تقریباً ڈیڑھ سال بعد یہ دوسرا دورہ تھا۔ فروری 2015ء میں لاہور کے کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ تھر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس وقت تھر کے مناظر کچھ اور تھے لیکن اس ستمبر میں ’’پیاس اور افلاس کے صحرا‘‘ تھر کے مناظر بہت دلکش تھے۔ بارشوں کے بعد ریت کے ٹیلوں نے سبز چادریں اوڑھ لی تھیں۔ ہر طرف ہریالی تھی۔ یہ وہ مناظر ہیں، جن کے لئے ماروی عمر سومرو کے محل کے قید خانے میں تڑپ جاتی تھی۔ ’’کتنے خوش ہوں گے اے عمر وہ لوگ۔ رت ہے برکھا کی آج کل تھر میں۔۔ کہتی ہوں گی ملیر کی سکھیاں۔ کاش آجائے ماروی تھر میں‘‘ (حضرت شاہ عبداللطیفؒ کے بیت سے اقتباس)۔ یہ مناظر دیکھ کر اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ یہ دنیا کا واحد زرخیز ریگستان ہے ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘ کے مصداق یہاں کی زمین میں حیرت انگیز حد تک زرخیزی ہے۔ تھوڑی سی بارش سے سبزہ اگ آتا ہے۔ ورنہ دنیا کے دیگر صحرائوں میں جتنی بھی برسات پڑے، وہ نہ تو اپنے بنجر پن سے دستبردار ہوتے ہیں اور نہ ہی ز ندگی کے ساتھ اپنی دشمنی ختم کرتے ہیں۔ تھر دنیا کے دیگر صحرائوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں زندگی ہے۔ تہذیب ہے، ثقافت ہے، موسیقی ہے، ادب ہے، شاعری ہے اور وہ سب کچھ ہے جو انسانی تہذیب کو عروج پر لے جاسکتا ہے۔ یہاں کے آثار قدیمہ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ علاقہ تہذیب وثقافت کا مرکز رہا ہے۔ مٹھی شہر میں کئی سو فٹ بلند ایک ٹیلا ہے، جسے گڈی بھٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک قلعہ ہے، جو اب تباہ ہوچکا ہے۔ تباہ ہونے والے قلعہ کو مقامی زبان میں ’’گڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب وہاں لوگوں کے لئے تفریح گاہ بنادی گئی ہے۔ رات کے وقت گڈی بھٹ سے مٹھی شہر کا نظارہ حیرت انگیز تھا۔ دور دور تک روشنیوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ شہر بہت پھیل چکا ہے۔ مجھے 2003ء کا وہ منظر بھی یاد ہے، جب مٹھی ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اس ریگستانی شہر میں آبادی کے تیزی سے اضافے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہاں ریسورس آسموسز (آر او) پلانٹس کے ذریعے لوگوں کو پینے کا میٹھا پانی میسر ہورہا ہے اور تھر میں شاندار سڑکیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں۔ اس رات گڈی بھٹ پر لوگوں کا بہت رش تھا۔ ہندو مرد اور خواتین کے نئے کپڑوں سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ آج ان کا کوئی مذہبی تہوار ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ’’شری گنیش‘‘ کی پوجا کی آج آخری رات ہے۔ صبح شری گنیش کی مورتی کا دریا میں بہانے کے لئے کوٹری لے جایا جائے گا۔ ہم یہ پوجا دیکھنے کے لئے مٹھی کے شیو مندر پہنچے، جہاں ہنود نامی نوجوان نے ہمارا استقبال کیا اور رش کے باوجود مندر کے تمام حصوں کا دورہ کرایا۔ بھجن گائے جارہے تھے۔ یہ بہت بڑا مذہبی اجتماع تھا لیکن کوئی سیکورٹی نہیں تھی۔ وہاں سے رات دیر گئے اپنے ریسٹ ہائوس کے لئے روانہ ہوئے تو ایک اور حیران کن منظر دیکھا۔ مٹھی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر گائے اور بیلوں کا راج تھا، جو کہ آزادانہ گھوم پھر رہے تھے۔ ہمارے استفسار پر بتایا گیا کہ ہندومت میں گائے کو ماتا کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں گائے اور بیل ذبح نہیں کئے جاتے۔ اس لئے مٹھی میں بڑا گوشت نہیں ملتا۔ مسلمان بھی وہاں گائے اور بیل ذبح نہیں کرتے۔ مٹھی میں بڑی تعداد میں مندروں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی ہیں۔ اذان کے وقت پورا مٹھی اذان کی آوازوں سے گونج رہا ہوتا ہے لیکن وہاں مذہب کے نام پر جھگڑا تو کیا، کبھی کشیدگی بھی نہیں ہوئی۔ مذہبی رواداری کی ایسی مثال پوری دنیا میں شاید کہیں نہیں ملے گی۔ صرف مٹھی ہی نہیں، پورے تھر میں یہی صورت حال ہے۔ دوسرے دن ہم مٹھی سے نگرپارکر روانہ ہوئے۔ مٹھی سے 96 کلومیٹر دور اسلام کوٹ اور نگر پارکر کے درمیان قدیم گوری (یاگوڑی) کے مندر پہنچے۔ یہ مندر ہندوستانی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ جین مت کا مندر ہے۔ جین مت ہندو مت سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ کچھ آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مندر 300 عیسوی میں تعمیر ہوا جبکہ ممتاز مورخ رائے چند راٹھور اپنی کتاب ’’قدیم تھر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ مندر 599 سے 527 قبل مسیح میں تعمیر ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مندر گرتا جارہا ہے، جیسے یہ وقت کے آگے آہستہ آہستہ ہتھیار ڈال رہا ہو لیکن صحرا میں اس کی موجودگی اس امر کا پتہ دیتی ہے کہ یہ علاقہ ایک متحرک ثقافت کا مرکز تھا۔ مندر کے صحن میں ایک مقامی فنکار اپنے ساتھیوں اور موسیقی کے روایتی آلات کے ساتھ گا رہا تھا۔ اس کی آواز میں کیا سوز تھا اور کیا کشش تھی؟۔ ہم کافی دیر تک اسے سنتے رہے۔ اس نے تھری زبان میں وہ روایتی گیت بھی سنایا، جو مہمانوں کی آمد پر گایا جاتا ہے۔ اسے سنتے ہوئے تھر کے اونچے نیچے ٹیلوں اور کھائیوں میں ایک آہنگ نظر آیا۔ دوسرے ریگستانوں کے برعکس تھر محبت کرنے والا اور زندگی کے احساسات سے لبریز دکھائی دیا۔ تھر میں ایسے بے شمار فنکار اور فنکارائیں ہیں، جن کے فن میں مشکل ترین زندگی کی ریاضت ہے۔ ممتاز مرزا اور عبدالکریم بلوچ جیسے لوگ ہی ان فنکاروں کو باقی دنیا کے لئے دریافت کرسکتے ہیں۔ گوری مندر جیسے کئی مندر تھر میں موجود ہیں۔ کارونجھر پہاڑ کے درمیان میں بوڈھیسر مندر بھی گئے۔ یہ مندر بھی جین اور ہندو طرز تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔ یہ بھی اسی عہد میں تعمیر ہوا، جب گوری مندر تعمیر ہوا ہوگا۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس مندر کے گنبد پر لکھا ہوا تھا ’’ماتھو وڈھ۔ مال گڈھ‘‘ (یعنی سرکاٹو اور مال نکالو)۔ صدیوں تک یہ بات کسی کو نہ سمجھ آئی۔ صدیوں بعد کسی نے گنبد کو توڑا تو اس میں سے سونا نکلا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ مندر بھی مزید تباہ حالی کا شکار ہوا۔ یہ بھی روایت ہے کہ ان مندروں کو انگریزوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہاں حریت پسند جمع ہوتے ہیں اور برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کارونجھر پہاڑ کے دامن میں آباد نگرپارکر شہر پہنچنے سے پہلے ہم نے ماروی کا کنواں بھی دیکھا۔ ماروی کے گوٹھ بھالوا ملیر کے قریب یہ وہی کنواں ہے ،جہاں سے عمر کوٹ کے بادشاہ عمر سومرو زبردستی ماروی کو اپنی ساتھ لے گیا تھا اور اسے اپنے محل میں رکھا تھا لیکن ماروی نے عمر سومرو کی شہزادی بننے کی پیشکش اور محل کی آسائشیں ٹھکرادیں اور اپنے غریب لوگوں کے پاس جانے کے لئے بضد رہی۔ اسی لئے ماروی کو وطن اور اپنے لوگوں سے محبت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ تھر میں جگہ جگہ وطن اور مٹی سے محبت کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ مٹی سے محبت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ لوگ بھوک، پیاس اور سخت گرمی میں صرف چند مہینوں کے لئے نہری علاقوں میں نقل مکانی کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ وہ تھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔ تھر کے لوگوں کو پانی میسر آجائے تو تھر کی زمین نہ صرف بہت زیادہ زرخیز ہے بلکہ تھر کوئلے اور دیگر معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی طور پر بھی مالامال ہے۔ دنیا کا یہ واحد زرخیز ریگستان پاکستان کے امیر ترین علاقوں میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ آر او پلانٹس کے ذریعے پانی کی فراہمی کے منصوبوں نے تھریوں کی زندگی تبدیل کردی ہے لیکن وہاں پانی کے مزید وسائل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھرپارکر کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پاکستان کے دیگر تمام اضلاع کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ اگر یہاں ہیومن ڈیولپمنٹ پر تھوڑی توجہ دی جائے تو یہ علاقہ انڈیکس میں سرفہرست آسکتا ہے۔ یہ زندگی کی روایات کا امین اور وسائل سے مالامال صحرا ہے۔
.